سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(176) بیسویں رمضان کو صبح سے اعتکاف میں بیٹھنا؟

  • 4179
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 1568

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

زید بیسیویں رمضان کو صبح کی نماز پڑھ کر اعتکاف میں بیٹھ گیا۔ آیا اس کا یہ فعل سنت کے مطابق ہے؟ (عبد الحمید از قلعہ میاں سنگہ ضلع گوجرانوالہ)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اکیسویں شب مغرب کے بعد اعتکاف بیٹھ جانا چاہیے۔ یہی سنت ہے، (اہل حدیث۔ ۹ شوال ۱۳۶۵ھ)

شرفیہ:… حدیث صحیح میں نماز صبح کے بعد ہے، ((کان النبی ﷺ اذا اراد ان یعتکف صلی الفجر ثم دخل معتکفه متفق علیه کذا فی بلوغ المرام)) یہ ہو گا کہ بیسیویں کی صبح کی نماز کے بعد اعتکاف میں بیٹھ جائے۔ تاویل لغو ہے۔ (ابو سعید شرف الدین)

تشریح:

از قلم حضرت مولانا محمد یونس صاحب مدرس میاں صاحب مرحوم دہلی۔

پہلے روزہ کی نیت کرنی ضروری ہے، فرضی روزہ کی نسبت رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ جس نے فجر سے پہلے اس کی نیت نہ کی اس کا روزہ نہیں ہوتا۔ (ترمذی شریف) نیت کہتے ہیں، ارادہ قلب کو زبان سے کوئی مروجہ لفظ ((بِصَوْم غَدٍ)) وغیرہ کہنے کی کوئی دلیل قرآن و حدیث سے ثابت نہیں۔ روزہ رکھنے کے لیے سحری کھانا باعث برکت اور ثواب عظیم کو موجب ہے، مومن کے لیے بہترین سحری کھجور ہے، یعنی کھجور ضرور کھانی چاہیے۔ سنت طریقہ یہ ہے کہ جا بجا مساجد میں سحری کی اذان کا اہتمام کیا جائے۔ جو اذان فجر سے کچھ وقت پہلے ہو۔ کیونکہ نبی علیہ الصلوۃ والسلام کی سحری اور نماز پڑھنے کا درمیانی وقفہ پچاس آیات پڑھنے کے برابر ہوت اتھا۔ اگر سحری کھاتے ہوئے صبح کی اذان ہو جائے تو اپنے لقمہ اور حاجت کو جلدی پورا کر لینا چاہیے۔ (مشکوٰۃ، ترمذی) روزہ کی حالت میں غیبت۔ چغلی، جھوٹ سے بچو۔ فحش بے حیائی۔ بدگوئی سے احتیاط کرو۔ جو شخص جھوٹے قول عمل اور عقیدہ کو نہیں چھوڑتا۔ اللہ کو اس کے روزہ کی کوئی ضرورت نہیں۔ اگر کوئی روزہ دار سے لڑنے جھگڑنے لگے تو روزہ دار کو چاہیے کہ اس کی بات کا کوئی جواب نہ دے۔ بلکہ کہہ دے کہ میں روزہ سے ہوں۔ احتلام ہو جانے سے۔ خود بخود قے آنے سے۔ مسواک کرنے سے۔ سرمہ۔ تیل لگانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا (ترمذی شریف) سورج غروب ہوتے ہی افطاری کا وقت ہو جاتا ہے، روزہ تر کھجوروں سے، اگر تر نہ ملیں تو خشک سے ورنہ پانی سے افطار کرنا سنت ہے، حدیثوں میں روزہ کھولتے وقت یہ دعا پڑھنی آئی ہے۔ ((اَللّٰھُمَّ لَكَ صُمْتُ وَعَلیٰ رِزْقِكَ اَفْطَرْتُ)) (مشکوٰۃ المصابیح) اس دعا میں چند الفاظ ((وَبِكَ اَمَنْتُ)) وغیرہ لوگوں نے بڑھا رکھے ہیں۔ حالانکہ وہ بے ثبوت ہیں۔ ایک مسلمان کو نبی ﷺ کے سکھلانے ہوئے اور بتائے ہوئے الفاظ بس کافی ہیں۔ دین میں ایجاد اور زیادتی کا نام ہی تو بدعت اور غلو ہے، خدا ہر مسلمان کو ان دونوں چیزوں سے محفوظ رکھے، روزہ کھولنے کے بعد یہ دعا بھی سنت ہے، ((ذَھَبَ الظَّمٓآءُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوْقُ وَثَبَتَ الْاَجْرُ اِنْشَاءُ اللّٰہُ)) (ابو داؤد شریف) جو شخص کسی روزہ دار کو کھانا کھلائے تو روزہ دار کہے۔ ((اَفْطَرَ عِنْدَکُمْ الصَّائِمُوْنَ وَاَکَك طَعَامَکُمْ الْاَبْرَارُ وَصَلَّتْ عَلَیْکُمْ الْمَلَائِکَةُ)) (ابن ماجہ) نبی اکرم ﷺ رمضان و غیر رمضان میں رات کو گیارہ رکعتیں نفل یعنی تراویح معہ وتر پڑھا کرتے تھے۔ یہی سنت اور زیادہ اجر فضیلت کا موجب ہے، اس کے علاوہ زیادہ رکعتیں مقرر کر لینا۔ ہمیشہ بیس رکعت پڑھنا اور سنت سمجھنا خلاف ہے، یہ کسی حدیث نبوی سے بہ سند صحیح کہیں ثابت نہیں۔

رمضان شریف کے آخری عشرہ کی طاق راتوں (۲۱۔ ۲۳۔ ۲۵۔ ۲۷۔ ۲۹) میں سے ایک شب قدر ہوتی ہے، اس میں بکثرت تلاوت قرآن۔ ذکر الٰہی۔ تسبیح۔ تہلیل اور اللہ کی عبادت نہایت شوق و ذوق سے کرنی چاہیے۔ کیونکہ اس کی عبات ہزار مہینوں کی عبادت سے افضل ہے، شب قدر میں گناہ گاروں کی گریہ زاری۔ توبہ استففار، عبادت کی رغبت دیکھنے کے لیے مسلمانوں سے ملاقات او رمصافحہ کرنے کے لیے جبرائیل علیہ السلام معہ فرشتوں کے زمین پر آتے ہیں۔ مزاروں، خانقاہوں، یا جس گھر میں نشے کی چیز ہو نشہ باز شخص ہو۔ باجے اور تصویریں ہوں۔ وہاں فرشتے نہیں جاتے۔ شرابی ماں باپ کے نافرمان، مسلمانوں سے بغض و بیر رکھنے والا اس رات میں بھی بخشش سے محروم رہتا ہے، اس رات میں یہ دعا پڑھنی سنت ہے۔ ((اَللّٰھُمَّ اِنَّكَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ)) (مشکوٰۃ)اعتکاف کرنا نہایت ثواب کی بات ہے، مرد و عورت دونوں کے لیے اعتکاف کرنا جائز ہے، اکیسیوں شب مسجد میں رہ کر نماز صبح کے بعد اعتکاف کی جگہ داخل ہونا چاہیے، اور مسجد کے گوشہ میں خلوت اختیار کر کے ذکر الٰہی، تسبیح۔ تہلیل۔ تلاوت قرآن احادیث کا مطالعہ وغیرہ عبادات صبح و شام کرتے رہیں۔ پاخانہ پیشاب یا اور سکی ضرورت شدید کے بغیر مسجد سے باہر نہ نکلیں۔ اعتکاف عید الفطر کے چاند ہونے تک کریں۔ (بخاری۔ ابن ماجہ)

صدقہ الفطر روزوں کی طہارت ہے، ہر مسلمان مرد و عورت چھوٹے بڑے امیر غریب آزاد غلام لونڈی پر کھجور۔ کشمش۔ پنیر۔ گیہوں۔ جو کا ایک صاع (جو بحساب انگریزی تقریباً پونے تین سیر ہوتا ہے) ادا جب فرض ہے، یہ نماز عید سے پہلے ادا کرنا چاہیے۔ نماز کے بعد دینے سے صدقہ الفطر ادا نہ ہو گا۔ فطرہ میں غلہ دینا افضل صورت ہے، قیمت بھی جائز ہے، اور گیہوں کا آدھا صاع بھی درست ہے۔ (بلوغ المرام)

لوگوں میںرمضان کے آخری جمعہ کو رسم الوداع مروج ہے، اور وہ اس دن روزہ چھوڑ کر حلیم وغیرہ کھانے کے لیے گاؤں سے شہروں میں آتے ہیں۔ حالانکہ اللہ و رسول نے نہیں ایسا حکم نہیں فرمایا۔ مسافر و مریض اور حائضہ کو ایام سفر میں مرض اور حیض میں روزہ معاف ہے، مگر دوسرے دنوں میں قضا واجب ہے، حاملہ۔ مرضعہ۔ دائم المریض بوجہ تکلیف روزہ نہ رکھ سکے تو ہر روزہ کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دے۔ میت کے فوت شدہ روزے اس کے وارث رکھ لیں۔ یا ہر روزہ کے عوض مسکینوں کو کھاناکھلا دے۔ صدقۃ الفطر زکوٰۃ کی طرح نظام کے ماتحت بیت المال میں جمع ہونا چاہیے۔ جہاں بیت المال قائم نہیں ہے، وہاں اس کا عمل میں آنا ضروری ہے تاکہ وقتاً فوقتاً دینی امور کی انجام دہی۔ اور قوم کے غرباء و فقراء اہل حوائج پر امام اس بیت المال کو خرچ کرتا رہے، دراصل اسلام کا اہم مقصد زکوٰۃ اور صدقات نکالنے سے یہی ہے، کہ وہ ایک جگہ جمع ہوں، اور پھر قوم کی مفلسی و ناداری پر خرچ کر کے قوم کو بحال کیا جاوے زمانہ خیر میں زکوٰۃ اور صدقۃ الفطر کی ادائیگی کے لیے امام وقت اور بیت المال کا قیام نہایت ضروری سمجھا گیا تھا۔ فقط والسلام۔ (۱۰ اگست ۴۵ء) (فتاویٰ ثنائیہ جلد ۱ ص ۴۰۸)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

 

 

جلد 06 ص 454-458

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ