سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(66) عبادات یا معاملات میں رسول اللہ ﷺ کے خلاف می..الخ

  • 3641
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 1049

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

عبادات یا معاملات میں رسول اللہ ﷺ کے خلاف میں صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین  کے یا مجتہدین کے قول پر عمل کرنے سے آدمی گناہ گار ہوتا  ہے یانہیں۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ ہے کہ مخالفت رسول اللہﷺ کی ہر طرح ناجائز ہے۔اور گناہ گار ہوگا۔جیساکہ قرآن شریف سے صاف ظاہر ہے۔۔۔قرآن۔۔۔البتہ تحقیق ہے واسطے تمہارے رسول اللہ ﷺ کی پیروی میں بھلائی ۔۔۔قرآن۔۔۔ترجمہ۔پس قسم ہے  تیرے پرور دیگار کی نہیں ایمان لاویں گے یہاں تک کہ بنایئں تجھ کو حکم بیچ اس چیز کے کہ پڑے جھگڑا درمیان ان کے(سید محمد نزیر حسین)

ساز باد خدا یا دل ویرانے را    یامدہ مہربتان ہیچ مسلمانے را

مخفی نہ رہے کہ حقیقت تقلید کی علمائے حنفیہ متاخرین کے نزدیک عبارت اس سے ہے کہ کلام کسی غیر معصوم کا اپنے اوپر بلا دلیل شرعی کے لازم کر لینا اور اس کو مستحکم پکڑنا حالانکہ یہ طرق مذموم تشریح جدید مخالف حکم خدا تعالیٰ ہے اس لئے کہ بندگان خدا مامور و مجبور اوپر التزام احکام وکلا م خدا ورسول ﷺ کے ہیں۔نہ غیر کے چنانچہ سورہ یوسف وغیرہ میں خدا فرماتا ہے۔ان الحكم الااللهحکم صرف اللہ تعالیٰ کے لئے ہے۔اسی التزام کلام غیر پر اللہ  تعالیٰ نے اہل کتاب کو الزام دیا۔اور رد کیا چنانچہ سورۃ توبہ میں فرماتا ہے۔﴿لقد كان لكم في رسول الله اسوة حسنة﴾

كذا في التفسير الجلالين والتفسير البيضاوي والتفسير الكبير وغيره

پس عباداللہ پر اطاعت خدا و رسول ﷺ کی واجب ہے۔نہ غیر کی چنانچہ خداتعالیٰ سورہ محمد میں فرماتا ہے۔۔۔قرآن2۔۔۔اور سورہ نساء میں فرماتا ہے۔۔۔قرآن۔۔۔

اور بغور ملاحظہ کرو کہ مولانا شاہ عبد العزیز دہلوی تحت اسی آیت مذکورہ کے تفسیر عزیزی میں فرماتے ہیں۔کہ اطاعت1امام مشروط و مقید است بہماں چیز ہاکہ معصیت آنہاز شرع معلوم نہ باشد والا اطاعت فرض نمی ماندو رجوع باحکام قرآن دادا امرونواہی پیغمبرﷺ باید نمود۔

اور اسی طرح تفسیر عزیزی مطبوعہ لکھنو ص410 میں مولانا  اس آیت کے  تحت لکھتے ہیں۔۔۔۔قرآن۔۔۔۔

1۔انہوں نے اپنے علماء اور پیروں کو خدا کے سوا اپنا رب بنا لیا۔2۔اللہ اور  رسول کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال ضائع نہ کرو۔3۔اللہ اور رسول اور اپنے حاکموں کی اطاعت کرو اگر کسی چیز میںتمہارااختلاف ہو جائے۔تو اس کا فیصلہ اللہ اور رسول سے کرالو۔ اگر  تم قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہو۔

کہ اس آیت میں دو طریقوں سے تقلید کا ابطال ہے۔پہلا یہ کہ مقلد سے پوچھنا چاہیے کہ جس کی تو  تقلید کرتا ہے۔وہ محقق ہے یا نہیں اگر محقق نہیں ہے تو تو اس کی  تقلید کیوںکرتا ہے۔اور اگر محقق سمجھتا تو اس کو کس طرح سے سمجھتا ہے۔کیا کسی کے بتانے سے یا از خوداگر کسی کے بتانے سے سمجھتا ہے تو یہی سوال اس کے متعلق ہوگا۔اور اسی طرح دور لازم آئے گا۔اور اگر تو اپنی عقل سے سمجھتا ہے کہ وہ محقق ہے تو تو اس عقل کو معرفت حق میں کیوں خرچ نہیں کرتا اور کیوں اپنے لئے تقلید کی عار گوارا کرتا ہے۔

دوسرا اس طریق سے کہ جس کی تو تقلید کرتا ہے اس نے بھی یہ مسئلہ کسی دلیل سے حاصل کیا ہے یاکسی کی تقلید سے تو اگر وہ بھی کسی کی تقلید کرتا ہے تو2 تو اوور وہ برابر ہوں گے اس کے لئے وجہ ترجیح کیا ہے کہ تو اس کی تقلید کرے اور اگر اس نے اس کو دلیل سے معلوم کیا ہے تو اس کی ترقلیدتو یہ ہے کہ   تو بھی اس کو دلیل  سے معلوم کرے ورنہ تو اس کا مقلد نہ ہوگا بلکہ مخالف ہوگا اور اگر تو بھی دلیل سے معلوم کرے گا تو تقلید ضائع ہوجائے گی۔تمام ہوئی عبارت تفسیر عزیزی اور اسی طرھ امام فخر الدین رازی تفسیر کبیر میں لکھتے ہیں۔تم بھی تفسیر عزیزی اور تفسیر کبیر کو بچشم خود دیکھنا کہ تم کو یقین ہو جائےا۔شنید ہ کے بود ما نند دیدہ۔تم لوگ ادنی دنیا کے مقدمہ کے لئے لندن پہنچتے ہو اور مقدمہ دین سے سراسر غافل نہاد ہو۔اور مضمون اس آیت کریمہ ۔۔۔قرآن۔۔۔۔۔سے تم قیامت میں پرسش ہوگی اور خداوند کریم سورہ قمر میں فرماتا ہے۔۔۔۔۔قرآن۔۔۔ترجمہ۔اردو میں ہے۔اس کے معنی سے واقف ہو جائو اور ہم ایسے مقلد مثل شتر بے مہار کے نہیں ہیں۔کہ ہر کسی کی بات بلا دلیل مان لیں ہم تو رعیت اور محکوم خدا اور رسولﷺ کے ہیں۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 11 ص 209-212

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ