سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(678) کشمیر کے موجودہ جہاد کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

  • 5045
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 2536

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کشمیر کے موجودہ جہاد کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ فرض عین یا فرضِ کفایہ؟

 2       ان جہادی گروہوں کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا ان کے ساتھ شامل ہونا شرعاً فرض ہے؟

 3       اگر کوئی ان کے ساتھ شامل ہونے کے بعد کسی بھی سبب سے الگ ہونا چاہے تو وہ گنہگار تو نہیں ہوگا؟

 4       کیا جہاد اور قتال میں کوئی فرق ہے؟ ایک عالم کہتے ہیں کہ جہاد فرضِ عین ہے، جبکہ قتال فرضِ کفایہ ہے۔ کیا ان کا موقف درست ہے؟

 5       ایک عالم کہتے ہیں کہ کسی نہ کسی تنظیم سے منسلک ہونا ضروری ہے۔ دوسرے عالم کا موقف یہ ہے کہ ان تمام فرقوں اور گروہوں سے الگ رہنا چاہیے۔ اور حوالہ یہ دیتے ہیں:  (( فَاعْتَزِلْ تِلْکَ الْفِرْقَ کُلَّھَا )) ’’ان تمام گروہوں سے الگ رہو۔‘‘ 1اب آپ بتائیں کس کا موقف درست ہے؟

                                                                (ابو الحسین ،جامعہ أبی ہریرہ، رینالہ خورد، ضلع اوکاڑہ)

1 صحیح بخاری ؍ کتاب الفتن ؍ باب کیف الامر اذا لم تکن جماعۃ


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

:… 1 جہاد فرض عین ہے بحسب استطاعت اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: { لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلاَّ       وُسْعَھَا}[البقرۃ ۲؍۲۸۶][ ’’ اللہ تعالیٰ کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔‘‘ ] جہادِ کشمیر بھی جہاد میں شامل ہے، حافظ سعید صاحب امیر، حافظ عبدالسلام صاحب بھٹوی، پروفیسر ظفر اقبال صاحب، امیر حمزہ صاحب، حافظ عبدالغفار صاحب اعوان، حافظ عبدالرحمن صاحب مکی اور ان کے کئی ایک ساتھی۔ حفظہم اللہ تبارک وتعالیٰ۔ اپنے اپنے گھروں میں رہ کر مقبوضہ کشمیر میں جائے بغیرہی جہاد والا فرض عین ادا کرسکتے ہیں تو کوئی دوسرا اس طرح جہادی فرض عین کیوں ادا نہیں کرسکتا؟

 2       بس یہ جہادی گروہ ہیں، جو بروتقویٰ کے کام کریں ان میں ان کا تعاون فرض ہے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: {وَتَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی }[المآئدۃ: ۵؍۲][ ’’ نیکی اور پرہیزگاری میں ایک دوسرے کی امداد کرتے رہو۔‘‘  ]

 3       ان جہادی گروہوں میں سے کسی ایک میں شامل ہونے کی فرضیت کتاب و سنت سے ثابت نہیں، اور نہ ہی کوئی جہادی گروہ اپنے اندر لوگوں کی شمولیت کو فرض گردانتا ہے، لہٰذا کسی سبب سے علیحدگی انسان کو گنہگار نہیں بناتی۔

 4       عالم موصوف کا موقف درست ہے۔

 5       دوسرے عالم کا موقف  (( فَاعْتَزِلْ تِلْکَ الْفِرَقَ کُلَّھَا )) 1 [ ’’ ان تمام گروہوں سے الگ رہو۔‘‘ ] درست ہے، البتہ اتنی بات یاد رکھنی چاہیے کہ رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم نے  (( فاعتزل تلک الفرق کلھا )) فرمایاہے۔  (( فَاعتَزِلْ مِلَّۃَ الْإِسْلاَمِ وَأَحْکَامَھَا )) [’’ دین اسلام اور اس کے احکام سے الگ رہو۔‘‘ ]  نہیں فرمایا۔ اس لیے کسی تنظیم میں رسمی شمولیت کے بغیر بروتقویٰ کے کاموں میں ان کا ہاتھ بٹانا اور ان سے تعاون کرنا ضروری ہے۔ کما تقدم فی الرقم الثانی                 ۲۵ ؍ ۲ ؍ ۱۴۲۱ھ

1 بخاری ؍ الفتن ؍ کیف الامر اذا لم تکن جماعۃ

قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل

جلد 02 ص 673

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ