سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(455) جانور وغیرہ سے جنسی عمل کی سزا

  • 9933
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 4891

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا اس بکری پر بھی حد قائم کی جائے گی ‘ جس سے کسی انسان نے جنسی عمل کیا ہو؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اللہ تعالیٰ نے انسان کیلئے یہ حلال قرار دیا ہے کہ وہ اپنی بیوی اور باندی سے لطف اندوز ہو اور انہیں سے اپنی جنسی تسکین کا سامان فراہم کرے‘ ہاں البتہ حالت حیض وغیرہ میں ان سے بھی جنسی عمل حرام ہے۔ بیوی اور باندی کے علاوہ کسی اور سے جنسی عمل کو حرام اور حدود سے تجاوز قرار دیا ہے چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَالَّذينَ هُم لِفُر‌وجِهِم حـٰفِظونَ ﴿٥ إِلّا عَلىٰ أَزو‌ٰجِهِم أَو ما مَلَكَت أَيمـٰنُهُم فَإِنَّهُم غَيرُ‌ مَلومينَ ﴿٦ فَمَنِ ابتَغىٰ وَر‌اءَ ذ‌ٰلِكَ فَأُولـٰئِكَ هُمُ العادونَ ﴿٧﴾... سورة المؤمنون

’’اور جو لوگ اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں مگر اپنی بیویوں سے یا (کنیزوں سے) جو ان کی ملک ہوتی ہیں کہ (ان سے مباشرت کرنے سے) انہیں ملامت نہیں اور جو ان کے سوا اوروں کے طالب ہوں تو وہ (اللہ کی مقرر کی ہوئی) حد سے نکل جانے والے ہیں‘‘۔

اس سے معلوم ہوا کہ انسان کا بکری اور دیگر حیوانات وغیرہ کے ساتھ جنسی عمل حرام اور حدود الٰہی سے تجاوز ہے لیکن اس سے اس طرح حد واجب نہیں ہوتی جس طرح عورت سے زنا کرنے سے حد واجب ہوتی ہے بلکہ اس سے صرف تعزیر واجب ہوگی جو حاکم وقت کی صوابدید کے مطابق ہوگی۔

بکری وغیرہ پر کوئی حد یا تعزیر نہیں ہے کیونکہ وہ احکام شریعت کی مکلف نہیں ہے لیکن اسے علاقے میں نظروں سے دور کر دینا چاہئے جہاں اس کے ساتھ جرم کیا گیا ہو یا تو اسے فروخت کر کے دور کر دیا جائے یا ذبح کر کے اس کو آنکھوں سے اوجھل کر دیا جائے تاکہ یہ جرم بھلا دیا جائے اور لوگ اس موضوع پر گفتگو کرنے سے رک جائیں۔ جانور کے بارے میں اسے حد یا تعزیر سے تعبیر نہیں کیا جائیگا کیونکہ اس کے مالک ہی کو یہ اختیار ہے کہ وہ اسے ذبح کرے یا بیچ دے کسی اور کو اس پر زیادتی کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ نبی اکرمﷺ سے بھی یہ روایت کیا گیا ہے کہ جس جانور کے ساتھ وطی کی گئی ہو توا سے قتل کر دیا جائے لہٰذا جانور اگر ماکول اللحم مثلاً بکری وغیرہ ہو تو زیادہ بہتر یہ ہے کہ اسے ذبح کر دیا جائے تاکہ اس حدیث پر عمل ہو سکے اور اس بات کو بھی فراموش کر دیا جائے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج3ص410

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ