سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(181) مسجد و مدرسہ کی جگہ کو تبدیل کرنا

  • 24191
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 1390

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک آدمی نے کسی گاؤں کی سڑک پر شہر سے ۵ کلو میٹر جگہ خریدی۔ اس گاؤں سے ۲ فرلانگ کے فاصلہ پر ایک قطعہ اراضی ڈیڑھ کنال اپنی جمع کردہ پونجی (رقم) سے خریدی۔جس میں سے ایک کنال مدرسہ کے نام وقف کی اور ۱۰ مرلہ اپنے نام کرائی اور ۲ رہائشی کمرے بھی اپنی ذاتی رقم سے تعمیر کرائے اور مدرسہ کی چار دیواری وغیرہ کرائی۔ جس جگہ پر مدرسہ بنایا وہ جگہ غیر آباد ہے۔اس کے قریب اور کوئی رہائش وغیرہ نہ بن سکی۔ اس کا پانی بھی صحت کے لیے مضرہے۔ غیر آباد جگہ ہونے کی وجہ سے اور نزدیک قبرستان ہونے کی وجہ سے مقامی اور اقامتی طلبہ بھی نہ ٹھہرتے اور پھر وسائلِ آمدنی بھی اس قدر نہ ہوئے کہ وہ آدمی اس کو صحیح معنوں میں چلا سکتا۔ اب حالت یہ ہے کہ اس آدمی کا نہ تو کوئی کاروبار ہے اور نہ کوئی اور رہائش گاہ۔ وہ رہائش جو مدرسہ میں بنائی گئی اہل خانہ وہاں رہنے پر رضا مند نہیں کہ پانی مضر اور اس سڑک پر متعدد بار ڈاکے ،چوریاں ، قتل وغیرہ ہوتے رہے ہیں، اور اب بھی کبھی کبھی یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے اور یاد رہے کہ جس آدمی نے یہ جگہ دی اس نے مسجد بھی خود ہی ۵ مرلہ میں بنوا کر دی اور وہ مدرسہ اب بے آباد ہے۔ مدرسہ آباد ہو تو مسجد بھی آباد ہو۔ جمعہ کے لیے بھی حاضری نہیں ہوتی اور مدرسہ چلانے کے لیے نہ تو کوئی فنڈ ہے اور نہ یہ امید ہے کہ فنڈ مل جائے گا۔ جب یہ خرید کی گئی تھی چار ہزار روپے مرلہ خرید کی گئی تھی۔ اب شہر کے قریب کافی آبادی ہے جہاں پر احبابِ جماعت کے ۳۰،۲۵، گھر آباد ہیں اور وہاںپر مسجد مدرسہ اہلِ حدیث بھی نہیں ہے وہ لوگ مطالبہ کرتے ہیں کہ یہ جگہ فروخت کردو اور ہماری بستی میں جگہ خرید کرمسجد مدرسہ کا ملبہ وہاں پر لگا دو اور اس تعمیر پر اپنی رہائش بھی بناء لینا ۔ اس صورت میں مسجد مدرسہ کی جگہ تبدیل کی جا سکتی ہے یا نہیں ؟ پہلی جگہ ایک کنال یا ڈیڑھ کنال تھی۔ وہاں نئی جگہ پر صرف ۵ مرلہ زمین اتنی رقم پر ملے گی۔ جس سے جگہ خرید کی ہوئی ہے وہ کہتا ہے کہ اگر تم مسجد مدرسہ کا ملبہ لے جاؤ تو مجھے کوئی اعتراض نہیں کیونکہ یہاں پررونق نہیں ہو رہی۔ اس صورت میں کیا کیا جائے۔ مہربانی فرما کر جواب عنایت فرما کر ممنوع فرمائیں۔عین نوازش ہو گی۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مذکور پلاٹ چونکہ بنام مسجد وغیرہ وقف ہے اور وقف عقد لازم کی قبیل سے ہوتا ہے۔ اس لیے اس کا فسخ ناجائز ہے۔حدیث میں ہے وقف شَے نہ فروخت ہو سکتی ہے اور نہ ہبہ کی جا سکتی ہے اور نہ وراثت میں لی جا سکتی ہے۔ بناء بریںموجود جگہ غیر آباد ہونے کے باوجود وقف ہی رہے گی۔ اب غور طلب بات یہ ہے کہ اس سے فائدہ کس طرح اٹھایا جا سکتا ہے؟ تو فی الحال اس کی مناسب شکل وصورت یہی نظر آتی ہے کہ پلاٹ ہذا کو فروخت کرکے اس کے عوض آبادی میں جگہ خرید کر مسجد وغیرہ تعمیر کی جائے ، چاہے وہ حجم میں کم ہو۔ اس سے وقف متأثر نہیں ہوتا۔

صحیح مسلم میں تفصیلی قصہ موجود ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے بنام کعبہ ہدایا و نذرانوں کی تقسیم و توزیع کا عزم فرمایا ، لیکن نئے مسلمانوں کے حالات کے پیشِ نظر اس کی تعمیل نہ ہو سکی۔

اس سے معلوم ہوا کہ زائد عن الحاجت(ضرورت سے زائد) وقف کو مناسب کارِ خیر میں صرف کیا جاسکتاہے۔ ’’کشف القناع عن متن الاقناع‘‘ میں ہے ۔امام احمد رحمہ اللہ نے تبدیلیٔ وقف پر اس بات سے استدلال کیاہے کہ حضرت عبد اﷲبن مسعود رضی اللہ عنہما نے جامع مسجد کھجوروں کے تاجروں سے بدل دی۔ یعنی بدل کر کوفہ میں دوسری جگہ لے گئے۔ نیز حضرت عمر رضی اللہ عنہ  نے شارع عام تنگ ہونے پر مسجد کا کچھ حصہ راستہ میں ڈال دیا۔

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

کتاب المساجد:صفحہ:181

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ