سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(51) جادو حق ہے یا باطل؟

  • 5830
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 2138

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہم لوگوں میں دو فریق ہیں ایک فریق کہتا ہے کہ جادو حق ہے۔ اور کرنے والا کافر ہے۔ اور دوسرا کہتا ہے کہ جادو جھوٹا ہے اور کرنے والا مشرک ہے۔ ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

تم دونوں میں اختلاف نہیں جو جادو غٰیر اللہ کے نام کاہے۔ وہ بالکل شرک وکفر ہے۔ اس کا کرنے والا کافر ہے۔ جو جادو کفر یا کسی دوسری طرح کے کلام سے ہے وہ بھی برے اثر کی وجہ سے بڑا ہے۔ جو شخص جادو کو برحق کہتا ہے۔ اس کامطلب یہ نہیں کہ جائز ہے۔ بلکہ یہ مطلب ہے کہ جادو کا اثر واقعی ہے۔ چنانچہ ہاروت وماروت کے جادو کا قرآن شریف سے ثبوت ملتا ہے۔ (واللہ اعلم۔ فروری 1931ء)

سحر کیا چیز ہے۔

سحر لغت میں پھر ادینا اییک چیز کا ایک چیز کی طرف ہے۔ اس لہاظ سے اس کو چند ایک معنے پر اطلاق کرتے ہیں۔ اول جو چیز لطیف ہو اور باریک ہو اس پر سحر کا لفظ اطلاق ہوتا ہے۔ اسی پر کئی ایک محاورے استعمال کرتے ہیں۔

1۔ جیسا احرتُ الصبی۔ یعنی مہربانی کی میں نے بچہ پر

2۔ جیسا شاعروں کو کہتے ہیں۔ سحر العیون۔ یعنی ا س نے ٹھنڈی کی آنکھیں۔

3۔ طبیب لوگوں کا محاورہ الطبعۃ ساحرۃ یعنی مذاج نرم ہے۔ جب مریض کی طبعیت درست ہو۔

4۔ اللہ تعالیٰ کلام پاک میں ارشاد فرماتا ہے۔ ایک قوم کو بَل نَحنُ قَومٌ مَسحور‌ونَ ﴿١٥

’’یعنی ہم لوگ ایسی قوم ہیں جو لطیف اورادق دل والے ہیں معرفت سے ۔‘‘

5۔ اور آپ نے فرمایا اس معنی لے لہاظ سے ان من البيان لسحرا (یعنی بعض بیان (وعظ ) میں لطافت جو دل کو نرم کر دینے والی ہے۔ ثانی سحر کا اطلاق دھوکا اور خیالی چیز جو حقیقت میں ٹھیک نہ ہو اس پر بھی ہوتا ہے۔ جیسے شعبدہ باز۔ اور انسوں گر اور تمڑی والے ہیں۔ یہ لوگ اکثر دیہاتی لوگوں میں اور شہریوں میں جا کر آنکھیں بند کر کے رسی پر کھسکتے۔ اور آنکھ سے کانٹا نکالتے ہیں۔ پس دوسرے معنی کر کے اللہ تعالیٰ موسیٰ ؑ کے واقعے کو(جو کہ شعبدہ بازوں سے مقابلہ کیا تھا)بیان کیا۔ ملاحظہ ہوسورۃ طہٰ يُخَيَّلُ إِلَيهِ مِن سِحرِ‌هِم أَنَّها تَسعىٰ ﴿٦٦ یعنی ’’محض خیالی طورسے ان ساحروں شعبدہ بازوں کو رسی‘وغیرہ سے سانپ وغیرہ۔ کی شکل دوڑائی ہوئی نظر آتی تھی۔‘‘ دوسرے  سَحَر‌وا أَعيُنَ النّاسِ یعنی ’’ان ساحروں نے صرف تخیل عین کو بدل دیا۔ ‘‘یعنی ظاہر نظر کو پلٹ دیا۔ حقیقت میں اور رسی وغیرہ بعینہ وہی تھی۔ مگر ناظرین کی آنکھوں میں سانپ بچھو نظر آنے لگے۔ بس ٹھیک آج مسمیزم اسی کو کہتے ہیں۔ چنانچہ مولانا شیر پہنجاب ضعغم قادیانی نے اپنی تفسیر القرآن میں تحت آیت وَجاءو بِسِحرٍ‌ عَظيمٍ ﴿١١٦ پر حاشیہ لگاکے اس واقعے کو مسمریزم فرمایا ہے۔

ثالث۔ لفظ سحر کا اطلاق ان کے قول پر بھی ہوتاہے۔ جو لوگ شیاطین کی معرفت حاصل کرتے ہیں۔ یعنی شیطان سے دوستی اور لگائو پیدا کر کے ان سے سیکھتے ہیں۔ جیسا پنڈادجان گرولوگ شیاطین کی معرفت تھوڑی سی حقیقت اور جھوٹ ملا کر لوگوں میں شائع کرتے ہیں۔ بلحاظ ان معنی کے اللہ پاک فرماتا ہے وَلـٰكِنَّ الشَّيـٰطينَ كَفَر‌وا يُعَلِّمونَ النّاسَ

’’لیکن شیطان لوگ کافر ہوئے لوگوں کو جادو سکھاتے تھے‘‘

رابع۔ اس معنی پر اطلاق لفظ سحر ہے۔ جو کہ ستارہ کے ذریعے سے نجومی لوگ حالت بتاتے ہیں۔ یعنی علوم نجوم بھی از قسم سحر ہے۔

ناضرین کرام!

اب تو آپ نے سن لیا یہ چاروں معنی سحر کے ہیں۔ بعض قرآن پاک میں مستعمل ہیں۔ اور بعض عرب کی اصطلاح میں اب صرف اس بات کو سوچنا چاہیے کہ آیا اس سحر میں بنفسہ تاثیر ہے یا نہیں؟آیئے سلف صالحین کی تھقیق کو سنیے!

قال النووي والصحيح ان له حقيقة وبه قطع الجمهور وعليه عامة العلماء ويدل عليه الكتاب والسنة الصحيحة المشهورة(فتح الباري انصاری ص440نمبر24)

’’یعنی امام نووی کہتے ہیں صحیح بات یہ ہے کہ اس میں بنفسہ تاثیر ہے اور اسی پر جمہور اور علماء عام نے بات کے طے کیااور صحیح حدیث مشہور اور قرآن پاک اسی پر دلالت کرتے ہیں۔‘‘

گویا امام نووی رد کرتے ہیں۔ ان لوگوں کی باتوں کو جو لوگ کہتے ہیں۔ کہ اس میں بنفسہ تاثیر نہیں ہے۔ بتاتے ہیں کہ اس میں حقیقی اثر خداداد۔ یعنی اس میں اللہ پاک نےحقیقی اثر دیا ہے جو کرنے والے کرتے ہیں۔ اور اس پاک ذات کی مرضی سے ہوتاہے۔

اب مرقومہ بالا شہادت کو معلوم کر لینے کے بعد جولوگ کہتے ہیں کہ جادو کوئی چیز نہیں ہے۔ وہ غلط ہے ۔ ضرور جادو ایک چیز ہے۔ جو قرآن پاک میں اللہ نے مختلف لغات میں ہونے کی وجہ سے مختلف معنوں میں بیان کیا ہے۔ عیاں راچہ بیاں۔ اور جادو کوئی چیز نہ ہوتا تو نبی ﷺ پر کیوں اثر کرتا۔ اور دو سورتیں معوذتین اس کے دفعہ کرنے پر کیوں اترتیں۔

معلوم ہوا کہ یہ ایک چیز بُری ہے۔ اور اس کا کرنے والا کافر ہے۔ وہ فلاح نہ پائے گا۔ خدا خود فرماتا ہے وَلا يُفلِحُ السّاحِرُ‌ حَيثُ أَتىٰ ﴿٦٩ ’’جادوجیسا بھی ہو کرنے والا فلاح نہ پائے گا۔ اور کرانے والا بھی فلاح نہ پائے گا۔‘‘

اور بعض لوگوں کا گمان یہ بھی ہے کہ جادو پر یقین کرنے والا بے ایمان ہے۔ تو ان کی بات بھی صحیح نہیں کیونکہ مومن کا جادو پر یقین اس معنی کے کے ہے کہ وہ ایک بُری چیز ہے جو کہ بُرے لوگ کرتے ہیں۔ اس یقین سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ بے ایمان ہے۔ مثلا ہم جانتے ہیں کہ شیطان کا وجود دنیا میں ہے۔ اور وہ رجیم   ہےلوگوں کو بہکاتا پھرتا ہے۔ تو کیا ہم ان باگوں کو جو خداوند کرین نے بتادی ہیں نہ یقین کریں اور نہ سچ جانیں اسی طرفح سے جادو کی حالت  کیں کی   پس اس کو بھی من حیث جادو موثر ہے بحکم خدا یقین کر تے ہیں۔ اور اس کو برا جان کر حکم خدا کا پالن کرتے ہیں۔ یعنی خدا اوررسولﷺ کے منع کرنے کی وجہ سے ہم نہیں کرتے۔ او ساحروں کولائق قتل ہم جانتے ہیں۔ چنانچہ حضرت عمر٭ اپنے عاملوں کو خط میں لکھتے ہیں۔ ان اقتلو اكل ساحر وساحرة ترجمہ۔ ''یعنی قتل کرو تمام جادوگر مرد اور جادو گر عورتوں کو(فتح الباری انصاری پ24 ص220)

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ  ثنائیہ امرتسری

 

جلد 01 ص 191

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ