سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(621) تشریح مناسک حج -از قلم حضرت مولانا حافظ عبد للہ صاحب مولوی فاضل روپڑی)

  • 6419
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 3283

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

تشریح مناسک حج -از قلم حضرت مولانا حافظ عبد للہ صاحب مولوی فاضل روپڑی)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

تشریح مناسک حج

از قلم حضرت مولانا حافظ عبد للہ صاحب مولوی فاضل روپڑی

حج کی فرضیت

حج اسلام کے ارکان خمسہ سے ایک رکن ہے۔ جو ہر بالغ صاحب استطاعت مسلمان مردعورت پر عمر میں ایک دفعہ ادا کرنا فرض ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

وَلِلَّـهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا ۚ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ اللَّـهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ۔﴿٩٧ سورة آل عمران

اورحدیث میں ہے۔

 ’’جس شخص کوکسی ضروری حاجت نے یا ظالم بادشاہ یا سخت مرض نے نہ روکا ہو اور وہ بلاحج کئے مرجائے۔  تو خواہ یہودی ہوکر مرے یا نصرانی ہوکر۔‘‘

فضائل حج

اس بارے میں بہت سی روایات آئی ہیں۔ چند ایک زیل میں لکھی جاتی ہیں۔

1۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں۔  "الحج المبرور ليس له جزاء الا الجنة"

  ’’خالص حج کابدلہ صرف جنت ہے‘‘ (بخاری ومسلم) آپﷺ سے سوال ہوا کہ حج کا خالص ہونا کیا ہے۔ ؟  فرمایا:

"اطعام الطعام وطيب الكلام"

’’یعنی کھانا کھلانا اور کلام نرم کرنا۔‘‘

"من  حج فلم يرفث ولم يفسق رجع من ذنوبه ليوم ولدته امه"  ’’جس نے حج کیااورکسی طرح کی بدکلامی اور بدعملی نہ کی وہ گناہوں سے ایسا پاک ہوگیا جیسا مال کے شکم سے پیدا ہونے کے دن تھا۔‘‘

حج کی جامع فضیلت

حج میں بہت سے کام ہوتے ہیں۔ ہرکام کی فضیلت میں بہت سی حدیثیں آئی ہیں۔ ہم ان سے چند روایات زکر کرتے ہیں۔

زیارت بیت اللہ کی نیت سے سفر

حدیث میں ہے۔ ’’جب انسان زیارت بیت اللہ کی نیت سے گھر سے چلتا ہے۔ تو اس کے اور اس کی سواری کے ہرقدم اٹھانے اوررکھنے کے بدلے ایک نیکی لکھی جاتی ہے۔ اور ایک گناہ مٹایا جاتا ہے۔  (طبرانی کبیر)  دوسری روایت میں ہے تو یا تیری سواری جوقدم رکھے یا اٹھائے اس کے عوض ایک نیکی لکھی جاتی ہے۔ اور ایک درجہ بلند کیاجاتا ہے۔  (طبرانی اوسط)

طواف بیت اللہ

بیت اللہ شریف کے گرد سات چکر لگانے کا نام طواف ہے۔ حدیث میں ہے جو طواف بیت اللہ کرے اس کے لئے ہرقدم کے اٹھانے اوررکھنے میں خدائے تعالیٰ ایک نیکی لکھتا ہے۔ ایک گناہ معاف کرتاہے۔ اور ایک درجہ بلند کرتا ہے۔  (ابن خزیمہ) دوسری حدیث میں ہے  ’’کہ بیت اللہ کے گرد سترچکر لگانا غلام آذاد کرنے کے برابر ہے‘‘ ایک اور حدیث میں ہے۔ ’’خدائے تعالیٰ ہرقدم کے بدلے ستر ہزار نیکی لکھتا ہے۔ ستر ہزار گناہ معاف کرتا ہے۔  اورستر ہزار درجے بلند کرتا ہے۔  اور ا س کے اہل سے ستر شخصوں کے حق میں اس کی شفاعت قبول کرتا ہے۔‘‘(ابو القاسم اصبہانی)

حجر اسود اوررکن یمانی

بیت اللہ کے چار گوشے ہیں۔ مشرقی گوشے کا نام رکن حجر اسود ہے کیونکہ اس میں حجر اسود ہے۔ اس کے مقابل یمنی طرف کے گوشے کورکن یمانی کہتے ہیں کیونکہ وہ یمن کی طرف واقع ہے۔ تیسرے کا نام شامی ہے۔ کیونکہ وہ شام کی طرف واقع ہے چوتھے کا نام عراقی ہے کیونکہ وہ عراق کی طرف ہے۔ بیت اللہ کا طواف کرنے کے وقت حجر اسود کو بوسہ دیتے ہیں۔ اور ہاتھ لگاتے ہیں رکن یمانی کو صرف ہاتھ لگاتے ہیں۔ رکن شامی اوررکن عراقی کو دبوسہ دیتے ہیں۔ نہ چھوتے ہیں حدیث میں ہے حجر اود اور رکن یمانی کو پھونا گناہ کی معافی ہے۔  (ابن خزیمہ)  دوسری حدیث میں ہے۔ جو اچھی طرح وضو کرکے حجر اسود کوہاتھ لگانے کےلئے آتا ہے۔ وہ رحمت میں چلتا ہے۔ جب ہاتھ لگاکر مندرجہ زیل کلمات پڑھتا ہے تو اس کو رحمت ڈھانپ لیتی ہے۔

"الله الله اكبر اشهد ان لا اله الاالله واشهد ان محمدا عبده ورسوله"

طواف کی دو رکعت

طواف سے فارغ ہوکر مقام ابراہیم ؑپر آتے ہیں۔ جو بیت اللہ کے دروازے کے سامنے ہے۔ وہاں دو رکعت نفل پڑھتے ہیں جس کو طواف کی نماز کہتے ہیں۔ حدیث میں آیا ہے کہ ’’طواف کے بعد دو رکعت پڑھنا اسماعیل علیہ اسلام کی اولاد سے غلام آزاد کرنے کے برابر ہے۔‘‘ (طبرانی کبیر)

دوسری حدیث میں ہے ’’ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے مقام ابراہیم ؑ پردو رکعت پڑھنے والے کےلئے خدا اولاد اسماعیل ؑ سے چار غلام آزاد کرنے  کا ثواب لکھتا ہے۔ اور وہ ایسا پاک ہوجاتاہے۔ جیسا  ما ں کے پیٹ سے پیدا ہونے کے دن تھا۔‘‘  (ابو القاسم اصبہانی)

صفا ومروہ کا طواف

بیت اللہ شریف کے قریب صفا ومروہ دو پہاڑیاں ہیں مقام ابراہیمؑ پر دو رکعت پڑھ کر ان دونوں پہاڑیوں کے درمیان سات چکرلگایئں حدیث شریف میں ہے ’’صفا مروہ کے درمیان دوڑنا ستر غلام آذاد کرنے کے برابر ہے۔ ‘‘ (طبرانی کبیر)

عرفات میں قیام

مکہ شریف سے نوکوس کے فاصلہ پرا ایک میدان ہے جس کو عرفات کہتے ہیں۔ نویں تاریخ ذی الحجہ کو ظہر سے مغرب تک حاجی لوگ وہاں ٹھرے ہیں۔ زکر الٰہی او  ردعا میں  مشغول رہتے ہیں۔ حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ اس روز آسمان دنیا پر نزول فرماتا۔ اور فرشتوں پر فخرفرماتا ہے کہ میرے  بندے پراگندہ بالوں والے دور دراز سے میری رحمت کی امید سے میرے پاس آئے ہیں۔  (اے بندو) اگر تمہارے گناہ ریت کے زروں یا بارش کے قطروں یا سمند ر کی جھاگ کے برابر ہوتے میں تمھیں ضرور بخش دیتا۔ لوٹ جائو تم بھی بخشے ہوئے ہو۔ اور جس کو تم سفارش کرو وہ بھی بخشا ہوا ہے۔  (طبرانی کبیر) دوسری حدیث میں ہے خدا فرشتوں سے کہتاہے۔  میرے بندوں کو کیاچیز یہاں لائی ہے۔  فرشتے کہتے ہیں تیری رضا اور جنت کی تلاش میں آئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں اپنی ذات اور مخلوق کوگواہ کرتا ہوں۔ کہ میں نے ان کو بخش دیا۔  خواہ ان کے گناہ ذمانے کے دنوں کی گنتی اور پر کرنے والی یت کے زروں کے برابر ہوں۔  (طبرانی اوسط)

جمرے مارنا

 مکہ شریف سے تین کوس کے فاصلے پر ایک جگہ ہے جہاں عید کے دن حاجی قربانیاں کرتے ہیں۔ وہاں تین بڑے بڑے پتھر ہیں جن کو جمرے کہتے ہیں۔  ابراہیم ؑ جب اپنے بیٹے اسماعیل ؑ کی قربانی کرنے لگے۔ توشیطان ان جمروں کے پا س انہیں دیکھائی دیا۔ تاکہ انھیں قربانی سے روکے ابراہیم ؑنے اس کو ہر جمرے کے پاس سات سات کنکر مارے۔ اس واقعہ کی یاد تازہ رکھئے۔ اورشیطان کوذلیل کرنے کےلئے حاجی بھی ان  جمروں کو عید کے دن سات سات کنکریاں مارتا ہے۔ حدیث میں ہے۔ ’’ہر کنکر کے بدلے ایک مہلک کبیرہ گناہ معاف ہوجاتا ہے۔‘‘  (طبرانی کبیر)

دوسری حدیث میں ہے جمرے مارنے کے عوض جوکچھ خدا نے بندے کےلئے آنکھوں کی ٹھنڈک سے پوشیدہ رکھا ہے۔  اُسے کوئی جانتا ہی نہیں۔  (طبرانی کبیر) ایک حدیث میں ہے کہ یہ ذخیرہ ہے۔ جو اس وقت تیرے کام آئے گا۔ جبکہ تو بہت محتاج ہوگا۔  (ابوالقاسم اصبہانی)

قربانی1۔

حدیث میں ہے ’’تیری قربانی بھی خدا کے پاس ذخیرہ ہے۔ جو عین محتاجی کے وقت یعنی قیامت کے دن تیرے کام آئے گا۔‘‘  (طبرانی)

حجامت کرنا

حج اور عمرہ سے فارغ ہوکر حاجی حجامت کراتے ہیں۔ حدیث میں ہے ’’ہر بال کے بدلے ایک نیکی ملتی ہے۔ اورگناہ مٹا دیا جاتا ہے‘‘ (طبرانی کبیر)

دوسری حدیث میں ہے ’’تیرا ہر بال قیامت کے دن نور ہوگا۔‘‘  (طبرانی کبیر)

طواف وداع

 حج سے فارغ ہوکروطن کو آتے ہوئے بیت اللہ کا طواف کرتے ہیں۔ جس کوطواف وداع کہتے ہیں۔ حدیث میں ہے۔ تمام کاموں سے فارغ ہو کرجب  حاجی طواف وداع کرتا ہے۔ تو فرشتہ آتا ہے۔ جواس کے کندھوں کے درمیان ہاتھ رکھ کر کہتا ہے۔ تیرے پچھلے گناہ معاف ہوگئے۔ اب آئندہ نئے سرے سے عمل کر (طبرانی کبیر) دوسری حدیث میں ہے۔ ’’جب تو طواف وداع کرتا ہے۔ توایسا پاک ہوجاتا ہے جیسا ماں کے شکم سے پیدا ہونے کے دن تھا۔‘‘

سفر کامسنون طریق

1۔ رسول اللہ ﷺ جمعرات کو سفر کرنا دوست رکھتے تھے۔  (مشکواۃ) جمعرات کے علاوہ اور سفر بھی کرسکتے ہیں۔ چنانچہ آپ نے حجۃ الوداع کا سفر ہفتے کے دن کیا۔ مگر حدیث مشکواۃ کے الفاظ ''دوست رکھتے ''سے یہی ظاہرہوتا ہے کہ جمعرات بہتر ہے۔ 2۔ جماعتی صورت میں سفر کرنا بہتر ہے۔ اور باعث عزت ووقار ہے۔ خرچ کی کفایت ہے۔ ایک دوسرے کے ہم وغم میں شریک رہتے ہیں۔  حدیث میں ہے کہ جب تین ہوں تو ایک کوامیر بنایئں (مشکواۃ) اور جماعت بھی اسی صورت میں بنتی ہے

کہ سب ایک کے ماتحت ہوں۔  پس اس مبارک سفر کوہر طرح سے مسنون طریق پر

1۔ قربانی کے مفصل احکام اگلے صفحات پر ملاحظہ فرمایئے۔  (محمددائودراز دہلوی)

پورا کرنا چاہیے۔

گھر سے  نکلنے کا عمل

پہلے دو رکعت نفل پڑھے۔ حدیث میں ہے انسان اپنے اہل کے پاس دو رکعتوں سے بہتر کوئی چیز نہیں چھوڑی۔  (ایضاح للنووی)  ایک اور حدیث میں ہے اگر تو اپنے رفیقوں سے صورت جاں اور مال میں بہتر ہوناچاہتا ہے۔ تو قل یا ایھاالکافرون سے والناس تک تبت کوچھوڑ کر پانچ سورتیں پڑھ ہر سورہ کو بسم للہ سے شروع کر اوراپنی قراءت کو بسم اللہ پر ختم کریعنی پانچویں کو ختم کرکے پھر بسم اللہ پڑھ۔

گھر سے نکلنے کی دعا

"بسم الله توكلت علي الله لا حول ولا قوة الا بالله" (ابودائود)

’’اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں میں نے اللہ کے نام توکل کیا۔ گناہ سے پھرنا اور نیکی کی توفیق صرف ا للہ ہی سے ہے۔ ‘‘

رخصت کرنے کی دعا

"استودع الله دينكم وامانتكم وخواتيم اعمالكم" (ابو دائود)

 ’’تمہارا دین امانت اور اعمالوں کا خاتمہ خدا کے سپرد کرتا ہوں۔‘‘

سفر کے وقت وصیت

"عليك بتقوي الله والتكبير علي كل شرف"(ترمذي)

’’تقویٰ الٰہی اور ہر بلندی پر چڑھنے کے وقت تکبیرکولازم پکڑ (اور نیچے اترتےوقت سبحان اللہ کہنا چاہیے۔‘‘ جیسے دوسری حدیث میں ہے۔

جنگل کی سواری کی دعا

"سبحان الذي سخر لنا هذا وما كنا له مقرنين وانا الي ربنا لمنقلبون اللهم انا نسئلك في سفرنا هذا البر والتقوي ومن العمل ما ترضي اللهم هون علينا سفرنا هذا واطولنا بعده اللهم انت الصاحب في السفر والخليفة لي اهل اللهنم اني اعوذبك من وعشاء السفر وكابة النظر وسوء المنقلب في المال والاهل"  (مسلم)

’’وہ پاک ذات ہے۔ جس نے اس کوہمارے تابع کردیا۔ اورہم اس کو قابو کرنے والے نہ تھے۔ اور ہم اپنے رب  کی طرف جانے والے ہیں۔ یا اللہ ہم تجھ سے اپنےسفر کی نیکی اور پرہیزگاری اور تیری رضامندی کے کام مانگتے ہیں۔ یا اللہ ہمارے اس سفر کوآسان کراور اس سفر کی دوری کو لپیٹ دے۔ یا اللہ ! تو ہی سفر میں ساتھی ہے۔ اور گھر والوں میں خلیفہ ہے۔ یا اللہ میں تیری پناہ چاہتاہوں۔  سفر کی تکلیف سے اوردیکھنے کے غم سے اوربُرے رجوع سے اہل اور مال میں‘‘

دریا کی سواری کی دعا

"بسم الله مجرها ومرسها ان ربي لغفور رحيم وما قدروالله حق قدره" (ابن سني)

’’ اللہ کے نام سے اس کا جاری ہونا اور ٹھیرنا ہے۔ بے شک میرا رب بخشنے والا مہربان ہے۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کا کما حقہ قدر نہیں کیا۔ ‘‘

کسی بستی میں داخلے کی دعا


اللهم ارزقنا جنا ها وجتبنا الي اهلها وحبب صالحي اهلها الينا"  (حصى حصين)

’’یا اللہ ہم کو اس کا  پھل دے۔ اور ہم کو اس کے  رہنے والوں کی محبت دے۔ اور ہم کو اس کے نیک لوگوں کی محبت دے۔ ‘‘

کسی مقام پراترنے کی دعا

"اعوذ بكلمت الله التامات من شر ما خلق" (مسلم)

’’میں اللہ کے کامل کلمات کے ساتھ پناہ پکڑتا ہوں۔  اس شے کے شر سے جو اس نے پیدا کی۔‘‘

رات کی دعا

"يا ارض ربي وربك الله اعوذ بالله من شرك وشرما فيك وشر ما خلق فيك وشر ما يد ب عليك اعوذ بالله من اسد واسود من الحية والعقرب ومن شر ساكن البلد ومن والد وما ولد"  (ابوداود)

’’اے زمین! میرا اورتیرا رب اللہ ہے۔ میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں تیرے شر سے۔ اور اس چیز کے شر سے جو تجھ میں ہے۔ اور جو تجھ میں پیدا کی گئی ہے۔  اور تجھ پر چلتی ہے۔  میں اللہ کی پنا ہ پکڑتا ہوں۔  زہریلی چیز سانپ بچھو سے اورشہر کے رہنے والوں کے شر سے جنے والے اور جوکچھ اس نے جنا کی شر سے۔‘‘

سحری کے وقت کی دعا

"بحمد الله وحسن بلائه علينا ربنا صاحبنا وافضل علينا عائذا بالله من النار" (مسلم)

’’ترجمہ۔ سننے والے نے سن لیا ہے۔ اللہ کی تعریف انعام اچھے کے ساتھ جو ہم پر کیے ہیں۔ یا اللہ ہماری رفاقت کر اور ہم پر فضل کر ہم آگ سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ پناہ پکڑتے ہیں۔‘‘

صبح اور شام کی دعا

"امسنا وامسي الملك لله والحمد لله ولا اله الا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد وهو علي كل شيئ قدير اللهم اني اسئلك من خير هذه الليلة وخير ما فيها واعوذ بك من شرها وشر ما فيها اللهم اني اعوذ بك من الكسل والهرم وسوء الكبر وفتنة الدنيا وعذاب القبر" (مسلم)

’’اللہ کے لئے ہم نے اور تمام ملک نے شام کی تمام تعریفیں اللہ کےلئے ہیں۔ اور  اس کے سوا کوئی معبود نہیں اکیلا ہے۔ اس کاکوئی شریک نہیں۔ بادشاہی اور حمد اسی کےلئے ہے۔  اور رہ ہرچیز پر قادر ہے۔ یا اللہ اس رات کی بھلائی اور جو اس  رات میں ہے۔  اس کی بھلائی مانگتا ہوں۔ اور میں تیری پناہ چاہتا ہوں۔ اس کی شر سے اور جواس میں ہے۔ اس کی شر سے۔  یا اللہ میں پناہ پکڑتا ہوں سستی اورزیادہ  بڑھاپے اور بُرائی پڑھاپے سے اور دنیا کی آزمائش اور عذاب قبر سے‘‘

نوٹ۔ صبح کی دعا بھی یہی ہے۔ صرف امسینا اور امسی الملک کی جگہ اصبحنا واصبح الملک پڑھنا چاہیے۔

حج ۔ عمرہ میقات

حج کوعموما لوگ جانتےہیں کہ زیارت  بیت اللہ کی خاص صورت ہے جس میں کئی کام کرنے پڑتے ہیں۔ عمرہ کو اکثرلوگ نہیں جانتے۔ عمرہ بھی زیارت بیت اللہ کی خاص صورت ہے۔  جس میں کوئی کام کرنے پڑتے ہیں۔  اور عمرہ مختصر ہے۔ حج کے مہینے مقرر ہیں۔ شوال،۔ زی قعدہ۔ زی الحجہ اورعمرہ بارہ ماہ درست ہے۔ حج عمرہ کی ابتداء میقات سے ہوتی ہے۔ میقات اسی جگہ کو کہتے ہیں جس جگہ سے زیارت بیت اللہ کی نیت سے جانے والے کےلئے بغیر احرام کے گزرنا ناجائز نہیں۔ اور وہ ہر جگہ اور ہر ملک کے لئے الگ ہے۔ اہل یمن کےلئے یلملم اہل نجد کےلئے قرن المنازل اہل عراق کے لئےذات عرق اہل مدینہ کےلئے زوالحلیفہ اور اہل شام کےلئے حجفہ پہلے تین مقام مکہ مکرمہ سے تقریبا چالیس پنتالیس کوس ہیں۔ اور حجفہ قریبا ستر کوس ہے۔ زوالحلیفہ مدینہ سے چھ کوس اور مکہ مکرمہ (1)سے قریبا تین سو کوس ہے۔ حدیث میں ہے۔ یہ مقامات ان لوگوں کےلئے ہیں۔ جن کےلئے مقرر کیے گئے ہیں۔ اور دیگر لوگوں کےلئے بھی ہیں۔ جو ان مقامات سے گزریں۔  (چنانچہ اہل ہند عموماً یمن کی طرف جاتے ہیں۔  وہ یلملم سے احرام باندھتے ہیں۔ ) جو لوگ ان مقامات کے اندر  مکہ مکرمہ کی طرف ہیں۔ وہ اپنی رہائش کی جگہ سے حرام باندھیں یہاں تک کہ اہل مکہ مکہ سے ۔

احرام اور اس کے باندھنے کا طریق

احرم حج یا عمرے کی نیت باندھنے کو کہتے ہیں۔ اوراس کے باندھنے کا طریق یہ ہے کہ جب میقات پر پہنچے تو پہلے کپڑے اتار دے۔ پھر نہادھوکر دو چاردریں پہن لے ایک کو تہبند  بنالے ایک کو اوڑھ لے۔ یہ چادریں ا ن سلی ہوں تو بہتر ہیں۔ عورت اپنے کپڑے بدستور رکھے۔ صرف برقعہ اتار دے اور ا س کی جگہ بڑی چادر لے لےاور منہ ننگا رکھے۔ جب کوئی بیگانہ سامنے ہو تو منہ ڈھانپ لے۔ چادریں پہننے کے بعد دو رکعت نفل پڑھ کر حج یا عمرہ دونوں کی نیت کرکے لبیک پکارنا شروع کردیں۔  لبیک پکارنے کوتلبیہ کہتے ہیں۔ جس کے الفاظ یہ ہیں۔

 "لبيك اللهم  لبيك لا شريك لك لبيك ان الحمد والنعمة لك والملك لا شريك لك"

’’میں حاضر ہوں یا اللہ!میں حاضر ہوں۔ میں حاضر ہوں۔ نہیں شریک ہے واسطے تیرے میں حاضر ہوں۔ بےشک سب تعریف نعمت اور سلطنت تیرے ہی لئے ہے تیرا کوئی شریک نہیں۔‘‘

نوٹ۔ تلبیہ کے الفاظ اور بھی ہیں۔ اگر یاد ہوں تو وہ بھی پڑھ سکتے ہیں۔ سارے سفر میں بیت اللہ شریف پہنچنےتک تلبیہ جاری رہنا  چاہیے۔ اگر اور کوئی زکر کرنا یا قرآن مجید پڑھنا ہوتو بھی کوئی حرج نہیں۔ تلبیہ بلند آواز سے پڑھیں۔ جب بند کریں تو یہ دعا پڑھیں۔

"اللهم اني اسئلك رضاك والجنة واسئلك العفو برحمتك من النار"

’’اے اللہ ! میں  تیری رضا کا اور جنت کا سوال کرتا ہوں۔ اور تیری رحمت کے طفیل آگ سے عافیت مانگتا ہوں۔‘‘

ممنوعات احرام

احرام میں عورت کا بوسہ لینا۔ شہوت سے چھونا۔ بنظر شہوت دیکھنا۔ منگنی کرنا۔ نکاح کرنا کرانا۔ خوشبو استعمال کرنا ۔ جویئں مارنا۔ کنگھی کرنا۔ جنگلی شکار کرنا۔ حاجی کی گری ہوئی شے اٹھانا۔ جس کا ایک سال تک اعلان نہ ہوسکے اس قسم کے کام ممنوع ہیں۔  ہاں موذی اشیاء حرم میں قتل کرنا جائز ہیں۔ جن کا زکر حرم مکہ میں آگے آتا ہے۔

حرم مکہ مکرمہ اور  اس کی دُعا

مکہ کے گرد ونواح کئی میلوں تک کی جگہ کوحرم مکہ کہتے ہیں۔ بڑے بڑے نشانات قائم کرکے حدود متعین کردیئے گئے ہیں۔ جدہ سے چل کر  جب مکہ مکرمہ دس میل رہ جاتا ہے۔ تو آمنے سامنے کئی گز لمبی چوڑی اونچی دو دیواریں آتی ہیں۔ اس طرف سے یہی حد حرم ہیں۔ حرم گھاس یا د رخت کاٹنا یا شاخ توڑنا۔ اس میں شکار کھیلنا بلکہ شکاری جانور کواپنی جگہ سے عمدا ً ہلانا حرام ہے۔ ہاں موذی اشیاء سانپ بچھو چھپکلی ۔ کوا۔ شیر۔ چیتا۔ بھیڑیا وغیرہ کو مارنا جائز ہے۔ اسی  طرح سے گھاس کی قسموں سے اذخر گھاس کاٹ سکتے ہیں۔  (مشکواۃ)

نوٹ۔ حدحرم کی زمین سے  گھاس یادرخت کاٹنا یا شاخ توڑنا اس شخص کو منع ہے جو مالک نہ ہو۔ مالک اپنی ملک میں ہر طرح تصرف کرسکتا ہے۔ کیونکہ ملک سے مقصود ہی تصرف ہے۔ حرم میں داخل ہونے کی دعا نہ حدیث میں آئی ہے۔ نہ صحابہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے البتہ ابن جماعۃ نے امام احمد سے قریبا یہ الفاظ نقل کئے ہیں۔

"اللهم هذا حرمك وامنك فحر مني علي النار وامني من عذابك يوم تبعث عبادك واجعلني من اولياءك واهل طاعتك"

 (ایضاح للنووی مع حاشیہ ابن حجر ھیثمی )

’’اے اللہ ! یہ تیرا حرم ہے۔ اور تیرے امن کی جگہ ہے۔  پس مجھے آگ پر حرام کردے۔ اور جس روز تو اپنے بندوں کوقبروں سے اٹھائے مجھے اپنے عذاب سے رہائی دے۔ اور مجھے اپنے دوستوں اور  فرمانبردار سے کردے۔ ‘‘

مکہ مکرمہ میں کس جانب سے داخل ہو اور اور مسجد حرام میں کس دروازے سے داخل ہو؟

اس بات پر اتفاق ہے کہ مکہ مکرمہ کی جس جانب  سے داخل ہو جائز ہے۔ مگر یہ بہتر ہے کہ بیرطوی کی جانب سے داخل ہو یہ ایک کنواں ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے صبح کو اس مقام پر غسل فرمایا۔ اور پھر جانب معلیٰ کی طرف سے داخل ہوئے۔ بیر طویٰ سے جب بیت اللہ شریف کو روانہ ہوتے ہیں۔ تو تھوڑی دور پہنچ کر دو راستے ہوجاتے ہیں۔  ان سے بایئں راستے چل کرباہر باہر  جنت معلیٰ سے ہوتے ہوئے سیدھے باب السلام پرپہنچیں باب السلام   مسجد حرام کے دروازوں سے ایک دروازہ ہے۔  رسول اللہ ﷺ اسی طرف سے مسجد حرام میں داخل ہوئے ۔

داخلہ مکہ مکرمہ کی دعا

مکہ مکرمہ میں داخل ہونے کی دعا کسی صحیح حدیث میں نہیں اس لئے وہی دعا پڑھیں جو عموما ہربستی میں داخل ہونے کے وقت آئی ہے۔ چنانچہ اوپر گزر چکی ہے۔

مسجد حرام میں داخل ہونے کی دعا

اس کےلئے بھی کوئی خاص دعا نہیں آئی۔ پس وہی دعا پڑھیں۔ جو عام طور پر مسجدوں میں داخل ہونے کے وقت پڑھی جاتی ہے۔ یعنی  اللهم افتح لي ابواب رحمتك ''یا اللہ میرے لئے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے''

مسجد حرام میں داخل ہونے کی کیفیت

مسجد حرام میں داخل ہونے کی کیفیت  وہی ہے۔ جوعام مسجدوں کی ہے۔ یعنی دایاں پائوں پہلے رکھتے ہیں۔  اور بایاں پیچھے نکلنے کےوقت اس کا الٹ کرتے ہیں۔ اور جوتا پہننے اور اتارنے کے وقت بھی ایسا ہی کرے۔ یعنی پہلے دایاں پائوں پہنے پھر بایاں اوراتارنے کے وقت اس کا الٹ کرے۔ اور جوتے پہننے اوراتارنے کی یہ کیفیت مسجد حرام یا عام مسجد کے ساتھ خاص نہیں۔ بلکہ مسجد غیر مسجد سب جگہ اسی طرح کرے۔  احادیث مین عام آیا ہے۔

رویت بیت اللہ اور ا س کی دُعا

 باب السلام سے داخل ہوکر جب بیت اللہ شریف پر نظر پڑے۔  تو ہاتھ اٹھا کریہ دعا پڑھیں۔ چنانچہ ابن جریر نے رسول اللہ ﷺ سے روایت کیا ہے۔

"اللهم  ذد هذا البيت تشريفا وتعظيما وتكريما ومهابة وبراوذد من شرفه وكرمه ممن حجه او عتمره تشريفا وتعظيما  (مناسك ابن تيميه)"

’’اے اللہ! اس گھر کو شرافت بزرگی عزت ہیبت اور نیکی میں زیادہ کر اور حج یا عمرہ کرنے  والوں سے جس نے اس گھر کی شرافت اور  تعظیم کی اس کو بھی شرافت اور بزرگی میں زیادہ کر۔‘‘

اصل مسجد حرام اورباب بنو  شیبہ

رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں مسجد صرف مطاف  (طواف کی جگہ)  تھی جس کا فرش اب سنگ مر مر کا ہے۔ ا س کے بعد حضرت عمر ٭ کے زمانے میں اور پھر حضرت عثمان ٭ کے زمانہ میں کچھ اضافہ کیا گیا۔ ان کے بعد دیگر بادشاہوں نے اس  کو بہت وسیع کردیا۔ بیز زم زم کے قریب مقام ابراہیم کے سامنے اصل دیواروں کے بغیر کمانی دار دروازہ بناہوا ہے۔ اصل مسجد حرام کا دروازہ   یہی ہے۔ اس کو باب بنوشیبہ کہتے ہیں۔ باب السلام سے سیدھے اس دروازہ کو آیئں اس سے داخل ہوکر حجر  اسود کا رخ کریں۔ اگر چاہیں تو اس دروازے میں داخل ہوتے وقت  وہی دعا پڑھیں۔ جو مسجد میں داخل  ہوتے وقت پڑھی جاتی ہے۔ کیونکہ اصل مسجد حرام یہی ہے۔ اس کی دیواریں ہٹا دی گئیں ہیں۔ دروازہ قائم ہے۔

حجر اسود کا بوسہ اور اس کی د ُعا

حجراسود بیت اللہ کے مشرقی کو نہ میں چاندی کے خول کے اندر ہے۔ باب بنو شیبہ سے داخل ہوکر حجر اسود کی  طرف آیئں۔ اس کو چھویئں اور بوسہ دیں۔ اور وہ دعا پڑھیں جو پہلے گزرچکی ہے۔ اگرچھونا یا بوسہ دینا ہجوم کی وجہ سے مشکل ہوتو ہاتھ کا اشارہ کرکے ہاتھ کو چوم لینا کافی ہے۔

طواف بیت اللہ اوراس کی دُعا

حجر اسود کوچھونے اور بوسہ دینے کے بعد اپنے دایئں ہاتھ کی جانب بیت اللہ کےگرد چکر لگاناشروع کردیں۔ سات چکر  پورے کریں۔  اسی کو طواف بیت اللہ کہتے ہیں۔  ہر چکر میں حجر اسود کے سامنے آیئں۔  تو بدستور اس کوچھویئں اور بوسہ دیں اوردعا مذکور پڑھیں۔ اور جب رکن یمانی کے پاس آیئں۔ تو یہ دعا پڑھیں۔

رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ﴿٢٠١﴾ البقرہ رکن یمانی اورحجر اسود کے علاوہ چکے کے باقی حصہ میں یہ کلمات کہیں۔

"سبحان الله والحمد لله ولا اله الا الله والله اكبر لا حول ولا قوة الا با الله"

نوٹ۔ حجر اسود اوررکن یمانی کے برابر آنے کے وقت اورچکر کے باقی حصہ میں ان دعائوں کے علاوہ اوردعایئں بھی آئی ہیں۔ اگر یاد ہوں تو پڑھ سکتے ہیں۔ امام شافعی نے قرآن پڑھنے کی بھی اجازت دے دی ہے۔

رمل اوراضطباع

طواف کرتے وقت پہلے تین چکر میں رمل کریں یعنی کندھے ہلاتے ہوئےتیز چلیں جیسے پہلوان چلتا ہے۔ اورباقی چارچکرمیں آہستہ چلیں۔ حدیث میں ایسا ہی آیا ہے۔  نیز احرام کے اوپر کی چادر کو دایئں بغل کے نیچے سے کرکےاس کی دونوں طرف بایئں کندھے پرڈال لیں۔ طواف کے وقت ایساکرنا مسنون ہے۔ اس کو اضطباع کہتے ہیں۔

مقام ابراہیم ؑ اور اس پرطواف کی دو رکعت اوردُعا

طواف بیت اللہ سے فارغ ہوکر ۔ وَاتَّخِذُوا مِن مَّقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى ۖ۔ پڑھتے ہوئے مقام  ابراہیم کی طرف آیئں۔ مقام ابراہیم ایک پتھر ہے۔  جس پر کھڑے ہوکرابراہیم علیہ اسلام کعبہ کی تعمیرکرتے تھے۔  جو بیت اللہ کے دروازے کے سامنے ایک کوٹھڑی میں مقفل ہے۔  اس کو اپنے اور بیت اللہ کےدرمیان کرکے دو رکعت نماز پڑھیں۔  اس کو طواف کی نماز کہتے ہیں۔  پہلی رکعت میں فاتحہ کے بعد ۔

قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ۔ ۔ اوردوسری میں ۔ قُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌ۔ پڑھیں۔ پھر یہ دُعا مانگیں۔

مقام ابراہیمؑ کی دُعا

"اللهم انك تعلم سري وعلا نيتي فاقبل معذرتي وانك تعلم حاجتي فاعطني حولي وتعلم ما عندي فاغفرلي ذنوبي اللهم اني اسئلك ايمانا يباشر قلبي ويقينا صادقا حتي اعلم انه لن يصيبني الا ما كتبت لي وارضني بما قضيته علي يا ارحم الراحنمين" (حاشية ايضاح للهيثي  بحواله ابن الجوذي وازرقي)

’’یااللہ تو میرا ظاہر اور باطن جانتا ہے۔ پس میرے عذر کوقبول کر اور میری حاجت کوتو جانتا ہے۔ پس میری مانگی چیز مجھ کو دے۔ میرے دل میں جو ہے اس کوتو جانتا ہے۔ پس میرے گناہ بخش دے۔  یا اللہ میں تجھ سے ایسے ایمان کا سوال کرتا ہوں۔  جو دل میں رچ جائے اور سچا یقین یہاں تک کہ سمجھ لو کہ مجھ کو وہی پہنچے گا جو تونے میری قسمت میں لکھا ہے۔ اس پرراضی رہنے کے ساتھ سوال کرتا ہوں۔‘‘

طواف یعنی سعی صفا مروہ اور اس کی دعا

مقام ابراہیم ؑ سے فارغ ہوکر حجر اسود کوبوسہ دیں۔ اور مسجد حرام کے باب الصفاء سے باہر نکلیں ۔ صفا پہاڑی پر پہنچیں وہ باب الصفاء سے چندقدم کے فاصلے پرہے۔ صفا پہاڑی کے قریب پہنچ کر یہ پڑھیں۔   إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِن شَعَائِرِ اللَّـهِ  ابدا بما بداء الله به

ترجمہ ۔ بے شک صفا اور مروہ اللہ تعالیٰ کے نشانات سے ہیں۔ میں بھی اس شے کے ساتھ شروع کرتا ہوں جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے شروع کیا ہے۔ '' پر صفا مروہ پر چڑھ کریہ کلمات کہیں۔

"لا اله الا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد وهو علي كل شيئ قدير لا اله الا الله وحده انجز وعده نصر عبده"  (مشكوة)

’’اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں بادشاہی اور تمام تعریف اسی کےلئےہے۔ اور وہ ہرچیز پر قادر ہے۔ اللہ واحد کے سو ا کوئی بندگی کے لائق نہیں۔ اور اس نے اپنا وعدہ پورا کیا۔ اور اپنے بندے محمد ﷺ کی مدد کی۔ اور سب جماعتوں  کافروں کو شکست دی۔‘‘ اس کے بعد یہ دعا پڑھیں۔ جو موطا میں ہے۔

 "اللهم انك قلت وقولك الحق ادعوني استجب لكم وانك لا تخلف المعاد واني اسئلك كما ها يتني للاسلام ان لا تنزعه مني وان تتوفني مسلما" (ایحضاح مع حاشیہ ھژیمی)

’’اے اللہ تو نے کتاب میں فرمایا ہے کہ تم مجھے پکارو میں  تمہاری دعا قبول کروں گا۔  تیری بات سچی ہے او ر تو وعدہ خلافی نہیں کرتا۔  میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ جس طرح تو نے مجھے اسلام کے لئے ہدایت کی ہے۔  اس کو مجھ سے نہ چھین یہاں تک کہ تو مجھے اسلام کی حالت پر فوت کرے۔ ‘‘

ا س کے بعد پہاڑی مروہ کی طرف چلیں۔  صفا مروہ کے درمیان مروہ کوجاتے  ہوئے بایئں جانب دوسبز نشان ہیں۔  جو میلین اخضرین کہتے ہیں۔  جب ان سے پہل کے قریب پہنچیں۔  چھ سات ہاتھ کافاصلہ رہ جائے تودوڑنا شروع کریں۔  جب دوسرے نشان کے قریب پہنچیں تودوڑنا ترک کردیں۔ پھر بدستور  چلیں یہاں تک کہ مروہ پہاڑی پر پہنچیں اور مروہ پر بھی وہی کلمات اوردعا پڑھیں۔ جو صفا پر پڑھی تھی۔ اور صفا مروہ کے دوران دوڑنے کے وقت یہ دعا پڑھیں۔

رب اغفر وارحم فانت الاعز الاكرم  (ایضاح مع حاشیہ ہشیمی بحوالہ طبرانی بیہقی ابن ابی شیبہ) ترجمہ۔  اے رب میرے بخش اوررحم کر پس تو ہی بہت  عزت والا اور بزرگ ہے۔ ''اور آہستہ آہستہ چلنے کے وقت بھی یہ دعا پڑھ سکتے ہیں۔  پھر مروہ سے لوٹ کرصفا پر آویں۔ دوڑنے کی جگہ دوڑیں اور چلنے کی جگہ چلیں اور بدستور دعایئں پڑھیں۔ صفا پر پہنچ کر دو پھیرے ہوئےاس طرح سے سات پھیرے پورے کریں۔ جن کی ابتداء صفا سے ہے۔ اورانتہا مروہ پر ہے۔ اگر آپ نے صرف عمرے کا احرام باندھا ہے۔  تو احرام کھول دیں یعنی حجامت کرالیں۔ خوشبو  لگالیں کپڑے وغیرہ بدل لیں۔ اوراگر حج یا حج اورعمرہ دونوں کا احرام باندھا ہے۔ تو بدستور احرام کی حالت میں رہیں۔ اپنا کوئی نیک شغل جاری رکھیں۔  زکر کریں نماز پڑھیں۔ طواف کریں۔ ہر طرح مختار ہیں۔  اگر احرام کھول چکے ہیں تو بھی یہ کام کرسکتے ہیں۔ آٹھویں تاریخ تک۔

مقام منیٰ کوجانے کی تیاری

جب زی الحجہ کی آخری تاریخ آئے تو اگر  آپ احرام کھول چکے ہیں۔  تو حج کےلئے نیا احرام باندھ کر اور اگر پہلا احرام قائم ہے۔ تو اسی کے ساتھ صبح ہی منیٰ  کو  (جو مکہ سے تین کوس کے فاصلہ پر ہے۔ )  جانے کی تیاری کریں۔  بعض لوگ ساتویں زی الحجہ کو منی جانے کی تیاری کرلیتے ہیں۔ یہ خلاف سنت ہے۔  منیٰ میں پانچ نمازیں پڑھیں۔ ظہر عصر مغرب  عشاء اور نویں زی الحجہ کی فجر

میدان عرفات جانے کی تیاری

نویں زی الحجہ کو فجر کی نماز منیٰ میں پڑھ کر عرفات جانے کی تیاری کریں۔  جو مکہ سے نوکوس کے فاصلے پر ہے۔  ظہر کی نماز مسجد نمرہ میں پڑھیں جو عرفات کے میدان کے کنارے پرواقع ہے عرفات کوجاتے ہوئے رستہ میں مزدلفہ آتا ہے۔ وہاں پہنچ کرعرفات کی طرف دو راستے ہوجاتے ہیں۔ ایک کا نام جو دایئں جانب ہے۔ ''طریق ضب''ہے۔ اور دوسرے کا نام ''مازمین '' ہے لوگ عموماً مازمین کے راستے جاتے ہیں۔ آپ کوشش کریں ۔ کہ ضب کے رستے جایئں رسول اللہ ﷺ اسی راستے گئے تھے۔ مسجد نمرہ میں امام کے ساتھ ظہر عصردونوں نمازیں ظہر کے وقت پڑھنی چاہیں۔ یہ متفقہ مسئلہ ہے۔ کہ مکہ کے لوگ دوگانہ پڑھیں۔  یا پوری پڑھیں مگر ترجیح دوگانہ کو ہی ہے۔ خواہ مکہ کے حاجی ہوں یا دوسرے ملک کے۔

وقوف عرفات

 وقوف کے معنی ٹھیرنے کے ہیں۔  ٖظہر و عصر کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد میدان عرفات میں داخل ہوکر اللہ کی یاد میں مشغول ہوں۔ قرآن پڑھیں زکر ازکار کریں۔ دعا کریں اگر ہوسکے۔ تو جبل الرحمۃ پر پہنچیں رسول اللہﷺ نے اسی جگہ وقوف فرمایا تھا۔ سورج غروب ہونے تک یہی مشغلہ رہے عرفات میں وقوف بہت بڑا رکن ہے۔  یہ وقت بڑی عاجزی اور انکساری میں گزارنا چاہیے۔

میدان عرفات کی دعا

 میدان عرفات میں ہر قسم کی دعا کرسکتے ہیں۔  خواہ قرآن ہویا حدیث میں مندرجہ زیل دعا خصوصیت سے آئی ہے۔ ترمذی وغیرہ میں ہے۔

"لا اله الا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد وهو علي كل شيئ قدير اللهم لك الحمدكالذي نقول  اللهم لك صلوتي ونسكي ومحياي ومماتي واليك مابي ولك ربي تراثي اللهم اني اعوذبك من عذاب القبر ووسواس الصدور وشتات الامر اللهم اني اسئلك من خير ما تجي به الريح واوذبك من شر ما تجئي به الريح لا اله الا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد يحيي ويميت وهو علي كل شيئ قدير اللهم اجعل في سمعي نورا وفي بصري نورا وفي قلبي نورا اللهم اشرح له صدري ويسرلي امري واعوذ بك من وساوس الصدر وشتات الامر وفتية القبر اللهم اني اعوذبك من شر ما يلج في الليل وشر ما يلج في النهار وشر ما تهب به الريح وشر بوائق الدهر لبيك انما الخير خير الاخرة الله اكبر ولله الحمد الله اكبر ولله الحمد الله اكبر ولله الخمد لا اله الا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد اللهم اجعله حجا مبرورا وذنبا مغفورا"

’’اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے کوئی اس کا شریک نہیں بادشاہی اور حمد اسی کےلئے ہے۔ اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ یا اللہ تعریف تیرے لئےہے جس طرح تو فرماتا ہے۔ اور اس سے بہتر جو ہم  کہتے ہیں۔ یا اللہ میری نماز میری زندگی اور میری  موت تیرے ہی لئے ہے۔ میرا  رجوع تیری طرف ہے ۔ تو ہی میرا وارث ہے۔  قبرکے عذاب سینے کے وسوسوں اور کام کی پریشانی سے پناہ مانگتا ہوں۔  یا اللہ جس چیز کو ہوا لاتی ہے۔ اس کی  بھلائی مانگتا ہوں۔ اور جس کو ہوا لاتی ہے اس کے شر سے پناہ مانگتا ہوں۔ اللہ کے سوا کوئی بندگی کے لائق نہیں وہ اکیلاہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں بادشاہی اور حمد اسی کےلئے ہے۔ وہ زندہ کرتا ہے وہ مارتا ہے اور ہرچیز پر قادر ہے۔  یا اللہ میرے کان میں اور آنکھ میں اور دل میں نور بھردے۔ یا اللہ میرے سینے کو فراخ کردے اور میرے کام کو آسان کردے۔ سینے کے وسوسوں اور کا م کی پریشانی اور عذاب قبر  سے پناہ چاہتاہوں۔ یا اللہ جو چیز رات اور دن میں داخل ہوتی ہے۔ اس کی شر اور جس کوہوا اڑاتی ہے۔  اور زمانے کی حوادث کے شر سے پناہ مانگتا ہوں۔ حاضر ہوں یا اللہ حاضر ہوں۔ آخرت کی بھلائی تمام بھلایئوں سے بہتر ہے۔  اللہ بڑا ہے اور اللہ کے لئے حمد ہے۔ اللہ بڑا ہے اور اللہ کےلئے حمد ہے۔  اللہ بڑا ہے اور اللہ کےلئے حمد ہے۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اکیلا ہے۔ کوئی اس کا شریک نہیں بادشاہی اور حمد اللہ کےلئے ہے۔ یا اللہ اس حج کو حج خالص کر اور گناہوں کو بخشے ہوئے کو۔‘‘

افاضہ از عرفات

افاضہ کے معنی لوٹنے کے ہیں۔  عرفات سے سورج غروب ہونے کے بعد مزدلفہ کی طرف لوٹیں مزدلفہ عرفات کے درمیان قریبا 4 کوس کا فاصلہ ہے۔ مگر مغرب کی نماز عرفات میں نہ پڑھیں۔ بلکہ واپس مزدلفہ میں پہنچ کر مغرب  کو عشاء کے ساتھ جمع کرکے امام کی اقتداء میں ادا کریں۔ اگر جماعت نہ ملے پھر اکیلے پڑھیں پھر رات کو یہیں آرام کریں۔ دسویں تاریخ ذی الحجہ کو صبح کی نماز اول وقت اٹھ کر امام کی اقتداء میں اندھیرے میں پڑھیں۔ اور نماز پڑھتے ہی دعا میں مشغول ہوجایئں دعا کوئی معین نہیں جو چاہیں مانگیں بہتر یہ ہے کہ وہاں کی مسجد سے جنوب کی جانب مشعر الحرام ایک چھوٹا سائیلہ ہے اس پرجاکر دعا کریں۔ وہاں ایک چھوٹا سا چبوترہ بنا ہوا ہے۔ وہ مشعر الحرام کا حصہ ہے۔

مزدلفہ سے منیٰ کو واپسی

فجر کی نمازاور دعا کے بعد جب اچھی طرح روشنی ہوجائے لیکن ابھی سورج نہ نکلا ہو تو وہاں سےف منیٰ کی طرف لوٹیں منیٰ وہاں سے قریباً دو کوس جب وادی محسر میں پہنچیں جو مزدلفہ کی طرف منیٰ کا کنار ہ ہے اس میں زرا تیز چلیں۔ رسول اللہ ﷺ وہاں سے تیز گزرے تھے۔ کیونکہ وہاں اصحاب الفیل ہلاک ہوئے تھے۔  اسی وادی سے جمروں کے مارنے کے لئے 70 یا 49 کنکر اٹھائے۔  بعض لوگ یہ کنکر مزدلفہ سے اٹھا لیتے ہیں۔  مگر یہ خلاف سنت ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے وادی محسر سے اٹھائے تھے اسی وادی سے گزر کر دایئں ہاتھ کو پہاڑ کے ساتھ ساتھ ایک راستہ آتا ہے۔  اس راستے سے ہوتے ہوئے جمرۃ العقبہ پر پہنچیں یہ گڑا ہوا پتھر ہے۔ اس کے سامنے زرا ہٹ کے نیچی جگہ میں اس  طرح کھڑے ہوں۔ کہ بایاں ہاتھ قبلہ کی جانب ہو اس کو ایک ایک کرکے سات کنکر ماریں۔ اور ہر ایک کنکر کے ساتھ اللہ اکبر کہیں۔  پر قربانی کریں۔ مگر یہ قربانی منیٰ کی حدود کے اندر ہو خواہ کس جگہ ہو اس کے بعد احرام کھول دیں۔ حجامت وغیرہ کرالیں۔ سرمنڈاتا کترانے سے بہتر ہے۔  جو اشیاء حرام میں ممنوع تھیں۔  احرام  کھولنے کے بعد جائز ہیں۔ مگ بیوی کے پاس جانا جائز نہیں۔

طواف افاضہ

طواف بیت اللہ کی تین قسمیں ہیں۔  جو عرفات جانے سے پہلے مکی میں ہی کرتے ہیں۔ وہ طواف قدوم ہے۔ جو عرفات سے واپس آکر کرتے ہیں۔  اس کو طواف افاضہ اور طواف  زیارت کہتے ہیں۔  اور جو اپنے وطن کو واپس آنے کے وقت کرتے ہیں۔ اس کوطواف وداع کہتےہیں۔

طواف اضاضہ وقوف عرفات کی طرح حج کا رکن ہے باقی دو طواف رکن نہیں اووقت کی تنگی کی وجہ سے کوئی شخص مکہ نہ پہنچ سکے۔ اور سیدھا عرفات کو آجائے تو اس کا حج ہوجائےگا۔ منیٰ میں کپڑے بدلنے کے بعد مکہ شریف جلدی پہنچ کر بدستور سابق طواف افاضہ کریں مگر اس میں اضطباع تو ہوتا نہیں۔ اور  رمل کی بھی ضرورت نہیں۔  ہاں اگر طواف قدوم میں رمل نہ کیا ہو تو طواف افاضہ میں رمل کریں۔ اس کے بعد مقام ابراہیم ؑ میں بدستور سابق دو رکعت پڑھیں۔  پھر زم زم کا پانی پیئں۔  پانی پینے ک وقت آپ جس قسم کی نیت کریں اللہ پوری کرےگا۔ کسی بیماری سے شفاء کی یا علم وغیرہ کی۔  ا س کے بعد صفا مروہ کے درمیان بدستورسابق طواف کریں۔ مگر  اس طواف کی ضرورت دو صورتوں میں ہے۔  ایک یہ کہ میقات پر پہنچ کرصرف حج کا احرام باندھا ہو  اور مکہ میں آکر طواف بیت اللہ اور طواف صفا مروہ کرکے حلال ہوگئے ہوں۔  اور آٹھویں زی الحجہ کو حج کےلئے نئے سرے سے احرام باندھا ہو دوسری صورت یہ ہے کہ طواف قدوم کے بعد صفا مروہ کا طواف نہ کیا ہو۔

جمرے مارنا

طواف افاضہ سے فارغ ہوکر اسی روز منیٰ کو لوٹ جایئں او ر وہاں تین دن گزاریں  تینوں روز آفتاب ڈھلے جمروں کوسات سات کنکر ماریں۔ اور ہر کنکر کے ساتھ اللہ اکبر کہیں۔  پہلا جمرہ اولیٰ کو جو مسجد خیف کے قریب ہے۔ اس کی جانب جنوب یا جانب مشرق میں کھڑے ہوکر ماریں۔  پھر جانب شمال سے ہوکر قبلہ کی طرف جمرے سے زرا سا آگے بڑھیں۔ اور قبل رخ ہوکردعا کریں۔  دعا کوئی معین نہیں جو چاہے کریں۔  پھر جمرہ وسطیٰ کوماریں۔ جو جمرہ اولیٰ کے قریب ہے۔  مارنے کے وقت اس کے جانب جنوب مغرب میں کھڑے ہو پھر قبلہ کی طرف آگے بڑھ کر قبلہ رخ ہوکر دعا کریں۔ پھر جمرہ عقبہ کو ماریں جیسے عید کے دن ماراتھا پھر اس  کا پاس دعا نہ کریں۔  تین روز گیارہویں بارہیوں تیرہویں اسی طرح ماریں اگر بارہیوں کو مارکر واپس آنا چاہیں۔ تو بھی اجاز ت ہے۔  اگر ہوسکے تو مکہ کو واپس آتے وقت مقام محصب میں رات گزاریں۔  جو منیٰ سے مکہ جاتے ہوئے مکہ کے قریب پہنچ کردایئں طرف پڑتا ہے۔ اس کے گرد چھوٹی چھوٹی دیوار ہے۔  اور برلب ایک عالیشان عمارت ہے۔ اور وہاں دو کنویں ہیں ایک دیوار کے اندر جو بے آباد ہے دوسر ا باہر جو آباد ہے۔  اس کے ساتھ آخور  (کھرلی )  کی شکل کا چھوٹا سا حوض اونٹوں کو پانی پلانے کےلئے بناہوا ہے۔  اس پر ان دنوں میں پانی نکالنے کی خاطر بادشاہ کی طرف سے مشین لگ جاتی ہے۔  وہاں رسول اللہ ﷺ مدینے کو رخصت ہوتے وقت  ٹھیرتے تھے۔ بس اب حاجی کا حج پورا ہوگیا۔ اب صرف وطن جانے کے وقت طواف وداع کرنا باقی ہے۔

تمتع قرآن  ۔ اِفراد

 میقات پر پہنچ کر اگر صرف عمرہ کا احرام باندھیں اور مکہ میں پہنچ کر بیت اللہ اور صفا مروہ کے طواف کے بعد احرام کھول دیں۔  اور آٹھویں تاریخ کو نئے سرےسے حج کا احرام باندھیں تو  اس کو حج تمتع کہتے ہیں۔ اور اگر میقات پر پہنچ کر صرف حج کا احرام باندھیں اور عید کے دن کھولیں ۔ تو ا س کوحج قران کہتے ہیں۔ حج تمتع میں اور حج قران میں قربانی ضروی ہے۔ افراد می ضروری نہیں۔ اس میں اختلاف ہے کہ ن تینوں میں سے کونسا بہتر ہے۔ شافعیہ کے نزدیک افراد بہتر ہے۔ بشرط یہ کہ حج سے فارغ ہوکر زی الحجہ میں عمرہ کرے۔ حنفیہ کے نزدیک قران فضل ہے۔ بعض اہل حدیث تمتع کو افضل کہتے ہیں۔ ہماری تحقیق اس میں یہ  ہے کہ قران اور تمتع افراد سے افضل ہے۔  اور اگر قربانی احرام باندھ کر ساتھ  لائے تو قران تمتع سے افضل ہے اوراگر قربانی ساتھ نہ لائے تو پھر قران او ر تمتع میں کچھ ایسا فرق نہیں ہے۔ ہاں کسی قدر ہمارا میلان قران کی طرف ہے۔

عمرہ

عمرہ صرف دو کاموں کا نام ہے۔ یعنی طواف بیت اللہ اور طواف صفا مروہ طواف  بیت اللہ کے ساتھ مقام ابراہیمؑ پر دو رکعت نماز  بھی ہے۔ تمتع والے کا عمرہ تو الگ ادا ہوگیا۔ اور قران والے کا حج کے ساتھ ادا ہوگیا۔ افراد والا اگر عمرہ کرنا چاہیے۔ تو حج سے فارغ ہوکر کرسکتا ہے۔  اگر حج کے مہینوں سے پہلے اس سال میں یا گزشتہ سالوں میں حج کے ساتھ یا حج سے الگ اس نے عمرہ نہیں کیا تو اس سال حج سے فارغ ہوکر عمرہ ضرور کرے۔ کیونکہ یہ بھی ایک ضروری شے  ہے۔ اگرچہ حج سے اس کا درجہ کم ہے۔  لیکن بہت سے علماء اس کے وجوب کی طرف گئے ہیں۔ اس لئے اس کا ادا کرنا ضروری ہے۔

زیارت مدینہ منورہ

 مدینہ منورہ کوزیارت مسجد نبویﷺ کی نیت سے جانا چاہیے۔ مسجد نبوی میں ایک نماز 50 ہزار نماز کا ثواب رکھتی ہے۔ مسند احمد میں حدیث ہے۔ کہ جو مسجد نبویﷺ میں 40 نمازیں پڑھے۔ وہ آگ عذاب ۔ نفاق س بری ہوجاتا ہے۔  پہلے مسجد نبوی ﷺ میں داخل ہوکر تحیۃ المسجد دو  رکعت پڑھیں پھر روضہ شریف کےپاس آکر رسول اللہﷺ اور آپ کے صاحبین پردرود سلام پڑھیں۔ اور قبرستان مدینہ جس کا نام بقیع ہے۔ اور شہداء احد وغیرہ کی زیارت کریں ان کے حق میں دہی دعا کریں جو قبروں کی زیارت کےلئے آئی ہے۔ اور مدینہ میں کئی ایک اور مسجدیں مشہور ہیں۔ مگر ان میں نماز کا زکر نہیں آیا۔ صرف مسجد قبا کی بابت حدیث میں آیا ہے۔  کہ اس میں دو رکعت پڑھنا عمرہ کا ثواب رکھتا ہے۔ جو مدینہ سے دو اڑھائی میل کے فاصلہ پر ہے۔  وہاں رسول اللہﷺ جایا کرتے تھے۔

قبولیت دعا کے خاص مقامات

 مکہ مکرمہ میں مندرجہ زیل مقامات میں خصوصیت سے دعا قبول ہوتی ہے۔ 1۔ طواف بیت اللہ میں 2۔ ملتزم کے پاس  (کعبہ کی دیوار کا وہ حصہ ہے۔ جو رکن حجر اسود اور بیت اللہ کے دروزے کے درمیان ہے۔ 3۔ بیت اللہ کے پرنالے کےنیچے4۔ بیت اللہ کے اندر5۔ زمزم کے پاس  (پانی پینے کے وقت ) 6۔ صفا پر جب سعی کرنے لگیں۔ 7۔ مروہ پر جب سعی کرنے لگیں۔ 8۔ طواف صفا مروہ ہیں۔ 9۔ مقام ابراہیمؑ پر طواف بیت اللہ کی دو رکعت پڑھنے کے وقت 10۔ عرفات میں 11۔ مزدلفہ میں 12۔ منیٰ میں 13۔ جمروں کے پاس  (بجز جمرہ عقبہ)  (ایضاح للنووی بحوالہ رسالہ حسن  بصری)

واپسی کی دعا

اپنے شہر یا گائوں میں واپس آنے کے وقت یہ دعا پڑھیں۔

 "لا اله الا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد وهو علي كل شيئ قدير ائبون تائبون عابدون ساجدون لربنا حامدون صدق الله وعده ونصر عبده وهزم الا حزاب وحده"

’’اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اور اس کا کوئی شریک نہیں۔ اس کےلئے حمد ہے وہ ہر شے پر قادر ہے۔ ہم اپنے رب کیطرف رجوع کرنے والے توبہ کرنے والے ہیں۔  اسی کےلئے عبادت اور سجدہ کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کوسچا کردیا۔ اور اس نے اپنے بندے کی مدد کی اور اس اکیلے لشکروں کوشکست دی۔‘‘

مسئلہ۔ اپنے شہر یا گائوں میں پہنچ کر مکان میں جانے سے پہلے قریب کی مسجد میں دو رکعت نفل  پڑھیں۔

نوٹ۔ حاجی چونکہ اللہ کی طرف سے مغفور ہوتا ہے۔ اس لئے اس کی دعا مقبول ہوتی ہے۔ لوگوں کو چاہیے کہ اس سے ملاقات کریں۔ اور دعا کرایئں۔ اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو توفیق بخشے۔ کہ وہ زیارت حرمین الشریفین سے مشرف ہوکر اپنے گناہوں اور خطائوں کو بخشوایئں۔

تنبیہ

حج کے تمام مناسک واحکام عرض کردیئے گئے ہیں۔ حجاج کرام کو چاہیے کہ ان کے مطابق فریضہ حج ادا کریں۔  کیونکہ یہ مبارک سفر بار بار میسر نہیں آتا۔ اس لئے موافق سنت ادا کرنا چاہیے۔ نیز حاجی کو چاہیے کہ وہ یہ سمجھے کہ میں مکہ مکرمہ میں تجدید توبہ کرچکاہوں۔ اس کو کبھی نہ توڑوں گا۔  صبح شام استقامت و استطاعت وخاتمہ بالایمان کی دعا مانگتے رہیں۔ صغائر وکبائر   تمام گناہوں سے کلی پرہیز کریں۔ بدعادات اور بُری خصلت کو چھوڑ دیں۔ والتوفیق بید اللہ۔ عبد اللہ امرتسری (تنظیم اہل حدیث روپڑ 15/22 اکتوبر 1937ء)

-------------------------------------------

1۔ یہ غالباً سہو کاتب ہے۔ در اصل یہ جگہ مکہ شریف سے تقریبا ڈیڑھ سو کوس کے فاصلہ پرہے۔  (محمد دائود رازد ہلوی)

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ  ثنائیہ امرتسری

جلد 01 ص 770-790

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ