سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(100) بیوٹی پارلر جانا اور وِگ لگوانا

  • 23852
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-18
  • مشاہدات : 960

سوال

 

کیا مسلمان عورت کا میک اپ کی خاطر بیوٹی پارلر جانا جائزہے؟شرعاً کا استعمال کیساہے؟کچھ لوگ اس دعوے کی بنیاد پر وگ کا استعمال جائز قراردیتے ہیں کہ عورتوں کا بال ستر میں داخل ہے اوروگ کے ذریعے اس بال کو ڈھاکا جاسکتا ہے۔کیا یہ صحیح ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اسلام وہ مذہب ہے جو زینت وزبیائش کو پسند کر تا ہے بلکہ اس کی  ترغیب دیتا ہے لیکن اعتدال اور توازن کے ساتھ۔اسلام اس بات کا سخت مخالف ہے کہ انسان بلاوجہ اپنے اوپر تقشف،بے چارگی اورپھوہڑ پن کی صورت طاری کیے رہے۔اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو سخت ناپسند کرتا ہے جنھوں نےحلال اور جائز زینت وزیبائش کوحرام قراردیا ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

﴿قُل مَن حَرَّمَ زينَةَ اللَّهِ الَّتى أَخرَجَ لِعِبادِهِ...﴿٣٢﴾... سورةالاعراف

’’کہو اللہ کی زینت کو کس نے حرام قراردیا جسے اس نے اپنے بندوں کے لیے تخلیق کیاہے‘‘

اور اللہ تعالیٰ نے نماز سے قبل زینت اختیار کرنے کی تاکید کی ہے۔اللہ فرماتا ہے:

﴿خُذوا زينَتَكُم عِندَ كُلِّ مَسجِدٍ...﴿٣١﴾... سورة الاعراف

’’ہرعبادت کے موقع پر اپنی زینت سے آراستہ رہو‘‘

عورتوں کی فطرت کا لحاظ رکھتے ہوئے اسلام نے زینت کی وہ چیزیں بھی عورتوں کے لیے جائزکردی ہیں جو مردوں کے لیے حرام ہیں۔مثلاً سونا،ریشم وغیرہ۔تاہم زینت وزیبائش کے وہ طور طریقے جن میں فطرت اور اعتدال سے روگردانی ہویا اللہ کی تخلیق میں تبدیلی ہو،مرداورعورت دونوں کے لیے یکساں طور پر حرام ہیں۔اللہ کی خلقت میں تبدیلی کرنا ایک شیطانی عمل ہے جس کی طرف یہ آیت اشارہ کرتی ہے:

﴿وَلَءامُرَنَّهُم فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلقَ اللَّهِ ...﴿١١٩﴾... سورة النساء

’’(شیطان نے کہا تھا) اور میں لوگوں کو حکم دوں گا پس وہ  اللہ کی خلقت میں تبدیلی کریں گے‘‘

اوراس لیےحضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے عورتوں پر لعنت فرمائی ہے جو ہاتھوں یا جسم کے کسی دوسرے حصے پر گدواتی ہیں یادانتوں کو کاٹ کاٹ کر نوکیلا بناتی ہیں یا ابرو کے بال ترشواکردیدہ زیب بناتی ہیں۔یااصلی بالوں میں نقلی بال لگاتی ہیں۔زینت کے ان طریقوں پر لعنت بھیجنے کامطلب یہ ہے کہ یہ طریقے حرام ہیں۔اسی سے وگ کا استعمال کرنے کا حکم معلوم ہوتا ہےکہ یہ حرام ہے کیوں کہ وگ درحقیقت اصلی بالوں میں نقلی بال کااضافہ ہے۔یہ کہناکہ وگ عورتوں کے بال کو چھپانے کا کام دیتا ہے خلاف حقیقت ہے ۔کیوں کہ بال چھپانے کے طریقے اور چیزیں سب کو معلوم ہیں۔یہ سب کو معلوم ہے کہ وگ کا استعمال زیب وزینت کے طور پر کیا جاتا ہے۔بلکہ بعض حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے وگ کو"زور" سے تعبیر کیا یعنی یہ وہ چیز ہے جو لوگوں کو دھوکے میں رکھتی ہے اور اس کے بارے میں فرمایا کہ:

"إِنَّمَا هَلَكَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ حِينَ اتَّخَذَهَا نِسَاؤُهُمْ" (بخاری)

’’بلاشبہ بنی اسرائیل ہلاک ہوئے جب ان کی عورتوں نے اسے اپنالیا۔‘‘

اس حدیث سے دو باتیں معلوم ہوتی ہیں۔

1۔پہلی بات یہ کہ وگ ایسی لعنت کو ایجاد کرنے اور رواج دینے والے یہود ہیں۔

2۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے اسی شئی کو"زور" سے تعبیر کرکے اس کی حرمت کے سبب کی طرف بھی اشارہ کردیا۔یعنی یہ لوگ دھوکے اور فریب کی ایک قسم ہے۔اور اسلام دھوکے اورفریب کو ناجائز قراردیتا ہے۔

اسی طرح عورتوں کا بیوٹی پارلر جا کر مردوں سے میک اپ کرانابالکل حرام ہے۔کیوں کہ شریعت کی رو سے عورتوں کااجنبی مرد کے ساتھ تنہا ہونااور اجنبی مرد کا اجنبی عورت کے بدن کا کوئی حصہ چھونا دونوں ہی بالکل حرام ہے۔

درحقیقت بیوٹی پارلر کا رواج بھی اس وقت عمل میں آیا جب آرائش وزیبائش اور میک اپ میں اعتدال اور توازن مفقود ہوگیا اورعورتوں کے لیے دنیا کی سب سے اہم ترین شئی میک اپ کرنا قرارپایا۔عورتوں کے لیے میک اپ جائز سہی لیکن یہ ایسی چیز تو نہیں جو ان کا سب سے بڑا مسئلہ بن جائے اور اس کی خاطر وہ اپنی دوسری اہم ذمے داریاں فراموش کربیٹھیں حتیٰ کہ بچوں کی تربیت بھی متاثر ہوجائے۔میک اپ جائز ہے لیکن حدود کے اندر اور میک اپ کےلیے بیوٹی پارلر جانے کی کیا ضرورت ہے۔وہ  گھر میں بھی تو میک اپ کرسکتی ہیں۔انہیں چاہیے کہ گھر ہی میں رہ کر میک اپ کریں اور اپنے شوہر کے لیے،نہ کہ راہ چلنے والوں کے لیے۔

بہرحال اگر بیوٹی پارلر جانا ناگزیر ہوتویہ اسی صورت میں جائز ہوسکتا ہے جب کہ بیوٹی پارلرمیں کام کرنے والی ساری کی ساری عورتیں ہوں اور مردوں کا داخلہ ممنوع ہو۔

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاوی یوسف القرضاوی

عورت اور خاندانی مسائل،جلد:1،صفحہ:229

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ