سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(182) کیا اس عورت پر عدت ہے؟ اور کیا وہ ورثہ پائے گی؟

  • 7903
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 1358

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میری ایک بہن ہے جب وہ ۱۴ سال کی ہوگئی تو اس کا اپنے چچا زاد بھائی سے نکاح ہوا لیکن رخصتی نہ ہوئی اور شوہر رضائے الٰہی سے فوت ہوگیا۔ مجھے مطلع فرمائیے کہ آیا میری بہن پر پوری عدت ہے یا نصف ہے یا کچھ بھی نہیں؟ نیز کیا وہ اس کے ترکہ سے ورثہ پائے گی۔ یہ خیال رہے کہ نہ وہ اسے شادی کے طور پر لینے آیا اور نہ ہی اسے زیور یا کوئی اور چیز دی… ہمیں مستفید فرمائیے۔ اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔‘‘(منصور۔ ع۔ الریاض)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اگر کوئی مرد اپنی بیوی پر داخل ہونے سے پیشتر فوت ہو جائے تو بیوی پر عدت بھی ہے اور وہ خاوند کے ترکہ میں وارث بھی ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

﴿وَ الَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْکُمْ وَ یَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا یَّتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِہِنَّ اَرْبَعَۃَ اَشْہُرٍ وَّ عَشْرًا﴾

’’تم میں سے جو لوگ فوت ہو جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں تو بیویاں چار ماہ دس دن تک انتظار کریں۔‘‘(البقرۃ: ۲۳۴)

اللہ تعالیٰ نے اس بات میں کوئی فرق نہیں کیا کہ آیا اس عورت پر خاوند داخل ہوا تھا یا نہ ہوا تھا بلکہ اس آیت میں حکم علی الاطلاق ہے، جو سب عورتوں کے لیے عام ہے۔

نیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت سی احادیث سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

((لَا تُحِدَّ امْرَاۃٌ عَلَی مَیِّتٍ فَوْقَ ثَلَاثَة ایامٍ إِلَّا عَلَی زَوْجٍ فَإِنَّہَا تُحِدُّ عَلَیْہِ أَرْبَعَة أَشْہُرٍ وَعَشْرًا))

’’کوئی عورت کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ نہ منائے۔ مگر اپنے خاوند پر وہ چار ماہ اور دس دن سوگ منائے۔‘‘

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس بات میں فرق نہیں کیا کہ وہ عورت مدخولہ ہو یا غیر مدخولہ۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَ لَکُمْ نِصْفُ مَا تَرَکَ اَزْوَاجُکُمْ اِنْ لَّمْ یَکُنْ لَّہُنَّ وَلَدٌ فَاِنْ کَانَ لَہُنَّ وَلَدٌ فَلَکُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَکْنَ مِنْ بَعْدِ وَصِیَّة یُّوْصِیْنَ بِہَآ اَوْدَیْنٍ وَ لَہُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَکْتُمْ اِنْ لَّمْ یَکُنْ لَّکُمْ وَلَدٌ فَاِنْ کَانَ لَکُمْ وَلَدٌ فَلَہُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَکْتُمْ مِّنْ بَعْدِ وَصِیَّة تُوْصُوْنَ بِہَآ اَوْدَیْنٍ وَ اِنْ کَانَ رَجُلٌ یُّوْرَثُ کَلٰلَة اَوِ امْرَاَة وَّ لَہٗٓ اَخٌ اَوْ اُخْتٌ فَلِکُلِّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا السُّدُسُ فَاِنْ کَانُوْٓا اَکْثَرَ مِنْ ذٰلِکَ فَہُمْ شُرَکَآئُ فِی الثُّلُثِ مِنْ بَعْدِ وَصِیَّة یُّوْصٰی بِہَآ اَوْدَیْنٍ﴾

’’اور جو مال تمہاری عورتیں چھوڑ مریں۔ اگر ان کی اولاد نہ ہو تو اس میں نصف حصہ تمہارا اور اگر اولاد ہو تو ترکے میں تمہارا حصہ چوتھائی (لیکن یہ تقسیم) وصیت کے بعد ہوگی جو انہوں نے کی ہو یا قرض کی ادائیگی کے بعد۔ اور جو مال تم چھوڑ مرو اگر تمہاری اولاد نہ ہو تو تمہاری عورتوں کا اس میں چوتھا حصہ اور اگر اولاد ہو تو اس کا آٹھواں حصہ۔ وصیت کی تعمیل کے بعد جو تم نے کی ہو، یا قرضہ کی ادائیگی کے بعد۔‘‘ (النساء: ۱۲)

اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بھی مدخولہ اور غیر مدخولہ کے درمیان فرق نہیں کیا۔ جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ تمام بیویاں اپنے کاوندوں کی وارث ہوں گی خواہ وہ مدخولہ ہوں یا غیر مدخولہ۔ جب تک کہ اس میں کوئی دوسرا شرعی عذر مانع نہ ہو۔ جیسے غلامی یا قتل اور دین کا اختلاف۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ابن بازرحمہ اللہ

جلداول -صفحہ 163

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ