سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(34) میلادمیں شریک ہونا اورقیام کرنا شریعت میں کیا حکم رکھتا ہے

  • 6491
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 1585

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میلادمیں شریک ہونا اورقیام کرنا شریعت میں کیا حکم رکھتا ہے آج کل اسلامی جماعت سے متعلق بعض مرداورعورتیں ان مجالس میں شریک ہوتے ہیں قیام بھی کرتے ہیں اور لوگوں کو قیام کو رغبت  بھی دلاتے ہیں اور اس کی تاویل یوں کرتے ہیں کہ ہماری نیت یہ ہوتی ہے کہ ہم خدا کے لئے قیام کررہے ہیں اس کو شریک نہیں کہا جاسکتا کیا ان کا کہنا صیح ہے کتاب وسنت سے مدلل فرمائیں،


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس قسم کی محافل میں شرکت حرام ہے اور شریک انسان مرتکب الکبیرہ ہے، انوار التوحید میں بحولہ تفتہ القضاۃ ہے، ويقومون عندتولده صلي الله عليه وسلم ريزعمون ان روحه تجى وحاضر فزعمهم باطل بل هذا االاعتقادوشرك ونذمنع الامته یعنی لوگ رسول ﷺ کی ولادت کا ذکر سن کر  (محفل میلاد میں )  کھڑے ہوجاتے ہیں اور گمان کرتے ہیں کہ آپؐ کی روح تشریف لاتی ہے اور آپؐ حاظر ہونے ہیں ان لوگوں کا یہ خیا ل باطل ہے بلکہ ایسا اعتقاد شرک ہے اور چاروں اماموں نے اس قسم ک عقیدوں سے منع کیا ہے ترمذی شریف میں حضرت انسؓ سے مروی ہے، لم يكن شخص احب اليهم من رسول صلي الله عليه وسلم وكانو اذاراوه لم يقوموالمايعلمون من كراهته ذالك یعنی صحابہ کرام ؓ کو سب سے محبوب رسول اللہﷺ تھے جب آپ کو دیکھتے تو کھڑے نہیں ہوتے تھے کیونکہ ان کو آپ کا اسے مکروہ سمجھنا معلوم تھا، اس روایت سے معلوم ہوا آپؐ نے اپنی حیات طبیہ میں اپنے لئے قیام کو مناسب نہیں سمجھا تو وفات کے بعد آپؐ کا ذکر سن کر قیام کرنا بطریق اولی منع ہے پھر قرون مفضلہ میں بھی اس کانام ونشان تک نہیں ملتا علامہ محمد عبدالسلام خضرہ الشقیری کی مشہورومعروف تالیف السنن والمبتدعات کے ص ۱۳۹ پر ہے، فاتهاذمولده مومهما والاحتفال به بدعة  منكرة ضلالة لم يروبها شرع ولاعقل ولوكان فى هذاخيرافكيف يغفل عنه ابوبكر وعمر وعثمان وعلى وسائرالصحابة والتابعين و بعيهم و الائمة واتباعهم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے من احدث فى امرنا هذا مانيسرمنه فهورد یعنی جو دین  میں نیا کام کرے وہ مردود ہے، دوسری روایت میں ہےعليكم بسنتى وسنة الخلفاء الرامثدين المهديين من بعد تمسكوابهاوعضواعليهابالنواجذواياكم ومحدثات الامورفان كل محدثة بدعة وكل بدعة ضلالة وزادالنسائى كل ضلالة فى النار قرآن مجید میں ہے ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّ‌سُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ  يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّـهِ وَرَ‌سُولِهِ وَاتَّقُوا اللَّـهَ إِنَّ اللَّـهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ﴾ عبداللہ بن مسعود کا قول ہے اتبعوالاتبتدعوافقدكفيتم طبرانی میں حدیث ہے ماتركت من شى يقربكم الى الجنة الاوقدحدثتكم ومامن شى يعبدكم عن النار الاوقدحدثتكم به دوسری حدیث میں ہے، تركتكم على البيضاء ليلها كنهارها لايزيغ عنها بعدى الا هالكابن الماجشون کا کہنا ہے میں نے مالک سے سنا من ابتدع فى الاسلام يراهاحسنةفقدزعم ان محمد صلي الله عليه وسلم خان الرسالة لان الله يقول اليوم اكملت لكم دينكم فمالهم يكن يومئذ دينا لايكون اليوم ديناالسنن دالمبتدمات ص۶ اسی صفحہ پر امام شافعی کا قول ہے من التحسن یعنی بدعتہ فقد شرح یعنی جس نے بدعت کو اچھاسمجھا اس نے نئی شرح ایجاد کرلی، باقی رہا بعض حضرات کا یہ دعوی کہ اس قسم کی مجالس میں حاظری  وقیام کے باوجود ہماری نیت خالصتہ اللہ کے لئے ہوتی ہے لہذا اسے شرک قرار نہیں دیا جاسکتا تو یہ دعوی سراسر غلط اور بے بنیاد ہے سنن ابوداود میں ثابت نب ضحاک کا بیان ہے رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ایک شخص نے نذر مانی تھی کہ وہ بوانہ مقام میں اونٹ ذبح کرے گا رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاظر ہوا آپؐ کو واقعہ کی اطلاع دی آپؐ نے فرمایا هل كان فيها وثن من اوثان الجاهلية يعبد قالو الا قال نهل كان فيها عيد من اعيادها قالو الافقال رسول الله صلي الله عليه وسلم اوف بندرك فانه لاوناء لنذر فى محصية الله ولا يملك ابن ادم یعنی کیا وہاں جاہلیت کے بتوں میں کوئی بت تھا جس کی پوجا ہوتی ہوانہوں نے کہا  نہیں فرمایا اپنی نذر پوری کر اللہ کو معصیت میں نذر کی وفاء نہیں اور نہ اس چیز میں جس کا انسان مالک نہ ہو نیز مشکوۃ جلد دوم ص۲۹۸ میں بحوالہ رزین ہے، ان امرأة قالت يا رسول الله و نذرت ان اذبح بمكان كذا وكذاكان تذبح فيه اهل  الجاهلية الخ یعنی ایک عورت نے کہا یا رسول اللہ میں نے نذر مانی ہے کہ فلاں فلاں مقام میں ذبح کروں جس میں اہل جاہلیت ذبح کرتے تھےفرمایا کیا ان کا وہاں کو ئی بت تھا جس کی پوجا ہوتی ہوکہا نہیں فرمایا وہاں ان کی کوئی عید تھی کہا نہیں فرمایا اپنی نذر پوری کر، ان احادیث سے معلوم ہوا شرک وبدعت وخرافات کے اڈوں پر جانا اور مشرکین ومبتدعین کی مجالس میں شمولیت اختیار کرنا منع ہے اگرچہ انسان کی نیت میں کتنا ہی خلوص کیوں نہ ہو لہذا اس قسم کی مجالس میں حاظری سے اجتناب لازمی ہے، من تشبه بقوم فهومنهم والله تعالى اعلم بالصواب وعلمه اتم  (الاعتصام جلد نمبر۳۱ شمارہ نمبر۷ )

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمائے حدیث

جلد 10 ص 75

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ