تعلیم و تعلم یعنی سیکھنے کا سلسلہ پاکستان میں 9 سال جاری رہا، جس میں حفظ وتجوید بھی شامل ہے۔حفظ کے بعد جامعہ رحمانیہ میں 5 سال سے کچھ عرصہ زائد تعلیم حاصل کی،پھر جامعہ اسلامیہ مدینہ یونيورسٹی میں داخلہ ہوگیا، یہاں کلیہ شریعہ میں 4 سال تعلیم حاصل کرنے کا موقعہ ملا، اس طرح یہ کل 13 سال بنتے ہیں۔
1989ء کے شروع میں جامعہ رحمانیہ سے باقاعدہ تدریس کا آغاز کیا، اور 1995ء تک تقریبا سات سال یہاں پڑھاتا رہا، پھر بعد میں دعوت وتبلیغ کے سلسلہ میں سعودی عرب چلا گیا۔
سوال :دعوت و تبلیغ کے میدان میں خدمات کے حوالے سے کچھ فرمائیں۔
جواب:جامعہ رحمانیہ لاہور میں تدریس کے ساتھ ساتھ خطبہ جمعہ بھی دیا کرتا تھا، بعد میں جب 1996 میں سعودی عرب چلا گیا، تو وہاں دوسرے علمی کام کے ساتھ ساتھ مکاتبِ جالیات ، اوردعوة سنٹرز میں دروس وغیرہ کا سلسلہ شروع ہوگیا، جبکہ خطبہ جمعہ سب سے پہلے ’بن لادن ‘کمپنی میں پھر ایک اور کمپنی میں، اور اب ’المشرق ‘ نامی کمپنی میں پڑھاتا ہوں۔جب پاکستان آتا ہوں تو یہاں نماز فجر کے بعد یومیہ درس، اور جمعہ کا خطبہ ہوتا ہے۔ اسی طرح سعودی عرب ’’ إدارة المساجد والمشاریع الخیریة‘‘ کیساتھ وابستہ ہوا، تو میں ’لجنۃ آسیا‘ یعنی ’ ایشیا کمیٹی‘ کا جنرل سیکرٹری تھا، جس میں عہدۃً اور عملاً سارے کام میرے ہی سپرد تھے۔
پاکستان میں دورانِ تدریس دار السلام کی طرف سے چھپنے والی مختلف اردو کتابوں کی نظرثانی کرنے کا موقعہ ملا، جیسا کہ منہاج المسلم وغیرہ۔سعودی عرب جاکر شیخ عبداللہ محمد المعتاز کے ساتھ منسلک ہوگیا، کیونکہ وہ ’’ إدارة المساجد ‘‘ کے مؤسس وبانی ، اور اس وقت دارالسلام کے مالک بھی تھے۔ تفسیر سے متعلق ان کی ایک کتاب ہے،”الفوائد الحسان من آیات القرآن“ جو کہ پانچ جلدو ں میں چھپی، اس ساری کتاب کی نظر ثانی اور اصلاح میں نے ہی کی تھی،حتی کہ بعض جگہوں پر اسلوب کو تبدیل کیا، اور بعض نحوی اغلاط کو درست کیا ۔
اسی طرح ’المصباح المنیر‘ جو کہ “تفسیر ابن کثیر” کا اختصار ہے، اس پر ہم چار لوگوں کے گروپ نے کام کیا، جبکہ ہمارے سرپرست اعلی مولانا صفی الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ تھے، دارالسلام ریاض نے اسے پبلش کیا تھا۔
اسی طرح ”تفسیر السعدی“ پر ہم نے علمی کام کیا تھا ہم چار لوگوں کا مجموعہ تھا،اس تفسیر کا اسلوب بڑا عمدہ اور نفیس ہے ، پروف ریڈنگ میں نے کی، اورتقریبا 20 جگہوں پر قواعدِ عربیت کی روشنی میں اصلاحی حواشی لکھے،یہ تفسیر پہلے ڈاکٹر عبدالرحمن بن معلا اللویحق کی تحقیق سے چھپ رہی تھی، جب ہم نے اس پر کام فائنل کرلیا،تو تمام ساتھی کہنے لگے کہ آپ ہی محقق کے پاس جائیں، چونکہ تعلیقات آپ نے لگائی ہیں۔ لہذا میں شیخ لویحق کے پاس جاکر تبادلہ خیال کرتا رہا،شیخ جب اس مقام پر آتے جہاں میں نے تعلیقات لگائی ہوتیں، تو سر پکڑ کر بیٹھ جاتے اور حیرانی سے کہتے کہ ،لوگ کیا کہیں گے کہ یہ ایک پاکستانی ہمارے شیخ پر اصلاحی حواشی لکھ رہا ہے؟! خیر میں نے کوئی بلاوجہ نہیں ، بلکہ ساتھ ہر جگہ وجہ اور سبب بھی ذکر کیا ہوا تھا۔
پھر بھی شیخ تسلی کے لیے اپنے بھائی کو کال کرتے جو پی ایچ ڈی ڈاکٹرتھے، اور قواعد عربیہ پر کافی عبور رکھتے تھے ،ان سے پوچھتے کہ کیا اس نے یہ تعلیقات صحیح لگائی ہیں؟ تو وہ میری تائید کردیتے۔
یہ نہیں تھا کہ میں ان سے زیادہ جانتا تھا بلکہ وہ اکثر مقامات میں قصیم لہجے کو اختیار کرلیتے تھے اور میں فصیح عربی کے اعتبار سے اصلاحات کرتا تھا۔ خیر پھر بھی شیخ کہنے لگے کہ اس اسلوب کو لوگ قبول نہیں کریں گے، کہ ایک اجنبی، پاکستانی ہمارے عربی علامہ اور امام کی اصلاحات کر رہا ہے۔ چنانچہ ہم نے اس میں اسلوب ِ بیان کو تبدیل کردیا ،اور ہر مقام پر یوں لکھ دیا:”في الأصل کذا، ولعل الصواب کذا“۔
ہم نے ارھاب کے موضوع پر ایک کتاب ترتیب دی، جس کا نام یوں رکھا:
الإرهاب مفهومه، أشکاله وصوره،أسبابه،آثاره،حکمه، علاجه وموقف ولاة الأمر فی المملکة العربية السعودیة، وعلماء المسلمین منه.دراسة علمیة شرعیة.
اس کتاب کی تقدیم تین نمایاں شخصیات نے کی ،حرم کے امام اور خطیب صالح بن عبداللہ حمید ، فضیلۃ الشیخ عبداللہ محمد المعتاز ،فضیلۃ الشیخ الدکتور ابراہیم محمد ابوعباة، جو کہ سعودی عرب کی قومی سیکورٹی فوج میں ’دعوت و ارشاد‘ کے رئیس تھے۔
یہ کتاب اپنی مباحث کے اعتبار سے بالکل منفرد تھی،اس میں ہم نے سعودی عرب کے تحفیظ القرآن الکریم کے اداروں سے لیکر، اندرون وبیرون سعودی عرب جتنے بڑے بڑے دینی ادارے، دعوتی سنٹرز ، اور مدارس وجامعات تھے، ان سب کی نمایاں شخصیات، اور مشایخ وعلماء کا ذکر کیا،جن میں پاکستان سے محدث العصر ثناء اللہ مدنی حفظہ اللہ، پروفیسر ساجد میر صاحب، انڈیا سے شیخ اصغر امام مہدی امیر مرکزی جمعیت اہلحدیث ہندوستان وغیرہ شامل تھے۔
جب یہ کتاب شائع ہوئی تو ہمیں بڑی بڑی نمایاں شخصیات کے تشکر وتبریک پر مبنی پیغامات موصول ہوئے اور بہت سارے افراد اور اداروں نے اسے خرید کر وسیع پیمانے پر تقسیم بھی کروایا۔
اسی طرح آج سے چار سال قبل رابطة العالم الاسلامی نے دہشت گردی سے متعلق پوری دنیا سے انٹیلی جنس اداروں کی ایک کانفرنس منعقد کی تھی، جس میں انہوں نے ہماری اس کتاب کو اپنے مونو گرام کیساتھ چھاپ کر تقسیم کیا۔
ہماری دوسری کتاب “طاعة ولي أمر المسلمین من أعظم واجبات الدین “ہے۔اس کتاب کی تقدیم بھی امام و خطیب ِحرم صالح بن عبداللہ بن حمید نے کی تھی۔ کتاب چھپوانے کے لیے اجازت نامہ لینا پڑتا ہے، اس کتاب کے متعلق دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کا ’اذنِ طباعت‘ ہمیں اٹھارہ ماہ بعد وصول ہوا ۔سب سے پہلے وزارتِ صحافت وثقافت نے، پھر وزارتِ داخلہ ، پھر حساس اداروں نے اچھے طریقے سے اس کتاب کو پڑھا،کیونکہ یہ ایک حساس موضوع تھا اور پھر مصنفین میں سعودی شیخ کیساتھ ایک پاکستانی نام بھی شامل تھا (میری تمام کتابوں کی تالیف میں شیخ عبداللہ بن عبدالعزیز البکری شامل رہے ہیں)۔کچھ الفاظ کے بارے میں انہوں نے کہا کہ یہ بہت سخت ہیں ،ان کو حذف کردیا جاے۔
تیسری کتاب: “الخروج على ولي أمر المسلمين من أعظم محرمات الدین” ہے۔اس کتاب پر تقریظ فضیلۃ الشیخ عبداللہ بن محمد المطلق حفظہ اللہ نے لکھی۔ اجازت نامہ ہمیں چار ماہ بعد وصول ہوا ۔
ان کتابوں کی سب سےنمایاں خوبی یہ ہے کہ کسی بھی موضوع سے متعلق جتنے علمی فوائد، تحقیقی نکات، شروع سے لیکر اب تک مختلف مقامات پر متفرق تھے، ہم نے ان سب کو تنظیم وترتیب کے ساتھ ایک جگہ پر جمع کردیا ہے، ہر کتاب میں یہ لکھا ہوا ہے:’’في ضوء الکتاب والسنة ومنهج السلف الصالح ‘‘ یعنی یہ سب چیزیں کتاب وسنت اور سلف صالحین کے منہج کے مطابق ہیں۔
مزید جو کام جو ہم نے کیا، ان میں سے ایک صحیح البخاری کی شرح ہے، جو شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ الراجحی نے لکھی ہے، جو شیخ ابن باز کے شاگرد ہیں،ان کی یہ کتاب 14 جلدوں میں چھپی ہے، اس کتاب کی دو جلدوں (مسائل حج وعمرہ) کی مراجعت ونظرثانی میں نے کی تھی، اور کئی ایک مقامات پر عبارات، اسلوبِ بیان اور مسائل محلِ نظر تھے، جن کے ذریعے شیخ سے رابطہ تھا، جب ان کو مطلع کیا گیا، تو انہوں نے کہا کہ آپ براہِ راست شیخ سے تبادلہ خیال کرلیں، لہذا شیخ سے مجلس ہوئی، اور میں نے جہاں جہاں نشان لگائے تھے، شیخ کو عرض کی کہ یہ اسلوب بیان اور مسائل جمہور علماء اور بالخصوص شیخ ابن باز کے منہج کے خلاف ہے،شیخ نے اعتراف کیا اور حیرانگی سے کہنے لگے کہ میں نے تو ایسے نہیں لکھا تھا،یہ کیسے ہوگیا؟! بہرکیف شیخ محترم نے وہ اصلاحات قبول کرلیں۔ اسی طرح شیخ کی ’احکامِ صیام‘ کی نظرثانی بھی میں نے کی تھی۔
اسی طرح پروفیسر ساجد میر صاحب کی کتاب عیسائیت، مطالعہ و تجزیہ،اردو سے عربی میں مختلف علماء کرام سے ترجمہ کروایا گیا تھا، جس میں بہت سی غلطیاں موجود تھی، میں نے بڑی محنت کرکے اسے فصیح عربی میں ڈھالنے کی کوشش کی۔ایک فصیح عربی اسلوب ہوتا ہے ایک لفظی ترجمہ ہوتا ہے، دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے،اگر لفظی ترجمہ ہو تو عرب اسے قبول نہیں کرتے۔
یہ میرا کچھ علمی کام ہے جو اللہ کی توفیق کیساتھ مکمل ہو کر منظرِ عام پر آگیا ہے، اور کچھ پراجیکٹس ابھی زیرِ کتابت و طباعت ہیں۔ وللہ الحمد۔
جن موضوعات پر میں نے موادجمع کرلیا تھا لیکن پھر اس پر کام نہ کرسکا وہ درج ذیل ہیں
(1) فتنة التكفير، جو کہ بہت خطرناک اور حساس موضوع ہے۔
(2) فتنة الغلو في الدين
(3) الاسلام دین الوسطیة والاعتدال
(4) المفهوم الصحيح للجهاد، شروط وضوابط.
(5)معاملة غیر المسلمین فی بلاد الإسلام، اس پر تو میں نے اتنا مواد جمع کرلیا تھا کہ یہ مکمل پی ایچ ڈی کا مقالہ بن سکتا تھا۔