سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(51) عذابِ قبر اور اس کی حقیقت

  • 918
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 1399

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا عذاب قبر ثابت ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

عذاب قبر قرآن وسنت کی واضح اور ظاہر نصوص اور مسلمانوں کے اجماع سے ثابت ہے اور یہی تینوں ادلہ شرعیہ ہیں۔ سنت سے اس کی واضح دلیل یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:

«تَعَوَّدُوْا بِاللّٰهِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ ، تعوذوابالله من عذاب القبر،تعوذوابالله من عذاب القبرِ۔»(صحیح مسلم، الجنة باب عرض مقعد المیت من الجنة والنار… ح:۲۸۶۷۔)

’’تم عذاب قبر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرو، یہ جملہ تین مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بطورتاکید دہرایا۔‘‘

مسلمانوں کے اجماع سے دلیل: تمام مسلمان اپنی نماز میں یہ دعا کرتے ہیں: (اَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ عَذَابِ جَهَنَّمَ وَمِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ) ’’میں اللہ تعالیٰ کی عذاب جہنم اور عذاب قبر سے پناہ چاہتا ہوں۔‘‘ حتیٰ کہ عام مسلمان بھی جو نہ علماء میں سے ہیں اور نہ اہل اجماع میں سے وہ بھی اپنی نماز میں یہ دعا کرتے ہیں۔

 جہاں تک قرآن مجید کے واضح نصوص کا معاملہ ہے تو جیسے کہ آل فرعون کے بارے میں حسب ذیل‘

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿النّارُ يُعرَضونَ عَلَيها غُدُوًّا وَعَشِيًّا وَيَومَ تَقومُ السّاعَةُ أَدخِلوا ءالَ فِرعَونَ أَشَدَّ العَذابِ ﴿٤٦﴾... سورة غافر

’’(وہ) آتش جہنم ہے جس پر صبح وشام انہیں پیش کیا جاتا ہے اور جس روز قیامت برپا ہوگی (حکم ہوگا کہ) فرعون والوں کو سخت عذاب میں داخل کرو۔‘‘

بے شک آتش جہنم کے سامنے انہیں اس لیے تو پیش نہیں کیا جاتا کہ وہ تفریح کریں اور خوشیاں منائیں یا تماش بینی کریں، بلکہ انہیں تو جہنم پر اس لیے پیش کیا جاتا ہے تاکہ انہیں آگ کا عذاب پہنچے اور وہ عذاب جہنم کا مزہ چکھیں۔ اسی طرح ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَلَو تَرى إِذِ الظّـلِمونَ فى غَمَرتِ المَوتِ وَالمَلـئِكَةُ باسِطوا أَيديهِم أَخرِجوا أَنفُسَكُمُ...﴿٩٣﴾... سورة الأنعام

’’اور کاش تم ان ظالم (یعنی مشرک) لوگوں کوا س وقت دیکھو جب وہ موت کی سختیوں میں (مبتلا) ہوں گے اور فرشتے (ان کی طرف عذاب کے لیے) اپنے ہاتھ بڑھا رہے ہوں گے کہ نکالو اپنی جانیں۔‘‘

 اللہ اکبر! نزع کے وقت وہ اپنی جانوں کے بارے میں بہت فکر مند ہوں گے اور اس بات کو قطعاً پسند نہیں کریں گے کہ ان کے جسموں سے ان کی جانیں نکلیں اور پھر ان سے کہا جائے گا:

﴿اليَومَ تُجزَونَ عَذابَ الهونِ بِما كُنتُم تَقولونَ عَلَى اللَّهِ غَيرَ الحَقِّ وَكُنتُم عَن ءايـتِهِ تَستَكبِرونَ ﴿٩٣﴾... سورة الأنعام

’’آج تم کو ذلت کے عذاب کی سزا دی جائے گی اس لیے کہ تم اللہ پر ناحق باتیں گھڑتے تھے اور اس کی آیتوں سے سرکشی کرتے تھے۔‘‘

اَلْیَوْم  کا ’’ال‘‘ عہد حضوری کے لیے ہے، اس سے مراد آج کا وہ دن ہے جو ان کی وفات کا دن ہے۔ مرادیہ ہے کہ آج تم کو ذلت کے عذاب کی سزا دی جائے گی، اس لیے کہ تم اللہ پر ناحق باتیں گڑھتے تھے اور اس کی آیتوں سے سرکشی کرتے تھے۔

اس سے معلوم ہوا کہ صریح سنت اور قرآن کے ظاہر نصوص اور مسلمانوں کے اجماع سے عذاب قبر ثابت ہے۔ قرآن مجید کا یہ ظاہر صریح ہی کی طرح ہے، کیونکہ مذکورہ بالا دونوں آیتوں سے عذاب قبر کی صراحت کے ساتھ وضاحت ہو رہی ہے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

 

فتاویٰ ارکان اسلام

عقائد کے مسائل: صفحہ106

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ