سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(43) چشموں سے کھیتوں کو سیراب کرنا الخ

  • 3103
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 1366

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 یہ ہے کہ آپ کا فتویٰ صحیح ہے، یا حافظ صاحب کا (غازی پوری)؟ اور جواب آپ اخبار تنظیم اہل حدیث چھاپ دیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حافظ عبد اللہ صاحب غازی پوری نے چشموں سے کھیتوں کو سیراب کرنے کی صورت بتلائی ہے، کہ جد اول نالیاں ، نالے کھود یا کھدوا کر پانی پہنچایا جاتاہے، یہ بالکل درست ہے، بلکہ کنوؤں سے اونٹوں وغیرہ کے ذریعے جو پانی نکالا جاتا ہے، اس کے لیے بھی جد اول کی ضرورت پڑتی ہے، لیکن حافظ صاحب نے اس بات کا خیال نہیں کیا کہ مروجہ نہریں اس طرح نہیں کیونکہ یہ دوسرے کے قبضے میں ہیں،اور اس سے پانی لینے کے لیے ہمیں پیسے دینے پڑتے ہیں، جیسے کنویں سے پانی نکالنے کے لیے محنت ہوتی ہے، پھر ان سے جد اول کے ذریعے کھیتوں کو پانی دیا جاتا ہے، ہاں اگر یہ نہریں اہل اراضی کھودتے اور کھدواتے یا سرکار صرف کھدوائی لے کر پانی مفت چھوڑتی تو اس صورت میں یہ پانی بارش یا چشموں کے حکم میں ہو سکتا تھا، مگر یہاں یہ صورت نہیں کیونکہ سرکار تجارت کرتی ہیں، اور ہر سال پانی کی قیمت لے کر ہمیں پانی دیتی ہے، کھدوائی کا مختانہ سالہا سال سے پورا ہو چکا ہے، تو پھر کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ یہ کھدوائی چشموں کے جد اول کی طرح ہے، بلکہ جیسے گھڑے میں کوئی پانی محفوظ کر کے اس کو قیمت قیمتاً فروخت کرے، اسی طرح سرکار کرتی ہے۔
غرض ان نہروں کے پانی پر محنتانہ پڑتا ہے، جیسے کنوؤں وغیرہ کے پانی پر مختانہ پڑتا ہے، صرف مہنگ سست کافرق ہے، سو اس فرق سے یہ قدرتی نہروں چشموں کے حکم میں نہیں ہو سکتیں، جیسے کنوؤں میں بڑا فرق ہوتا ہے، کسی کا پانی بہت دور ہوتا ہے اور کسی کا نزدیک اور جھلار میں اس سے بھی زیادہ نزدیک ہوتا ہے، مگر چونکہ محنت سے نکلتا ہے، اس لیے اس پانی کی کھیتی میں بیسواں حصہ ہے، اسی طرح ان نہروں کو سمجھ لینا چاہیے، کیونکہ دارد مدار مختانہ پر ہے، مختانہ کے فرق پر نہیں۔ سبل السلام شرح بلوغ المرام ص ۲۱۴ میں ہے:
((المراد من الکل ما کان سقیه بنصب وعناء نصف العشر وھذا الحدیث دل علی التفوقه بینما سقی بالسوانی وبین ما سقی بما ء السماء والامطار حکمة واضحة وھو زیادة التعب والعنائي))
’’یعنی حدیث میں اونٹ وغیرہ کے ساتھ پانی پلائی سے یہ مراد ہے کہ جس کھیتی کا پانی محنت و مشقت سے حاصل ہو، اس میں نصف عشر ہے، اور اس حدیث سے معلوم ہوا جو کھیتی اونٹ وغیرہ کے ذریعے سیراب کی جائے اور جو بارش اور نہروں سے پرورش پائے، ان دونوں میں فرق ہے، اور وجہ اس کی ظاہر ہے، اور وہ زیادہ محنت اور زیادہ مشقت ہے۔‘‘
نیل الاوطار جلد نمبر ۴ صفحہ نمبر ۲۷ میں: ((فیما سقت السماء)) والی حدیث پر لکھا ہے:
((المراد ذالک المطی والثلج او البرد او الطل والمراد بالعیون الانھار الجاریة التی یستقی منھا من دون اغتراف بآلة بل تداح اساحة قوله او کان عثریا قال الخطابی ھو الذی یشرب بعروقه من غیر سقی زاد ابن قدامة عن القاضی ابی یعلی قال ھو المستنفع فی برکة ونحوھا یصب الیه ماء المطر فی سوات تسقی الیه قال فمثله الذی یشرب من الانھار بغیر مؤونة او یشرب بعروقة کان یغرس فی الارض یکون الماء قریباً من وجھھا فتصل الیه عروق الشجر فیستغنی عن السقی انتھیٰ))
’’یعنی آسمان کے پانی سے مراد بارش، برف، اولے اور ہلکی پھوار مراد ہے، اور چشموں سے مراد وہ نہریں ہیں۔
(نمبر۱) جن سے کسی آلہ کے ساتھ پانی نکال کر نہیں پلایا جاتا ہے، بلکہ ویسے ہی بہتی ہیں، حدیث میں عشریاً کے معنی کی بابت خطابی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ جو اپنی جڑوں کے ساتھ زمین کی تہہ سے پانی پی لے۔
(نمبر۲): اور ابو یعلی سے ابن خزیمہ نے زیادہ کیا ہے کہ عشری وہ جو نیچی جگہ میں ہو، جہاں نالیوں کے ذریعے بارش کا پانی خود بہہ کر آ جائے، نیز کہا ہے، عشری کا اصل عاثور ہے، اور عاثور کے اصل معنی ٹھوکر والے کے ہیں، اور نالی، انسان کے لیے ٹھوکر کا باعث ہے، اس لیے اس کا نام عاثور رکھ دیا ۔ نیز کہا ہے کہ:
یہی حکم اس کھیت یا درخت کا ہے جو بغیر مشقت کے نہروں سے پانی پئے یا اپنی جڑوں کے ساتھ زمین سے پئے، مثلاً ایسی زمین میں درخت لگائے کہ اس کا پانی بالکل نزدیک ہے، نیچے سے اس کی جڑوں کو پہنچتا ہے، اور پانی پلانے کا محتاج نہیں رہتا۔‘‘
ان عبارتوں سے واضح ہو گیا کہ فرق صرف محنت و مشقت کا ہے، او رمحنت و مشقت سے مراد کھدوائی کے علاوہ ہے، جیسینہر سے جھلار کے ذریعے پانی نکالنے یا کنویں سے رہٹ کے ذریعے یا چرس کے ذریعے یا قیمت ادا کر کے پانی لے، یہ ساری صورتیں محنت و مشقت کی ہیں، پس انگریزی نہریں بھی اس میں داخل ہوں گی، اور ان کی کھیتی سے بیسواں حصہ لیا جائے گا، نہ کہ دسواں۔
حسن اتفاق:… سائل بھی عبد اللہ ، مجیب بھی عبد اللہ اور مقابلہ بھی عبد اللہ کا عبد اللہ سے، بلکہ حافظ عبد اللہ کا حافظ عبد اللہ سے ہے۔ ایسے اتفاق سے خالی نہیں اور بعض دفعہ یہ حسن اتفاق باعث عبرت بھی ہوتا ہے، ام المؤمنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت محمد مصطفیﷺ کے ساتھ مقام صرف میں ہوا، جو مکہ معظمہ سے دس میل کے فاصلے پر ہے، مکلاوہ بھی وہیں آیا، وفات بھی وہیں پائی۔
حالانکہ نہ سرکار دو عالم رسول اللہﷺ صرف کے رہنے والے اور نہ حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا۔ دونوں کا اصل مکہ مکرمہ اور جائے رہائش آخر میں مدینہ منور۔ لیکن تینوں اہم واقعات (شادی،مکلاوہ اور وفات) سرف میں وقوع پذیر ہوئے، کیا یہ انسان کے لیے درس عبرت نہیں ہے۔ (عبد اللہ امرتسری) (تنظیم اہل حدیث لاہور ۱۷ اپریل ۱۹۷۰ ء شمارہ نمبر۷ جلد نمبر۳۳)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمائے حدیث

جلد 7 ص 127

محدث فتویٰ

 

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ