سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(27) قرآن کریم کے متعلق مغربی دنیا کی رائے

  • 5806
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 2792

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

قانون فطرت کا متبع خدا کی وحدانیت کا قائل اور اس کی ہستی کا مقر برگذیدہ کثرن ایندی کا معترف محض اس بناء پر کہ وہ اپنا طریقہ عبادت اسلامیہ سے جدا رکھتا ہے مشرک کافر دوزخی کہا جاسکتا ہے یانہیں۔ (ثناء اللہ پریوا نرائن پور)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قرآن کریم کے متعلق مغربی دنیا کی رائے

از محمد عنایت اللہ مالک آل انڈیا نمک لا نظیر کمپنی متوطن رامہ ایڈی نطام دکن

قرآن عالم اسلام کا ایک مشترکہ قانون ہے۔ جو معاشرتی ۔ ملکی تجارتی۔ فوجی۔ عدالتی۔ تعزیری۔ معاملات پر حاوی مذہبی ظابطہ جس نے ہر چیز کو باقاعدہ بنایا۔ مذہبی رسوم سے لے کر حیات روز مروہ کے افعال روحانی تجارت سے جسمانی صحت۔ اجتماعی حقوق سے انفرادی حقوق اور دنیاوی سزا سے لے کر اخروی عقوبت تک تمام امور کو سلک ضابطہ میں منسلک کردیاہے۔ جس کو اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد رسول اللہﷺ کے دل پر انسانوں کی رہنمائی کے لئے نازل فرمایا۔ تمام مذاہب عالم میں ایسا مکمل دستور العمل ہونے کا فخر اسلام صرف اسلام ہی کو حاصل ہے۔ جس پر ستر کروڑ انسان فخر کر رہے ہیں۔ مغرب کے نامور علماء کی ایک بڑی جماعت اسلام کو دنیا کا سب سے برگزیدہ اور مکمل مذہب مانتی ہے۔ اور جس کی تعریف میں رطب السلان ہے۔ ان میں سے چند مستشرقین کے خیالات جو بجائے خود ایک ضخیم کتاب کی صورت ہوگی اس لئے بااختصار درج کئے جاتےہیں۔ ڈاکٹر موریس جو فرانس کے مشہور ماہر علوم عربیہ ہیں جنھوں نے بحکم گورنمنٹ فرانس قرآن کریم کا ترجمہ فرانسیسی زبان میں کیا تھا۔ اپنے ایک مضون میں جو لا ہادل فرانسیسی زبان میں شائع ہوا تھا ایک اور فرانسیسی مترجم قرآن موسیو سالان رمیناش کے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں۔ کہ مقاصد کی خوبی اور او ر مطالب کی خوش اسلوبی کے اعتبار سے یہ کتاب(قرآن) تمام آسمانی کتابوں پر فائق ہے۔ اس کی فصاحت و بلاغت کے آگے سارے جہاں کے بڑے بڑے انشاء پرواز وشاعر سر جھکا دیتے ہیں۔

اور ایک جگہ کہتے ہیں۔ (ملاحظہ ہو تفقید الکلام مصنفہ سید امیر علی باب 17)روم کے عیسائوں کو جو کہ ضلالت کی خندق میں گرے پڑے تھے۔ کوئی چیز نہیں نکال سکتی تھی۔ بجز اُص آواز کے جو غار حرا سے نکلی

پروفیسر اڈوائز مونتے

اپنی تالیف اشاعت مذہب عیسوی اور اس کے مخالف مسلمان ص 71 پیرس 1890ءٔ؁) میں لکھتے ہیں۔ حضورﷺ کا مذہب تمام کے تمام ایسے اصولوں کا مجموعہ ہے۔ جوج معقولیت کے امورمسلمہ پر مبنی ہے۔ اور یہ وہ کتابہ ہے جس میں مسئلہ توحید ایسی پاکیزگی او جلال جبروت کی کمال تیقن کے ساتھ بیان کیا گیاہے۔ کے اسلام کے سوا اس کی مثال کسی اور مذہب میں مشکل سے ملےگی۔

ریو رنڈ آر یکسوئل کنگ

اپنی تقریر دین اسلام میں جو 17 جنوری 1915 کو قدیم طور پر لیباٹرین چرج نیو نارڈز میں کی گئی فرماتے ہیں۔

اسلام کی آسمانی کتاب قرآن ہے۔ اس میں وہ صرف مذہب اسلام کے اصول و قوانین درج ہیں۔ بلکہ اخلاق کی تعلیم روز مرہ کے متعلق ہدایات او ر قانون ہے اکثر کہا جاتا ہے کہ قرآن محمدﷺ کی تصنیف سب توریت و انجیل سے لیا گیاہے۔ مگر میرا ایمان ہے اگر الہامی دنیا میں الہما م کوئی شے ہے اور الہام کا وجود مکمل ہے تو قرآن شریف ضروری الہامی کتاب ہے۔ بلحاظ اصول اسلام مسلمانوں کو عیسایئوں پ فوقیت ہے۔

موسیو اوجین کلاقل

نامور فرانسییس مستشرق ہیں۔ جنھو ں نے مسلمانوں اور یہودیوں عیسایئوں کے مذہب کی تھقیق میں عمر صرف کردی۔ 1901ء؁ کے فرانسیسی اخبارات میں مضمون شائع کرتے ہیں۔ کہ قرآن مذہبی قواعد و احکام ہی کا مجموعہ نہیں بلکہ وہ ایک عظیم الشان ملکی اور تمدنی نظام پیش کرتا ہے۔

کونٹ ہنری دی کاسٹری

اپنی کتاب''اسلام'' جس کا ترجمہ مصر کے مشہور مصنف احمد فتحی بک زا غلول نے 1898ء؁ میں شائع کیا لکھتے ہیں۔ کہ عقل بالکل حیرت زدہ ہے۔ کہ اس قسم کا کلام اس شخص کی زبان سے کیونکہ ادا ہوا جو بالکل امی تھے۔ تمام مشرق نے اقرار کیا کہ یہ وہ کلام ہے۔ کہ نوع انسانی لفظا و مضا ہر لہاظ سے نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے۔ محمد رسول اللہﷺ قرآن کو اپنی رسالت کی دلیل کے طور پر لائے جو تاحال ایک ایسا مہتمم بالشان راز چلا آتا ہے۔ کہ اس طلسم کو توڑنا انسانی طاقت سے باہر ہے۔

انگلستان کا نامور موءرخ

 ڈاکٹر گبن اپنی تصنیف ''انحطاط و زوال سلطنت روما'' کی جلد 5 باب 50 میں لکھتے ہیں۔ قرآن کی نسبت بحر اطلانتک سے لے کر دریائے گنگا تک نے مان لیا ہے کہ وہ شریعت سے اورایسے دانشمندانہ اصول اور عظیم الشان قانونی انداز پر مرتب ہوئی کے سارے جہان میں اس کی نظیر نہیں مل سکتی۔

مسٹر ماما ڈپوک پکھتال

نے ''اسلام اینڈ ماڈرنزم ' لند ن پر تقریر کرتے ہوئے بیان کیا کہ وہ قوانین جو قرآن میں در ج ہیں۔ او ر جو بیغمبر ﷺ نے سکھائے۔ وہی اخلاقی قوانین کا کام دے سکتے ہیں۔ او ر بس کتاب کی سی کوئی اور کتاب صفحہ عالم پر موجود نہیں ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں مسلمانوں نے کسی شیخ الاسلام یا مجتہد کے فتوے کی اندھی تقلید میں قرآن کے اصلی مدعا کو خبط کریاہے۔ حالانکہ اس قسم کے تمامی امور کو قرآن نے بہت مذموم  قرار دیا ہے۔ شیدایانتقلید و مقلدمولوی صاحبان غور کرو دیکھو کہ

’’کہتی ہے تجھے خلق خدا غایبانہ کیا‘‘

الکس لولزون

فرانسیسی فلاسفر اپنی کتاب’’لائف آف محمد‘‘ میں لکھتے ہیں۔ محمد (ﷺ) نے جو بلاغت و فصاھت شریعیت کا دستور العمل دنیا کے سامنے پیش کیا۔ یہ وہ مقدس کتاب قران کریم ہے۔ جو اس وقت دنیا کے تمام ایک بٹا چھ حصے میں معتبر اور مسلم سمجھی جاتی ہے۔ جدید علمی اکتشافات میں جن کو ہم نے بزور علم حل کیا ہے یا ہنوز وہ زیر تحقیقی ہیں وہ تمام علوم اسلام و قرآن میں سب کچھ پہلے ہی سے پوری طرح موجود ہیں۔

موسیو سیدلو

 فرانسیسی خلاصہ تاریخ عرب صفحہ 59۔ 63۔ 64۔ میں لکھتے ہیں۔ اسلام بے شمار خوبیوں کا مجموعہ ہے۔ اسلام کو جو لوگ وحشیانہ مذہب کہتے ہیں۔ ان کو تاریک ضمیر بتلاتے ہیں۔ وہ غلطی پر ہیں ہم بزور دعویٰ کرتے ہیں کہ قرآن میں تمام آداب و اصول حکمت فلسفہ موجود ہیں۔

موسیو گاسٹن کار

نامور فرنچ مستشرق کے مضمون کا ترجمہ اسی زمانہ کے بیروت کے مشہور اخبار البلاغ 13 صفر 1330ھ نے شائع کیا۔ ہے لکھتے ہیں کہ’’اسلام حقیقت میں ایک طرح کا اجتماعی مذہب ہے۔ جس کودنیا کی 2 بٹہ 3 آبادی نے حق تسلیم کیاہے۔ اس علاقانہ مذہب کے قانون (قرآن ) میں وہ تمام فوائد و مصالح موجود ہیں۔ جن سے زمانہ حال کا تمدن بناہے۔ اسلام ہی نے دنیا کی عمرانی ترقی کے لئے ہر قسم کے زرائع یورپ کو پہنچائے۔ اگرچہ کوئی ہم سے اعتراف نہ کرے۔ مگر امر واقعہ یہی ہے''اور سوال کرتا ہے کہ روئے زمین سے اگر اسلام مٹ گیا مسلمان نیست و نابود ہوگئے قرآن کی حکومت جاتی رہی۔ تو کیا دنیا امن قائم رہ سکے گا۔ پھر خود ہی جواب دیتا ہے ’’ہرگز نہیں‘‘

نامور جرمن فاضل

اور مستشرق جو ایکمردی بولف جرمن کے رسالہ دی ہائف بابت 1913ء میں’’اسلام اور حفظ صحت‘‘ پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ کہ قرآن کریم کو حفظ صحت کے اعتبار سے ساری دنیا کی آسمانی کتابوں میں خاص امتیاز حاصل ہے۔ اسلام نے صفائی طہارت اور پاک بازی کے صاف و صریح ہدایات نافذ کر کے جراثیم ہلاکت کو مہلک صدمہ پہنچا یا ہے۔

محقق عمانویں ڈی اش (اسرائیلی)

کوارٹر ریویو جلد 127 نمبر 254 میں زیر عنوان ’’اسلام‘‘ تحریر فرماتے ہیں۔ یہی عرب لوگ(قرآن کی مددسے) یورپ کو انسانیت کی روشنی دکھانے آئے۔ جنھوں نے یونان کی مرد عقل اور علم کو زندہ کیا۔ اور مغرب و مشرق کو فلسفہ طب اور ہیت اوردلچسپ فن سکھانے کے لئے آئے۔ اورعلوم جدیدہ کے بانی ہوئے۔

پروفیسر ٹی ڈبلیو آرنلڈ

اپنی کتاب ’’پریچنگ آف اسلام‘‘ صفحہ 379۔ 381 میں لکھتے ہیں۔

’’مدارس میں قرآن کی تعلیم دی جائے۔ تو کچھ کم ترقی کا ذریعہ نہیں ہوسکتا۔ افریقہ کو ایک یہ بھی فائدہ ہوا کہ بجائے اپنی رائے سے حکومت کرنے کے انتظام سلطنت کے لئے ایک ضابطہ اور دستور العمل مل گیا۔ مسلمانوں کی تاثیر اور طرز اسلام سے افریقہ کے ملک میں اتنے بڑے بڑے شہر قائم ہوگئے۔ کہ یورپ کو اولا ان باتوں کا یقین نہ آیا۔

مسٹر ایچ ایس لیڈر

بعنوان ’’عربوں کا احسان تمدن پر‘‘ اورنٹیل سرکل لندن میں فرماتے ہیں۔ قرآن وحدیث کی تعلیم دینی و دنیاوی ترقیوں کا سرچشمہ ہے۔ عرب بحیثیت فاتح قوم امن و ترقی بخش قوم کی شان اخیتار کرنے لگے۔ تو ا س کےلئے قرآ ن وحدیث کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔

مسٹر ای ڈی ماریل

 نے 1912 میں رائل سوکا آف آرٹس میں ایک لیکچر شمالی نایجریا پر دیتے ہوئے فرمایا کہ قرآن نے نظام تہذیب و تمدن پیدا کیا۔ شائستگی کی روح پھونکی۔ سیول گورنمنٹ کا نظام اور حددود عدالت کے قیام میں اسلام بڑا معاون ثابت ہوا ہے۔ جہاں ابھی تک اسلام کی روشنی نہیں پہنچی۔ لوگوں کے فائدہ کے یہ بہت ضرور ی ہے کہ حکموت برطانیہ اس کو اسلام قائم رکھ کر اس کو مظبوط اور طاقتور بناے کی کوشش کرے۔     

جان جاک ولیک

 مشہور فلاسفر جرمن نے مقامات حریری تاریخ ابو الفدا اور معلقہ طرفہ عربی تصانیف کا لا طینی میں ترجمہ کیا ہے اور ان پر حواشی لکھے ہیں۔ لکھتا ہے کہ تھوڑی عربی جاننے والے قرآن کا تمسخر اُڑاتے ہیں۔ اگر وہ خوش نصیبی سے کبھی آپﷺ کی معجز نما قوت بیان سے تشریح سنتے تو یقینا یہ شخص بے ساختہ سجدے میں گر پڑتے۔ اور سب سے پہلی آواز ان کے منہ سے یہ نکلتی کہ پیارے رسول ﷺ پیارے نبیﷺ ہمارا ہاتھ پکڑ لیجئے۔ اور ہمیں اپنے پیروں میں شامل کر کے عزت و شرف دینے میں دریغ نہ فرمایئے۔

لندن کا مشہور ہفتہ وار اخبار

نیرسٹ ’’13 اپریل 1922ء؁ کی اشاعت میں لکھتا ہے۔ قرآن کی حسن و خوبی سے جس کو انکار ہے وہ عقل ودانش سے بیگانہ ہے۔

ایک عیسائی فاضل

رائو آفندی محاعص نے بیروت کے مسیحی اخبار الوطن 1911ء؁ میں دنیا کا سب سے بڑا ہیرو کون ہے۔ پر بحث کرتے ہوئے لکھتا ہے۔

’’جب کوئی مسلمان قرآن وحدیث کا یسکوئی سے مطالعہ کرے۔ یا اس پر تدبر کی نظر ڈالے۔ تو ان میں سے دین و دنیا کے فلاح و بہبودی کے تمامی اسباب پائے گا۔

مشہور مسیحی پادری

ڈین وسینٹلی نے مشرقی کلیسا کے ص 279 میں لکھا ہے۔ قرآن کا قانون بلاشبہ بائبل کے قانون سے زیادہ موثر ثابت ہوا ہے۔

مسٹر رچرڈسن

نے''نے قانون ازالہ غلامی انڈیا میں پیش کرتے وقت 1810ء میں فرمایا ٖغلامی کی مکروہ رسم اٹھانے کےلئے یہ ضروری ہے کہ ہندو شاستر قرآن سے بدل دیا جائے۔

کرنل انگر سال امریکہ

کے ایک مشہور دہریہ ہیں۔ جن کو اسلام اور عیسایئت تو کجا دنیا کے کسی مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس لئے اس فہرست میں ان کو خاص طور پر شریک کیاجاتا ہے۔ فرماتے ہیں کہ ہندسے کا راج ابحٌرا علم المثلثات ے گر علم پیمائش ستاروں کے نقشے زمین کا حجم اعوجاج طریق شمس۔ سال کی صحیح مدت آلات ہیت وغیرہ۔ مختلف قسم کے کلاک علم الکیمیات علم المعائات علم المناظر وغیرہ جنھوں نے اس قدر اختراعات او ر ایجاد کیں اور علوم وفنون کو اس قدر نشونماوی وعیسائی نے تھے۔ ہم کو خوب یاد رکھنا چاہیے۔ کہ موجودہ سائنس کا سنگ بنیاد پیروان اسلام کو ہی رکھنے کا فخر حاصل ہے۔ جو کسی مفید کام کےلئے عیسایئت یا کلیسا کے منت پزیر نہیں ہیں۔

ہسٹری آف دی مورش ایمپائر ان یورپ

کے مصنف اور مشہور مستشرق جناب ایس پی اسکاٹ لکھتے ہیں۔ ہم کو چاہیے کہ اس غیر معمولی مذہب (اسلام ) کی سرعت ترقی اور اس کے دوامی اثرات کی قدر کریں۔ کہ جو ہر جگہ امن و امان دولت وحشمت فرح سرور اپنے ساتھ لے گیا۔

مشہور فرانسیسی مورخ والیٹر

تہذیب اسلام پر بحث کرتے ہوئے لکھتا ہے۔ پادرویو ۔ رابہو۔ مجاورو۔ اگر تم کو ماہ جولائی میں (جب کہ رمضان کا مہینہ اس مہینے میں آئے۔ ) 4 بجے صبح سے 10 بجے شب تک آپ پر کھانے پینے کی ممانعت کا قانون عائد کردیا جائے۔ کسی قسم کی قمار بازی ہو سب سے منع کردیا جائے۔ شراب حرام کردی جائے۔ تپتے ہوئے صحرائوں سے گزر کر حج کو جانے کےلئے کہا جائے۔ اپنی آمدنی کا ڈھائی فیصدی حصہ محتاجوں میں تقسیم کردیں۔ اگر آپ اٹھاراں عورتوں کی رفاقت کا لطف اُٹھاتے ہوں۔ اور ان میں سے 14 کو یک لخت کم کردیا جائے۔ تو کیا آپ ایمانداری سے یہ کہنے کی جرائت کرسکتے ہیں کہ ایسا مذہب عیش پرست ہے۔ میں پھر کہتا ہوں کہ وہ لوگ جاہل ضعیف العقل ہیں۔ جو مذہب اسلام پر اتہامات و الزام عائد کرتے ہیں۔ یہ سب بے جا اور صداقت سے معرا ہیں۔

بلبل ہند مسر مسر وجنی نایئڈو

 ان سے کون ناواقف ہے مسجد ورکنگ میں جماعت مسلمین کے روبرو 28 دسمبر 1919ء؁ میں تقریر کرتے ہوئے کہا ’’قرآن کریم ٖغیر مسلموں سے رواداری کا برتائو سکھاتا ہے۔‘‘ دنیا کے تمام بڑے بڑے مذاہب کم وبیش ایثار علی النفس کی تعلیم دیتے ہیں۔ مگر اسلام اس باب میں سب سے آگے ہے۔ بنی نوع انسان کی خدمت تعلیم اسلام کا سرمایہ ناز ہے۔ اسی لئے اسلام نے تمام عالم گیر اخوت کا اصول دنیا کے روبرو پیش کیا ہے دنیا اسی اصول کی پیروی کرنے سے خوش حال ہوسکتی ہے۔

مہاتما گاندھی

اپنے مضمون میں جو (خداایک ہے) کے موضوع سے آپ ہی کے اخبار ’’ینگ انڈیا‘‘ میں شائع ہوا فرماتے ہیں۔ کہ مجھے قرآن کو الہامی کتاب تسلیم کرنے مین زرہ برابر بھی تعامل نہیں ہے۔ ہندو مسلم اتھاد اور موپلوں کے بلوے پر گاندھی جی نے ایک مضمون اپنے اخبار میں لکھا کہ پیغمبر اسلام ﷺ کی تمام زندگی کے واقعات مذہب میں کسی سختی کو روا رکھنے کی مخالفت سے لبریز ہیں۔ جہاں تک مجھ کو علم ہے کسی مسلمان نے آج تک کسی کو زبردستی مسلمان بنانا پسند نہیں کیا۔ اسلام اگر اپنی اشاعت کے لئے قوت اور زبردستی استعمال کرےگا۔ تو تمام دنیا کا مذہب باقی نہ رہ جائےگا۔ یہ ہے وہ اسلام ''ماخوذ از پیام امن''آجکل جو محض ضد اور اندھی تقلید اور زعم باطل کی وجہ سے انصاف سے ہٹ کر مقدس برگزیدہ اسلام پر جا و بیجا الزام تراشنے میں جو مشغول ہیں۔  ان کو چاہیے کہ میدان علم میں آنکھ کھولیں اور دیکھیں کے مشاہیر عالم کے آراء کیا ہیں۔ ؟اور خود اپنے ہاں کے نامور اہل قلم چند ر پال۔ مسٹر بھوپندر ناتھ۔ ما سوائے اسلام کے متعلق کیا خیال رکھتے ہیں۔ دور حاضرہ کی عالم گیر شخصیت کا انسان مہاتما گاندھی کے زرین ارشاد کو بہ نظر غائر دیکھو کہ صداقت اسلام کے وہ کس قدر دلدادہ ہیں۔ کیا وہ طبقہ جو اسلام پر الزام دھرتا ہے۔ یہ جائل ضعیف العقل و عقل و دانش سے بیگانہ ہیں۔ اس کا جواب فرانس کا مورخ والیٹرو لندن کا مشہور اخبار ہفتہ وار رایئٹر ریسٹ 13 اپریل 1922ء؁ کی اشاعت میں دے چکا ہے۔ کہ بے شک اسلام کو الزام دینے والا جاہل ضعیف العقل و عقل ودانش سے بیگانہ ہے۔

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ  ثنائیہ امرتسری

 

جلد 01 ص 160

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ