سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(31) قضیہ باغ فدک اعصاب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا

  • 26126
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 1830

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

باغ فدک سے محرومی پر حضرت فاطمہ الزہرا تادم مرگ ناراض ہیں۔ غضبت حتی توفیت (بخاری شریف)فاطمة بضعة مني من اغضبها اغضبني (بخاری) چنانچہ صغریٰ کبریٰ سے اللہ اور اس کے رسول کل ناراضی ثابت ہوئی۔ ایسے میں اصحاب ثلاثہؓ بہشتی اور مغفور کیونکہ قرار پائے۔ یا للعجب۔ نیز حضرت علیؓ اور حضرت عباسؓ نے شیخین کے حق میں کاذباً خائساً غادراً کہا ہے اور حضرت عمرؓ نے اس کا اعتراف بھی کرلیا تھا۔ (بخاری) لہذا آپ کے پاس کوئی صحیح جواب ہو تو تحریر کریں۔ (بشیر احمد غوری بنگلہ گر کیرہ ضلع ساہیوال)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اولا: یہ ہے کہ حضرت فاطمہؓ کی ناراضی والی حدیث تو حضرت علی ؓ کے بارے میں ہے۔ فاطمة بضعة منى فمن اغضبها فقد اغضبنى ‘‘ پھر آپ کے درج شدہ الفاظ صحیح نہیں ہے۔ فغضبت حتی توفیت کو فمن اغضبها فقد اغضبنی کے ساتھ ملا کر غضب کردیا۔ آخری الفاظ تو حضرت علی﷜ کے متعلق ہیں۔

پھر اس سے صغریٰ کبریٰ نکالتے ہوئے حضرت ابوبکر﷜ کو ( معاذ اللہ) اس کا مصداق قرار دیا جو کہ سراسر ظلم ہے۔

ثانیا بخاری شریف میں فغضبت حتی توفیت کے ساتھ دوسری الفاظ بھی ہیں جو یہ ہیں:

عن عائشة فَقَالَ لَهُمَا أَبُو بَكْرٍ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «لاَ نُورَثُ، مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ، إِنَّمَا يَأْكُلُ آلُ مُحَمَّدٍ مِنْ هَذَا المَالِ» قَالَ أَبُو بَكْرٍ: وَاللَّهِ لاَ أَدَعُ أَمْرًا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْنَعُهُ فِيهِ إِلَّا صَنَعْتُهُ، قَالَ: فَهَجَرَتْهُ فَاطِمَةُ، فَلَمْ تُكَلِّمْهُ حَتَّى مَاتَتْ

’’ اس روایت میں حضرت ابوبکرؓ کی معذرت اور اس کی دلیل جس کے بعد حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا دوبارہ مطالبہ نہ کرنا صاف طور پر ذکر ہے اور فہجرت کا معنی یہ ہے کہ پھر جناب فاطمہ رضی اللہ عنہا نے جناب ابوبکر﷜ سے فدک کے مطالبہ کےلیے ملاقات نہیں کی اور پھر چھ ماہ کے بعد اپنے اباجی ﷺ کو جاملیں۔ اور بخاری کی دوسری حدیث میں وجدت کا لفظ بھی آیا ہے جس کا معنی ندمت اور حزنت ہے، اس لیے اب معنی یوں ہوگا کہ جناب صدیق ﷜ سے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے جب معقول جواب سنا تواسے دعوے پر نام ہوئی ۔ اور غضب کا معنی یہ بھی ہوسکتا ہے ، انہیں اپنے آپ پر غصہ آیا ۔

ثالثاً: اغضاب اور غضب میں نمایاں فرق ہے۔ اغضاب کا معنی بلاوجہ ناراض کرنا ہوتا ہے لیکن حضرت ابوبکر﷜ تو حدیث  لا نورث ماترکنا فہو صدقۃ کی وجہ سے اپنی مجبوری کا اظہار فرما رہے ہیں اور حضرت ابوبکر صدیق﷜ کا یہ راست فیصلہ وما آتاکم الرسول فخذوہ کے عین مطابق تھا۔

بجرم عشق تو میکشند و غو غائیست!

تو نیز سربام آکہ خوش تماشائیست

رابعاً: حضرت فاطمہؓ کی یہ ناراضی اور رنجیدگی محض غلط فہمی کی بنا پر تھی اور اہل اللہ کی ایسی رنجیدگی جس کی بنیاد غلط فہمی پر ہو اس سے کوئی نتیجہ نکالنا صحیح نہیں ہوتا ورنہ حضرت ہارون﷤ نبی پر حضرت موسیٰ﷤ بھی ناراض ہوگئے تھے تو کیا حضرت ہارون ﷤ مغضوب علیہ قرار پائیں گے؟ ہرگز ہرگز نہیں۔

خامساً: حضرت فاطمہؓ اور حضرت صدیق کی صلح ہوگئی تھی، جیسا کہ امام بیہقی نے نقل کیا ہے۔

((روى البيهقى من طريق الشعبى ان ابابكر عاد فاطمة فقال لها على هذا ابوبكر يستأذن عليك قالت اتحب ان اذن له قال نعم فاذنت فدخل عليها فقرضها فرضيت))

حضرت ابوبکرؓ نے حضرت فاطمہؓ کی راضی کر لیا اور وہ راضی ہوگئیں......!

علاوہ ازیں حضرت ابوبکر صدیق﷜ نے بقول شیعہ مصنف کے باغ فدک حضرت فاطمہ ؓ کو دے دیا تھا۔ ملاحظہ ہو اصول کافی ص355 اور شیخ ابن مطہر حلی نے بھی منہاج الکرامۃ میں اعتراف کیا ہے۔

ماوعظت فاطمة ابابكر فى فدك كتب لها كتاب وردها عليها.

درمجان اساملین میں ہے:

فقانت والله لافعلن فقال والله لافعلن فقالت اللهم اشهد فرضبت بذالك واخذت العهد عليه.

ہوا ہے مدعی کا میرے حق میں فیصلہ سچا

زلیخا نے کیا خود پاک دامن ماہ کنعان کا

حضرت ابوبکرؓ نے حضرت فاطمہؓ کو فدک کی تحریر لکھ دی ملاحظہ ہو جلاء العیون ص151۔ اردو۔ اور اصولی کافی ص355 وغیرہ

بادہ خواری کا کیا فبرمغاں پہ جلسہ

اس بار ہم نے بڑے زور سے توڑی توبہ

حضرت علی ؓ پر ناراضگی:

جیسا کہ ہم نے اوپر اشارہ کیا ہے اس کے برعکس من أغضبها فقد اغضبني کے الفاظ تو حضرت علیؓ کے حق میں وارد ہیں، جیسا کہ خود شیعہ لٹریچر میں موجود ہیں، چنانچہ جلاء العیون اردو ص127 وص62وص63 ملاحظہ کریں، حضرت امام صادقؓ سے روایت ہے کہ حضرت علیؓ نے ابوجہل کی بیٹی  سے نکاح کرنا چاہا جناب فاطمہؓ ناراض ہوکر میکے چلی آئیں۔ نبی کریمﷺ نے جناب امیر کو کہا کہ جاؤ ابوبکر ؓاور عمرؓ  کو بلا لاؤ۔پس جناب امیر گئے ابوبکر وعمررضی اللہ عنہما کو بلالائے جب نزدیک رسول خداﷺ ہوئے تب آپؐ نے فرمایا یاعلیؓ تم نہیں جانتے کہ فاطمہؓ سے ہوں ، جس نے اسے آزاد کر دیا اس نے مجھے آزاد دیا الخ اور بالکل یہی واقعہ ہماری کتب حدیث میں بھی موجود ہے۔ چنانچہ تحفۃ الاحوذی میں ہے:

عن عبدالله بن الزبير ان علياً ذكربنت ابي جهل فبلغ ذالك النبى صلي الله عليه وسلم فقال انما فاطمة بضعة منى يوذيني مااذاها وَيَنْصِبُنِي مَا أَنْصَبَهَا

از حضرت عبداللہ بن زبیرؓ سےروایت ہے کہ حضرت علیؓ نے ابوجہل کی بیٹی سے نکاح کرنا چاہا جب اس کی نبیﷺ کو اطلاع پہنچی تو فرمایا کہ فاطمہؓ میرا گوشہ جگر ہے جو چیز فاطمہ ؓ کا تکلیف دیتی ہے وہ مجھے بھی تکلیف دیتی ہے جو چیز اس کےلیے بوجھ کا سبب ہے وہ میرے لیے بھی ہے۔مسلم شریف ص290 ج2

چونکہ آپ صغریٰ کبریٰ نکالنے کے کچھ زیادہ ہی خوگر ہیں،امید ہے کہ شیعہ اصول کے مطابق آپ صغریٰ کبریٰ جوڑ کر حضرت علیؓ کےحق میں بھی وہی نتیجہ اخذ فرمائیں گے جو نتیجہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے حق میں نکالنے کے ناکام کوشش کی ہے۔ فرمائیے۔ کیا آپ کے اصول کے مطابق حضرت علیؓ مغفور ہوں گے۔ یا للعجب

اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

بات وہ کہی جو بنائے نہ بنے

بوجھ وہ سرلیا جو اٹھائے نہ اٹھے

بحمد اللہ! ہمارے نزدیک حضرت علیؓ اپنے پیش رؤں کی طرف جنتی ہیں، چوتھے درجے پر اور چوتھے خلیفہ برحق تھے۔

خلفاء ثلاثہ اور تمام صحابہ ﷢ مغفور اور جنتی ہیں:

خلفائے ثلاثہ اور دیگر صحابہ کرام کے جنتی ہونے پر درج ذیل قرآنی آیت شاہد عدل ہے۔

﴿الَّذينَ ءامَنوا وَهاجَر‌وا وَجـٰهَدوا فى سَبيلِ اللَّهِ بِأَمو‌ٰلِهِم وَأَنفُسِهِم أَعظَمُ دَرَ‌جَةً عِندَ اللَّهِ ۚ وَأُولـٰئِكَ هُمُ الفائِزونَ ﴿٢٠﴾يُبَشِّرُ‌هُم رَ‌بُّهُم بِرَ‌حمَةٍ مِنهُ وَرِ‌ضو‌ٰنٍ وَجَنّـٰتٍ لَهُم فيها نَعيمٌ مُقيمٌ ﴿٢١﴾... سورة التوبة

’’ جو لوگ ایمان ﻻئے، ہجرت کی، اللہ کی راه میں اپنے مال اور اپنی جان سے جہاد کیا وه اللہ کے ہاں بہت بڑے مرتبہ والے ہیں، اور یہی لوگ مراد پانے والے ہیں ۔انہیں ان کا رب خوشخبری دیتا ہے اپنی رحمت کی اور رضامندی کی اور جنتوں کی، ان کے لئے وہاں دوامی نعمت ہے  ‘‘

بناكر دند خوش رہے بخون خاک غلطیدن

خدا رحمت کندایں عاشقاں پاک طینت را

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص212

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ