سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(9) غیر آباد زمین کو آباد کرنے کے احکام

  • 23731
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 3535

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

غیر آباد زمین کو آباد کرنے کے احکام


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

غیر آباد اراضی کی آبادی یہ ہے کہ مسلمان ایسی زمینوں کو جو کسی کی ملکیت میں نہ ہوں اور کسی اجتماعی مقصد کے لیے بھی مخصوص نہیں،درخت لگا کر یا مکان تعمیر کرکے یا کنواں لگواکر آباد کرے۔اس طرح وہ اس کا مستحق اور مالک بن جائے گا۔

اس تعریف کی رو سے دو باتیں واضح ہوئیں:

1۔اگر کوئی زمین مسلمان یا کافر کی قانونی ملکیت ہے(وہ خریدنے سے ہو یا عطیہ وغیرہ سے) تو اسے آباد کرنےسے کوئی مالک نہ ہوگا۔

2۔اگر اس زمین سے اجتماعی مصلحت ومفاد وابستہ ہو ،مثلاً:عام راستہ ہو،لوگوں کے بیٹھنے کا ڈیرا ہو،پانی کے چشمے کی جگہ ہویا بارش وغیرہ کے پانی بہنے کی جگہ ہو یا اس کی آبادی سے اہل شہر کی اجتماعی مصلحت پر زد پڑتی ہو،جیسے قبرستان یا کوڑا کرکٹ پھینکنے کے لیے جگہ یا عید گاہ یا لوگوں کے لیے لکڑیاں جمع کرنے کی جگہ یالوگوں کی چراگاہ ہوتو ان تمام جگہوں پر درخت لگا کر یاتعمیر کرکے کوئی شخص مالک نہیں ہوسکتا،البتہ اگرزمین کاکوئی ویران ٹکڑا کسی کی ملکیت میں نہیں اور اسے کسی شخص نے آباد کرلیا تو وہ اس کا مالک ہوجائے گا۔سیدنا جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

 "مَنْ أَحْيَا أَرْضًا مَيْتَةً فَهِيَ لَهُ "

"جس نے کسی ویران زمین کو آباد کرلیا وہ اسی کی ہے۔"[1]

امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ  نے اس حدیث کو صحیح کہاہے۔اس مضمون کی اور بھی بہت سی احادیث ہیں جن میں بعض صحیح بخاری بھی ہیں۔

فقہائے اسلام ویران زمینوں کو آباد کرنے والے کو مالک قراردیتے ہیں اگرچہ اس کی شرائط میں اختلاف ہے،البتہ حرم یا عرفات کے بارے میں فقہائے کرام کا نقطہ نظریہ  ہے کہ ان اراضی پردرخت لگانے یا تعمیر کرنے والا مالک نہ ہوگا کیونکہ اس میں مناسک حج ادا کرنے میں لوگوں کے لیےمشقت وتکلیف ہوگی اور ایسی جگہوں پر سب کا حق یکساں ہوتا ہے۔

(1)۔غیر آباد جگہ کی آبادی درج ذیل صورتوں سے واضح ہوگی:

1۔جب کسی نے ویران زمین کو درخت لگا کر یاباڑ لگا کر گھیرلیا ہوتو گویا اس نے اسے آبادکرلیا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے:

"من أحاط حائطا على أرض فهي له"

"جس نے کسی ویران زمین پر دیوار کرلی یا باڑ لگادی وہ اس کا مالک قرار پائے گا۔"[2]

ویران زمین کو آباد کرنے سے ملکیت تب ثابت ہوگی جب اس نے واقعتاً اس کو آباد کیا ہو،درخت لگائے ہوں یا مکانات تعمیر  کیے ہوں یاپانی کے لیے کنویں کھودے ہوں۔

واضح رہے زمین کی آبادی اورملکیت صرف ظاہری علامات لگانے اور مٹی یا اینٹوں کی چھوٹی سی چار دیواری کرنے سے جو ادھر اُدھر سے رکاوٹ نہ بنے،یا اردگرد کھدائی کردینے سے ثابت نہ ہوگی،البتہ اس سے اس کا حق دوسروں سے فائق ضرورہوگا۔اور وہ اس زمین کو فروخت بھی نہیں کرسکتا جب تک اسے صحیح اور حقیقی طور پر آباد نہ کرلے۔

2۔جس نے ویران زمین میں کنواں کھوداکہ اس سے پانی تک رسائی ہوگئی تو گویااس نے آباد کردیا وگرنہ وہ مالک نہ ہوگا،البتہ اس سے اس کا حق دوسرے پرمقدم ہوگا کیونکہ اس نے اس کی آبادی کاری میں پہل کی ہے۔

3۔اگر کسی نے ویران زمین تک چشمے یانہر کے پانی کا اجراکردیا تو بھی اس نے اسے آباد کرلیا کیونکہ دیوار کرنے کی نسبت پانی پہنچانے سےزمین کو زیادہ فائدہ ہوتا ہے۔

4۔اگرکوئی جگہ  پانی جمع ہونے کیوجہ سے ناقابل کاشت اور غیر آباد تھی تو کسی نے وہ پانی نکال کر اسے قابل کاشت بنالیا تو گویا اس نے اسے آباد کرلیا،لہذا وہ اس کا مالک ہوگا کیونکہ پانی مہیا کرنا یا ٹھہرے ہوئے پانی کو نکالنا محض دیوار کرلینے سے،جس کا ذکر حدیث میں ہے،زیادہ فائدے والا عمل ہے کیونکہ وہ یہاں اقامت کرکے اس کا مالک بنا ہے۔

بعض علمائے کرام کی یہ رائے ہے کہ غیر آباد کی آبادی کے لیے کوئی متعین علامات وشرائط نہیں بلکہ اس کا دارومدار وہاں کے لوگوں کے عرف پر ہے،یعنی جن صورتوں میں لوگ زمین کو آباد سمجھتے ہوں وہ صورت وعلامت ہوگی تو زمین کو آباد کہا جائے اور وہ اس کامالک ہوگا وگرنہ نہیں۔اکثرعلمائے حنابلہ وغیرہ کا یہی مسلک ہے۔ان کی دلیل یہ ہے کہ شریعت نے ملکیت کے لیے کوئی شرائط متعین نہیں کیں،لہذا زمین کی آبادی کے حکم کا دارومدار عرف عام پر ہوگا۔

(2)۔حاکم کو حق حاصل ہے کہ ویران وغیرآباد اراضی ان لوگوں میں تقسیم کردے جو انھیں آباد کرسکتے ہوں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے سیدنا بلال بن حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو (القَبَليّة) کے معاون الاٹ کیے تھے۔[3]

اور سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو"حضرموت" کی اراضی الاٹ کی تھی۔[4]

اسی طرح سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،سیدنا عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کو بھی کچھ اراضی الاٹ کی تھی۔

جس شخص کے حق میں الاٹ منٹ ہوئی اگر وہ اسے آباد کرلے گا تو وہ اس کا مالک ہوگا وگرنہ حاکم کو چاہیے کہ اس سے زمین واپس لے کر ایسے شخص کو دےدے جو اس کو آباد کرنے پر قدرت رکھتا ہو کیونکہ سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے ان لوگوں سے زمینیں واپس لے لی تھیں جو انھیں آباد نہ کرسکے۔

(2)۔غیر آباد زمین کے سواکسی اورمباح چیز،مثلاً:شکار کیا جانے والا جانور یا ایندھن کی لکڑی وغیرہ کے بارے میں یہ حکم ہے کہ جو شخص اسے پہلے حاصل کرے وہی اس کا حقدار ہے۔

(3)۔اگر لوگوں کی املاک کے پاس سے نہر یا وادی کا  پانی گزرتا ہوتو پہلے اوپر والا فائدہ حاصل کرے اور ٹخنوں تک کھیت میں پانی کھڑا کرے،پھر اپنے قریب والے کودے۔کھیتوں کے اختتام تک اسی پر عمل کیا جائے الا یہ کہ پانی پہلے ہی ختم ہوجائے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"اسْقِ يَا زُبَيْرُ، ثُمَّ احْبِسِ المَاءَ حَتَّى يَرْجِعَ إِلَى الجَدْرِ، ثُمَّ أَرْسِلِ المَاءَ إِلَى جَارِكَ"

"زبیر!(اپنے کھیت کو)پانی پلاؤ حتیٰ کہ منڈیروں تک پہنچ جائے،پھر اپنے ہمسائے کی طرف چھوڑدینا۔"[5]

امام زہری  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے فرمان:"پانی کو روک رکھ حتیٰ کہ منڈیروں تک پہنچ جائے۔"

پر غور کیا تو معلوم ہوا کہ کھیت میں پانی کی بلندی ٹخنوں تک بنتی تھی،یعنی لوگوں نے بھی اس قصے کا اندازہ کیا تو انھوں نے اپنے ٹخنوں تک پایا۔اب اسی کو استحقاق کا معیار بنالیا کہ پانی کا حق پہلے اسی کا ہے جس کا کھیت پہلے ہے،پھر اس کے بعد جس کا کھیت ہے ۔"

اس روایت سے واضح ہے کہ کھیت کو پانی دینے میں اول شخص کا استحقاق ٹخنوں تک پانی جمع کرنے کا ہے۔اسی طرح پھر بعد والوں کا استحقاق ہے۔

سیدنا عمرو بن شعیب  رحمۃ اللہ علیہ  سے روایت ہے:

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے"مہروز"(مدینہ منورہ کی مشہور وادی) کے سیلابی پانی کے بارے میں فیصلہ دیاکہ پہلے (قریب اور اوپروالا شخص) پانی روک کر فائدہ حاصل کرے یہاں تک کہ پانی ٹخنوں تک جمع ہوجائے،پھر اوپر کی زمین والا نیچے والی زمین کے لیے پانی چھوڑدے۔"[6]

(3)۔اگر پانی پر ایک سے زیادہ افراد کی ملکیت ہے تو ملکیت کے حساب سے باہم تقسیم کرلیں اور ہر ایک اپنے حصے کا پانی باہمی رضا مندی سے حاصل کرے اور جس طرح چاہے استعمال کرے۔

(4)۔حاکم کو حق حاصل ہے کہ وہ بیت المالک کے مویشیوں کی چراگاہوں کی حفاظت کرے،مثلاً:جہاد میں کام آنے والے گھوڑے اورجانور یا صدقے کے اونٹ وغیرہ،البتہ وہ مسلمانوں کو تنگ وپریشان کرکے تکلیف نہ دے۔سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے:

"أن النبي صلى الله عليه وسلم حمى النقيع لخيل المسلمين"

"نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  نے"نقیع"(چراگاہ) مسلمانوں کے گھوڑوں کے لیے مختص کردی تھی۔"[7]

اسی طرح حاکم کوچاہیے کہ ویران جگہوں پر اگنے والی گھاس پھوس کو صدقے کے اونٹوں،مجاہدین کے گھوڑوں ،جزیہ اور عام گم شدہ گھوڑوں اور اونٹوں وغیرہ کے لیے محفوظ کرادے بشرط یہ کہ اس کی ضرورت ہو اور عام مسلمانوں کی کوئی تنگی اور تکلیف نہ دے۔

"جُعَالَه" کے احکام

لغت میں "جُعَالَه"  اس چیز کو کہتے ہیں جو کسی کو کوئی کام کرنے کے بدلے میں دی جائے جبکہ شرعاً "جُعَالَه"اس متعین مال کو کہتے ہیں جو ایک خاص کام انجام دینے والے غیرمعین فرد کے لیے مقرر کیاجائے،مثلاً:ایک شخص کہتاہے:"  جو مجھے یہ دیوار بناکر دے گامیں اس کو اتنی رقم دوں گا۔"اب جو شخص بھی یہ دیوار بنائے گا وہ اس مال کا مستحق ہوجائے گا۔

(5)۔"جُعَالَه"کے جواز کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:

"وَلِمَن جَآءَ بِهِۦ حِمْلُ بَعِيرٍۢ وَأَنَا۠ بِهِۦ زَعِيمٌ"

"اور جو اسےلے آئے اس کے لیے ایک اونٹ کا بوجھ غلہ ہے اور اس وعدے کا میں ضامن ہوں۔"[8]

سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے "جُعَالَه"کے جواز کی دلیل سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی وہ روایت ہے جس میں وہ فرماتے:

"عَنْ أَبِي سَعِيدِ الْخُذْرِيّ رضي الله تعاليٰ عنه أَنَّ رَهْطًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللهِ صلي الله عليه وسلم انْطَلَقُوا فِي سَفْرَةٍ سَافَرُوهَا حَتَّى نَزَلُوافِي حَيٍّ مِنْ أَحْيَاءِ الْعَرَبِ فَاسْتَضَافُوهُمْ فَأَبَوْا أَنْ يُضَيِّفُوهُمْ فَلُدِغَ سَيِّدُ ذَلِكَ الْحَيِّ فَسَعَوْا لَهُ بِكُلِّ شَيْءٍ لَا يَنْفَعُهُ شَيْءٌ فَقَالَ بَعْضُهُمْ: لَوْ أَتَيْتُمْ هَؤُلَاءِ الرَّهْطَ الَّذِينَ قَدْ نَزَلُوا بِكُمْ لَعَلَّهُ أَنْ يَكُونَ عِنْدَ بَعْضِهِمْ شَيْءٌ فَأَتَوْهُمْ فَقَالُوا: يَا أَيُّهَا الرَّهْطُ إِنَّ سَيِّدَنَا لُدِغَ فَسَعَيْنَا لَهُ بِكُلِّ شَيْءٍ لَا يَنْفَعُهُ شَيْءٌ فَهَلْ عِنْدَ أَحَدٍ مِنْكُمْ شَيْءٌ؟ فَقَالَ بَعْضُهُمْ: نَعَمْ وَاللهِ إِنِّي لَرَاقٍ وَلَكِنْ وَاللهِ لَقَدْ اسْتَضَفْنَاكُمْ فَلَمْ تُضَيِّفُونَا فَمَا أَنَا بِرَاقٍ لَكُمْ حَتَّى تَجْعَلُوا لَنَا جُعْلًا فَصَالَحُوهُمْ عَلَى قَطِيعٍ مِنْ الْغَنَمِ فَانْطَلَقَ فَجَعَلَ يَتْفُلُ وَيَقْرَأُ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ حَتَّى لَكَأَنَّمَا نُشِطَ مِنْ عِقَالٍ فَانْطَلَقَ يَمْشِي مَا بِهِ قَلَبَةٌ قَالَ: فَأَوْفَوْهُمْ جُعْلَهُمْ الَّذِي صَالَحُوهُمْ عَلَيْهِ فَقَالَ بَعْضُهُمْ: اقْسِمُوا فَقَالَ الَّذِي رَقَى: لَا تَفْعَلُوا حَتَّى نَأْتِيَ رَسُولَ اللهِ صلي الله عليه وسلم فَنَذْكُرَ لَهُ الَّذِي كَانَ فَنَنْظُرَ مَا يَأْمُرُنَا فَقَدِمُوا عَلَى رَسُولِ اللهِ صلي الله عليه وسلم فَذَكَرُوا لَهُ فَقَالَ: وَمَا يُدْرِيكَ أَنَّهَا رُقْيَةٌ؟ أَصَبْتُمْ اقْسِمُوا وَاضْرِبُوا لِي مَعَكُمْ بِسَهْمٍ. » "

"ابوسعید خدری  رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں كہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  كے چند صحابہ كرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  ایك سفر كے لئے روانہ ہوئے جسے انہیں طے كرنا تھا راستے میں انہوں نے عرب كے ایك قبیلہ میں پڑاؤ كیا اور چاہا كہ قبیلہ والے ان كی مہمانی كریں لیكن انہوں نے انكار كیا۔ پھر اس قبیلہ كے سردار كو بچھو نے كاٹ لیا اسے اچھا كرنے كی ہر طرح كوشش انہوں نے كر ڈالی لیكن كسی سے كچھ فائدہ نہیں ہوا۔ آخر انہی میں سے كسی نے كہا كہ یہ لوگ جنہوں نے تمہارے قبیلہ میں پڑاؤ كر ركھا ہے ان كے پاس چلو ممكن ہے ان میں سے كسی كے پاس كوئی دم جھاڑ ہو۔ چنانچہ وہ صحابہ كے پاس آئے اور كہا لوگو ہمارے سردار كو بچھو نے كاٹ لیا ہے ہم نے ہر طرح كی بہت كوشش اس كے لئے كر ڈالی لیكن كسی سے كوئی فائدہ نہیں ہوا كیا تم لوگوں میں سے كسی كے پاس كوئی دم جھاڑ ہے؟ صحابہ میں سے ایك صاحب (ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ) نے كہا كہ ہاں واللہ میں جھاڑنا جانتا ہوں ۔لیكن ہم نے تم سے كہا تھا كہ تم ہماری مہمانی كرو( ہم مسافر ہیں)تو تم نے انكار كر دیا تھا اس لئے میں بھی اس وقت تك نہیں جھاڑوں گا جب تك تم میرے لئے اس كی مزدوری نہ مقرر کر دو۔ چنانچہ ان لوگوں نے كچھ بكریوں (30)پر معاملہ طے كر لیا۔ اب یہ صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  روانہ ہوئے یہ زمین پر تھو كتے جاتے اور«الحمدللہ رب العالمین»

( سورۃ فاتحہ) پڑھتے جاتے۔اس كی بركت سے وہ ایسا ہو گیا جیسے اس كی رسی كھل گئی ہو اور وہ اس طرح چلنے لگا جیسے اسے كوئی تكلیف ہی نہیں ۔ بیان كیا كہ پھر وعدہ كے مطابق قبیلہ والوں نے ان صحابی كو مزدوری(30بكریاں)ادا كردیں بعض لوگوں نے كہا كہ ان كو تقسیم كر لو ۔ لیكن جنہوں نے جھاڑا تھا انہوں نے كہا كہ ابھی نہیں پہلے ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  كی خدمت میں حاضر ہوں پوری صورت حال آپ كے سامنے بیان كردیں پھر دیكھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں كیا حكم فرماتے ہیں ۔چنانچہ سب لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم كی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ سے اس كا ذكر كیا آپ نے فرمایا : كہ تمہیں كیسے معلوم ہو گیا تھا كہ اس سے دم كیا جا سكتا ہے ؟ تم نے بہت اچھا كیا جاؤ ان كو تقسیم كر لو اور میرا بھی اپنے ساتھ ایك حصہ ركھو۔"[9]

(6)۔اگر کسی شخص نے علم ہوجانے کے بعد وہ کام کیا جس پر یہ خاص اجرت مقرر تھی تو کام کرنےوالا کام مکمل کرنے کی صورت میں اجرت کا مستحق ہوگا اور اگر ایک جماعت مقرر کردہ کام کرنے لگ جائے تو اجرت کی رقم ان میں برابر برابر تقسیم ہوگی۔اگر کوئی شخص از خود کام کرنے لگ جاتا ہے اور اسے یہ معلوم نہیں کہ اس پر اجرت مقرر ہوچکی ہے تو وہ اجرت کا مستحق نہیں ہے کیونکہ اس نے ایسا کام کیا جس کے کرنے کی اسے اجازت نہ تھی،البتہ اگر کام کرنے کے دوران اسے علم ہوا تو علم ہوجانے کے بعد کے عمل کا مستحق ہوگا۔

(7)۔ "جُعَالَه"اور اجارہ(کسی کو اجرت پر رکھنا)درج ذیل امور میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں:

1۔"جُعَالَه" کی درستی کے لیے ضروری نہیں کہ جس کام پر "جُعَالَه" مقرر کیا گیا ہو اسے عامل کے علم میں لایا جائے بخلاف اجارے کے۔اس میں شرط ہے کہ جس کام کی اجرت طےہوئی ہو وہ عامل کے علم میں بھی ہو۔

2۔"جُعَالَه" میں کام کی مدت متعین نہیں ہوتی جبکہ اجارے میں مدت عمل متعین ہوتی ہے۔

3۔"جُعَالَه"میں مدت اور کام دونوں کو جمع کرنا جائز ہے،مثلاً کوئی کہے:"جس نے اس کپڑے کی سلائی ایک دن میں کردی تو اسے اتنے روپے ملیں گے تو اگر اس نے اس مقرر دن میں سلائی کردی تو وہ انعام کامستحق ہوگا ورنہ نہیں،بخلاف اجرت کے کہ اس میں عمل اور مدت دونوں کو جمع کرنا درست نہیں۔

4۔"جُعَالَه"میں عامل کام پورا کرنے کی ذمے داری نہیں لیتا جبکہ اجارے  میں عامل ایک کام کو سرانجام دینا خود اپنے آپ پر لازم کرلیتاہے۔

5۔"جُعَالَه"میں عامل کی تعین شرط نہیں جب کہ اجارے میں یہ شرط ہے۔

6۔"جُعَالَه"ایسا عقد ہے جسے دونوں  فریق ایک دوسرے کی اجازت کے بغیر بھی فسخ کرسکتے ہیں بخلاف اجارے کے کیونکہ یہ عقد ہر فریق پر لازم ہوتا ہے،لہذا ایک فریق دوسرے کی رضا مندی کے بغیر فسخ نہیں کرسکتا۔

(8)۔فقہائے کرام نے ذکر کیا ہے کہ جو شخص کسی کا کام کسی مقررہ انعام کے بغیر اور مالک سے اجازت لیے بغیر کرتا ہے وہ کسی معاوضے یا انعام کا مستحق نہیں،اس لیے کہ اس نے کام کی ابتدا تبرعاً(خوشی سے) کی تھی،لہذا یہ انعام کا مستحق نہیں ہے کیونکہ جس چیز کو آدمی نے اپنے لیے لازم نہیں کیا وہ اس کو نہیں ملتی،البتہ اس سے دو صورتیں مستثنیٰ ہیں:

1۔جب کسی کام کرنے والے یا مزدور نے خود کو اجرت پر کام کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار کررکھا ہے۔جیسے دلال یا مزدور وغیرہ۔جب ہرایک مالک کی اجازت سے کام کرے گا تو اجرت کا حقدار ہوگا۔اگر اس نے اپنے آپ کو مزدوری کے لیے تیار نہیں رکھا ہواتو وہ اجرت کا مستحق نہ ہوگا،خواہ مالک کی اجازت سے کام کیا ہو،البتہ اگران کے درمیان کام کرنے سے پہلے معاوضہ طے پایا ہوتو اسے معاوضہ دیا جائے گا۔

2۔جو شخص خود کو خطرات میں ڈال کرکسی انسان کو یا اس کے سامان کو ہلاکت وتباہی سے بچاتاہے،مثلاً:کسی کودریا میں ڈوبنے سے یا آگ میں جلنے سے یا کسی اور پر خطرصورت حال سے نکال کر بچالیتاہے تو معروف اجرت کا مستحق ہے اگرچہ اس نے یہ کام مالک کی اجازت سےنہ کیا ہو کیونکہ اگر وہ یہ کام نہ کرتا تو وہ شے یا سامان مالک سے ضائع ہوجاتا اور مالک کو کچھ نہ ملتا۔اور اس لیے بھی کہ اجرت دینے میں اس طرح کے مشکل کام کرنے والوں کی حوصلہ افزائی بھی ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:"جس نے کسی کا مال ہلاکت سے بچا کر اس کے مالک کو پہنچادیا تو وہ اس پر اجرت کا مستحق ہے اگرچہ بغیر شرط کے ہو۔دوقولوں میں سے یہی قول صحیح معلوم ہوتا ہے ۔اور امام احمد  رحمۃ اللہ علیہ  سے بھی یہ منصوص ہے۔"[10]

نیز امام ابن القیم  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:"جس نے کسی کے مال میں اس کی اجازت کے بغیر کام کیا تاکہ اس کام کے ذریعے سے دوسرے تک پہنچا جائے یا مالک کے مال کی حفاظت یا اس کو ضائع ہونے سے بچانے کے لیے کوئی کام کرے تودرست بات یہی ہے کہ اسے کام کی مزدوری دی جائے گی۔امام احمد رحمۃ اللہ علیہ  نے کئی مواقع پر اس کی تصریح کی ہے۔"[11]

"لُقَطَه" کے احکام

"لُقَطَه" سےمراد ایسی گری پڑی چیز جو مالک سے گم ہوجائے۔

یاد رکھئیے!دین اسلام نے مال کی حفاظت اور اس کا خیال رکھنے کی تعلیم دی ہے اور مسلمانوں کے مال کا احترام اور اس کی محافظت کادرس دیا ہے۔اسی میں سے ایک"لُقَطَه"  ہے۔

(1)۔اگر گری پڑی چیز معمولی ہے اور متوسط طبقہ کے لوگ اس کی پروا نہیں کرتے،مثلاً:چابک،روٹی،پھل کا دانہ اور لاٹھی وغیرہ تو اسے اٹھا کر اعلان کیے بغیر فوری طور پراستعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں۔سیدنا جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے:

"رَخَّصَ لَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ فِي العَصَا وَالسَّوْطِ وَالحَبْلِ وَأَشْبَاهِهِ يَلْتَقِطُهُ الرَّجُلُ يَنْتَفِعُ بِهِ"

 "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہمیں گم شدہ لاٹھی،چابک اور رسی وغیرہ میں اجازت دی ہے کہ آدمی اٹھا کر اس سے فائدہ حاصل کرسکتاہے۔"[12]

2۔وہ حیوان جو چھوٹے درندوں سے اس وجہ سے محفوظ ہوکہ وہ مضبوط اور قد آور ہے،مثلاً:اونٹ،گھوڑا،گائے،خچر وغیرہ یا وہ اڑنے ولا ہو،مثلاً:کبوتر یاوہ بہت تیز دوڑتا ہو،مثلاً :ہرن یا وہ اپنا دفاع اپنی کچلیوں سے خود کرسکتا ہو،مثلاً:چیتا وغیرہ۔۔۔یہ مذکورہ قسم کے جانور ایسے ہیں جنھیں پکڑنا ممنوع ہے،ان کو پکڑنے والا اعلان کرنے کے بعد بھی مالک قرار نہ پائے گا،چنانچہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے گم شدہ اونٹ کو پکڑنے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"مَا لَكَ وَلَهَا، مَعَهَا سِقَاؤُهَا، وَحِذَاؤُهَا تَرِدُ الْمَاءَ، وَتَأْكُلُ الشَّجَرَ حَتَّى يَلْقَاهَا رَبُّهَا"

"تم اسے کیوں پکڑتے ہو؟حالانکہ اس کے ساتھ اس کا مشکیزہ(بڑا پیٹ) ہے اور اس کا جوتا ہے ،وہ خود ہی  پانی پی لے گا اور درختوں سے پتے کھالے گا حتیٰ کہ اس کا مالک اسے پالے۔"[13]

سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا فرمان ہے:"جس نے گم شدہ جانور(اونٹ وغیرہ) پکڑا وہ شخص گمراہ ہے۔[14]"یعنی غلطی کا ارتکاب کررہا ہے،لہذا اسے ہرگز نہیں پکڑنا چاہیے۔

درج بالا جانوروں کے علاوہ بڑے سائز کا سامان بھی اسی حکم میں شامل ہے،بڑی دیگ ،لوہا،بھاری مقدار کی لکڑی وغیرہ یا جو چیز خود ہی محفوظ رہے وہ نہ ضائع ہوسکتی ہو اور نہ اپنی جگہ سے منتقل ہوسکتی ہو اسے اٹھانا یا پکڑنا ناجائز ہے۔

3۔گم شدہ عام مال ہو،مثلاً:نقدی،عام سامان یا چھوٹے جانور جو درندوں سے خود دفاع اور بچاؤ نہیں کرسکتے،جیسے بکری ،بچھڑا،اونٹ کا بچہ وغیرہ۔اس قسم کی اشیاء یا جانوروں کو جو شخص پائے اگر اسے اپنی امانت ودیانت پر اعتماد ہوتو اٹھالے۔ایسی اشیاء کی تین قسمیں ہیں:

پہلی قسم:۔

ایسا حیوان جس کا گوشت کھایا جاتو ہو،مثلاً:اونٹ کا بچہ،بکری اور مرغی وغیرہ۔ان گم شدہ جانوروں کو جو پکڑے اس کے لیے تین درج ذیل صورتیں ہیں،ان میں سے وہ صورت اختیار کی جائے جس میں مالک کا فائدہ زیادہ ہو۔

1۔اسے  ذبح کرکے کھالے اور اس کی موجودہ قیمت مالک کو(جب بھی ملے) ادا کردے۔

2۔پہچان کی خاطر اس جانور کی امتیازی علامات محفوظ کرلے،پھر اسے بیچ کر اس کی قیمت سنبھال کررکھ لے تاکہ اس کے مالک کو بوقت ملاقات دی جاسکے۔

3۔اس جانور کی حفاظت کرے۔حسب ضرورت اس پر خرچ کرے تاکہ اس کی نگرانی وحفاظت ہوتی رہے۔خود کو اس کا مالک نہ سمجھے۔اگرمالک آجائے تو اس کا جانور اس کے حوالے کردے اور اس پر ہونے والے اخراجات وصول کرلے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے جب گم شدہ بکری کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا:

"خُذْهَا فَإِنَّمَا هِيَ لَكَ، أَوْ لِأَخِيكَ، أَوْ لِلذِّئْبِ"

"اسے پکڑلو،وہ تیری ہے یا تیرے بھائی کی ہے یا بھیڑیے کی ہے۔"[15]

ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ  اس روایت کی وضاحت کرتے ہوئے  فرماتے ہیں:" اس حدیث میں گم شدہ بکری کواٹھا لینے کا جواز ہے۔بکری کا مالک اگر نہ آئے تو وہ اٹھانے والے کی ملک ہوگی۔اس حال میں اسے اختیار ہے کہ اسے کھالے اور اس کی قیمت مالک کو ادا کردے یا اسے بیچ کر اس کی قیمت محفوظ کرلے یا پھر اس کی حفاظت کرے اور اپنے مال سے اس پر خرچ کرے۔علماء کا اس پراجماع ہے کہ اگر بکری کا مالک آجائے اور اس گم شدہ بکری کو اٹھانے والے نے کھایا نہ ہوتو اس کا مالک اس کو لینے کا حقدار ہے۔"

دوسری قسم:۔

وہ اشیاء جن کے خراب ہونے کا اندیشہ ہو،مثلاً:تربوز یا کوئی اور پھل۔ایسی اشیاء کو اُٹھانے والا خود کھالے اور بعد میں مالک کو اس کی قیمت ادا کردے یا فروخت کردے اور اس کی قیمت مالک کے لیے سنبھال کررکھ لے۔

تیسری قسم:۔

عام اموال واشیاء جو درج بالا دو اقسام کی اشیاء کے سوا ہیں،مثلاً:نقدی یابرتن۔اس قسم کی اشیاء کو امانت سمجھ کر بعینہ اسی حالت میں محفوظ رکھے اور لوگوں کے جمع ہونے کی جگہوں میں اعلان کرے اورمتعارف کروائے۔

(2)۔گری پڑی چیز وہی شخص اٹھائے جسے اپنی امانت داری پر اعتماد ہو اور اسے متعارف کروانے کی ہمت رکھتا ہوورنہ نہ اٹھائے۔کیونکہ سیدنا زید بن خالد جہنی  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے گم شدہ سونے یا چاندی کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ، أَنَّهُ قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَهُ عَنِ اللُّقَطَةِ -[1347]-، فَقَالَ: «اعْرِفْ عِفَاصَهَا وَوِكَاءَهَا، ثُمَّ عَرِّفْهَا سَنَةً، فَإِنْ جَاءَ صَاحِبُهَا، وَإِلَّا فَشَأْنَكَ بِهَا»، قَالَ فَضَالَّةُ الْغَنَمِ؟ قَالَ: (لَكَ، أَوْ لِأَخِيكَ، أَوْ لِلذِّئْبِ)"

"اس(ملنے والی) چیز کو باندھنے والی رسی اور اس کی تھیلی کی پہچان رکھ،پھر ایک سال تک اعلان کرتا رہ۔اگر اسے پہچاننے والا(مالک) نہ آئے تو اس سے(خرچ کرکے) فائدہ اٹھالے۔لیکن پھر وہ شے تیرے پاس امانت رہے گی۔اگراس کامالک کسی وقت بھی آجائے تو اسے وہ شے(یااس کی قیمت) دے دے۔"پھر اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سے گم شدہ اونٹ کے بارے میں پوچھا تو  آپ نے فرمایا:"تجھے اس سے کیا سروکار؟اس کے پاس پانی کے لیے مشکیزہ ہے۔اس کے پاؤں مضبوط ہیں،تالاب سے پانی حاصل کرے گا اور درختوں کے پتے کھالے گا یہاں تک کہ اس کا مالک آکر اسے پکڑ لے۔"پھر آپ سے گم شدہ بکری کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا:"تو اسے پکڑ لے،وہ تو تیرے لیے ہے یا تیرا بھائی اس کا مالک بن جائے گا یا پھر اسے بھیڑیا کھا جائے گا۔"[16]

حدیث میں مذکور لفظ: "عِفَاصَ" اور"وِكَاءَ" کے معنی ہیں:"نفقہ وغیرہ کا تھیلا اوراس کا منہ باندھنے والی رسی (ڈوری)"اور حدیث کے لفظ: "ثُمَّ عَرِّفْهَا سَنَةً"کا مفہوم ہے کہ گم شدہ چیز کو سال بھر متعارف کروائے،اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ لوگوں کے جمع ہونے والے مقامات،یعنی ڈیروں،بازاروں،مساجد کے دروازوں اور اجتماع گاہوں میں اس کا اعلان کرے جو ایک سال تک ہو پہلے ہفتے میں ہر روز اعلان  کیا جائے کیونکہ پہلے ہفتے میں مالک کے آنے کی توقع زیادہ ہوتی ہے۔ایک ہفتے کے بعد حسب عادت اس کا اعلان وقتاً فوقتاً کرتارہے۔

(3)۔ حدیث مذکور کے کلمات سے واضح ہوتا ہے کہ گم شدہ شے کا اعلان وتعارف کروانا واجب ہے حتیٰ کہ شے کا مالک آجائے۔اگر وہ ٹھیک ٹھیک علامات بتادے تو شے اس کے حوالے کردی جائے وگرنہ اسکے حوالے کرنا جائز نہیں۔

(4)۔حدیث مذکور سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ایک سال تک اعلان کرنے کے بعد جسے شے ملی ہے وہ اس کا مالک ہو گا لیکن اس کو استعمال میں لانے سے قبل اس کی تھیلی ،تسمہ،مقدار،جنس اور مزید امتیازی علامات ونشانات کو دل ودماغ میں یاتحریری طور پر محفوظ کرلے۔اگر سال کے بعد اصل مالک آگیا اور اس نے شے کی ٹھیک ٹھیک علامات بتادیں تو اس کے حوالے کردے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا یہی حکم ہے۔

(5)۔اگر کسی کو کوئی گری پڑے شے ملی تو وہ اسے اٹھانے کی کوشش نہ کرے الا یہ کہ اسے اپنے آپ پر امانت ودیانت کا بھروسہ ہو اور اعلان کرنے کی ہمت وطاقت رکھتاہو یہاں تک کہ اس کا مالک مل جائے۔اگراسے اپنی امانت خطرے میں محسوس ہوتو اس شے کو اٹھانا جائز نہیں،اگر اس نے وہ شے اٹھا لی تو وہ غاصب شمار ہوگا کیونکہ اس نے کسی کا مال ایسے طریقے سے پکڑا ہے جو اس کے لیے جائز نہیں تھا اور اس میں دوسرے کے مال کو ضائع کرنا بھی لازم آئےگا۔

2۔گری پڑی شے کولینے سے قبل اس کے برتن،تھیلی اور تسمے کی صفات اوراس شے کی مقدار،جنس اوراس کی قسم اچھی طرح نوٹ کرلے،ایسا کرنا لازمی ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس کا حکم دیا ہے اور مطلق حکم(امر) وجوب کے لیے ہوتا ہے۔

3۔گری پڑی شے اٹھانے کے بعد پورا ایک سال اس کااعلان کرنالازمی ہے۔پہلا ہفتہ روزانہ اعلان کرے،پھر دستور کے مطابق وقتاً فوقتاً اعلان کرے۔اعلان کرنے کے لیے لوگوں کے عمومی اجتماع،بازار اورمساجد کے دروازوں پر کھڑاہوکر اعلان کرے کہ کسی کی کوئی شے گم ہوئی ہوتو؟مساجد کے اندر(سپیکر وغیرہ پر) اعلان نہ کرے کیونکہ مساجد اس قسم کے کاموں کے لیے نہیں بنائی جاتیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ہے:

"من سمع رجلاً ينشد ضالة في المسجد فليقل لا ردها الله عليك فإن المساجد لم تبن لهذا"

"جس آدمی کو تم سنو کہ وہ مسجد میں گم شدہ شے کا اعلان کررہا ہے تو تم کہو:اللہ تعالیٰ(تیری شے) واپس نہ کرے کیونکہ مساجد اس کے لیے نہیں بنائی گئی ہیں۔"[17]

4۔گم شدہ شے تلاش کرنے والا جب آئے اور ٹھیک ٹھیک علامات بیان کردے تو بغیر دلیل طلب کیے اور بغیر قسم لیے اس کو دے دو۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے بھی اسی بات کا حکم دیا ہے۔اور اس چیز کی صحیح علامت بیان کردینا گواہی(دلیل) اور قسم کے قائم مقام ہوجاتا ہے بلکہ بسا اوقات دلیل اور قسم کی نسبت صحیح علامات کی نشان دہی زیادہ واضح اورزیادہ سچی ہوتی ہے۔نیز اس(گری پڑی شے) کی متصل یا منفصل بڑھوتری بھی ساتھ ہی واپس کی جائے گی،ہاں!اگر اس شے کا طالب علامات بیان نہ کرسکے تو یہ شے اس  کونہ دی جائے کیونکہ یہ ایک امانت ہے اور امانت ایسے شخص کو دینا جائز نہیں جس کا مالک ثابت نہ ہو۔

5۔ایک سال اعلانات کے باوجود اس شے کا مالک نہ آئے تو وہ شے اٹھانے والے کی ملک ہوجائے گی لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ شے کو خرچ کرنے سے قبل اس کی علامات وغیرہ اچھی طرح محفوظ کرلے،اگر کہیں اس کا مالک آجائے اور مذکورہ صفات وعلامات بتادے تو وہ شے اس کو لوٹادی جائے اگربعینہ موجود ہو،اگراس میں تصرف ہوچکا ہو تو اس کا بدل اسے دیاجائے کیونکہ اس کی ملکیت ایک نگہبان اور حفاظت کرنے والے کی طرح عارضی ملکیت تھی جو کہ اس کے مالک کے آجانے سے ختم ہوگئی۔

6۔حرم(مکہ) میں گری ہوئی چیز کے بارے میں علمائے کرام میں اختلاف ہے کہ اسے اٹھانے والا ایک سال تک متعارف کروانے کے بعد مالک ہوگا یانہیں؟بعض علماء کا کہنا ہے کہ مدت مقرر(ایک سال) کے بعد شے کو اٹھانے اور متعارف کروانے والا مالک ہوگا کیونکہ دلائل میں عموم ہے،جبکہ فریق ثانی کا نقطہ نظریہ ہے کہ وہ مالک نہ ہوگا اور نہ اپنے تصرف میں لائےگا بلکہ ہمیشہ کے لیے اس کا اعلان کرتا رہے  کیونکہ مکہ مکرمہ سے متعلق فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم  ہے:

"لَا تَحِلّ لُقَطَتهَا إِلَّا لِمُنْشِدٍ"

"اس کا لقطہ اٹھانا جائز نہیں مگر جو اسے متعارف کروانا چاہتا ہو۔"[18]

شیخ الاسلام  رحمۃ اللہ علیہ  نے اسی نقطہ نظر کوپسند کیا ہے،وہ فرماتے ہیں:"حرم کے لقطے کو اٹھانے والا کبھی بھی مالک نہیں ہوگا بلکہ اس پر ہمیشہ اعلان کرنا واجب ہے۔"[19]اور حدیث کاظاہری مفہوم بھی یہی ہے۔

7۔اگر کوئی شخص کسی ویران جگہ جانور کو اس لیے پیچھے چھوڑگیا کہ وہ ریوڑ کے ساتھ چلنے کے قابل نہیں رہا یامالک اسے اپنے ساتھ لے جانے میں کمزور ثابت ہواتو ایسے جانور کوپکڑنے والا مالک بن جائے گا کیونکہ حدیث میں ہے:

"مَنْ وَجَدَ دَابَّةً قَدْ عَجَزَ عَنْهَا أَهْلُهَا أَنْ يَعْلِفُوهَا فَسَيَّبُوهَا، فَأَخَذَهَا فَأَحْيَاهَا فَهِيَ لَهُ"

"جس نے ایسا جانور پایا کہ جس کا مالک اسے چارہ دینے سے عاجز ہو اور وہ اسے پیچھے چھوڑگیا ہوتو جس نے پکڑ لیا ،چارہ دیا اور خدمت کی تو وہ اسی کا ہے۔"[20]

اس کی وجہ یہ ہے کہ مالک کو اس کی طلب اور اس میں رغبت نہیں رہی، لہذا اس کا حکم وہی ہوگا جوردی چیزوں کا ہوتا ہے۔جس شخص کا جوتا یا سامان اٹھا لیا گیا اور اسے اسی جگہ ویسا ہی جوتا یا کوئی اورسامان مل گیا تو وہ اسے اپنی شے کا بدل سمجھ کر خود کو مالک نہ سمجھے بلکہ وہ لقطہ ہے جو ایک سال تک متعارف کروائے گا۔متعارف کروانے کے بعد اپنے حق کے مطابق اس کا مالک ہوگا اورباقی حصہ صدقہ کردے۔

8۔اگر کسی بچے یا کم عقل کوکوئی  گری پڑی شے مل گئی تو اس کا  ولی ایک سال تک اس شے کا اعلان کرے اور اسے متعارف کروائے،نیز وہ شعبے اپنے قبضے میں لے لے کیونکہ وہ دونوں امانت قبول کرنے اور اس کی حفاظت کرنے کے اہل نہیں ہیں۔اگر ولی نے ان سے وہ شے حاصل نہ کی حتیٰ کہ ضائع ہوگئی تو وہ ولی ضامن ہوگا کیونکہ وہ اسے ضائع کرنے والا ثابت ہوا۔اگر مالک نہ آیا توشے بچے یا کم عقل(جس نے اٹھائی ہے) کی ملکیت ہوجائے گی لیکن مالک کے آنے پر ادائیگی ضرور ہوگی جیسا کہ عاقل وبالغ کافرض ہے۔

9۔اگر کسی شخص نے گری پڑی شے اٹھا کر دوبارہ وہیں رکھ دی حتیٰ کہ وہاں پڑی پڑی ضائع ہوگئی تو یہ شخص ضامن ہو گا اس کے ہاتھ میں ایک امانت آئی تھی جس کی اسے دیگر امانتوں کی طرح حفاظت کرنی چاہیے تھی اس نے وہاں چھوڑ کرضائع کردی،لہذا وہ ضامن ہوگا۔

تنبیہ:۔

دین اسلام نے لقطہ کے بارے میں ہمیں جو ہدایات دی ہیں،ان سے واضح ہوتا ہے کہ لوگوں کے اموال اور سامان کی حفاظت کرنے اور انھیں سنبھال کررکھنے کی بڑی اہمیت ہے،نیز اسلام ایک دوسرے کے ساتھ بھلائی وخیر خواہی کرنے اوران کے ساتھ تعاون کرنے کی رغبت دلاتا ہے۔

اللہ تعالیٰ سے دعاہے کہ وہ ہمیں اسلام پر قائم ودائم رکھے اور اسی پر موت دے۔آمین

لَقِیط کا حکم

لقیط اور لُقطہ کے مسائل کا ایک دوسرے سے بڑا گہرا تعلق ہے کیونکہ"لقطہ"گرے پڑے مال ومتاع کو کہتے ہیں جبکہ"لقیط" گرے پڑے یاگم شدہ بچے کو کہا جاتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اسلام کے احکام انسانی زندگی کے ہرشعبے کو محیط ہیں حتیٰ کہ اس میں یتیم بچوں اور بے سہارا لوگوں کے حقوق بھی موجود ہیں بلکہ اسلام کے سنہری اُصول اور انسانی حقوق آج کی مہذب دنیا کے معروف حقوق سے کئی درجے اعلیٰ اور فائق ہیں۔اسی طرح اسلام نے لقیط کے بارے میں بھی لوگوں کی راہنمائی کے لیے اہم ہدایات دی ہیں۔

شرعی اعتبار سے:۔

جوبچہ کسی کو گرا پڑا یا گمشدہ حالت میں ملے اور اس کانسب غیر معروف ہو اور کوئی اس کا مدعی بھی نہ بنے کہ یہ میرا ہے تو وہ"لقیط" ہے۔

لقیط کا حکم یہ ہے کہ مسلمانوں میں سے کوئی شخص اسے حاصل کرکے اس کی تربیت وکفالت کرلے تو سب کی ذمےداری پوری ہوجائے گی،یعنی کوئی بھی گناہ گار نہ ہوگا۔گویا یہ فرض کفایہ ہے۔اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:

﴿ وَتَعاوَنوا عَلَى البِرِّ وَالتَّقوىٰ...﴿٢﴾... سورة المائدة

"نیکی اورپرہیز گاری میں ایک دوسرے کی مدد کرتے رہو۔"[21]

آیت کے الفاظ  اپنے عموم کے اعتبار سے لقیط بچے کو اٹھانے اور اس کی پرورش کرنے کے حکم کو بھی شامل ہیں کیونکہ یہ بھی نیکی وتقویٰ میں تعاون کی ایک صورت ہے،نیز کسی کو اٹھا کر اس کی زندگی بچانا اسی طرح فرض ہے جیسے بوقت ضرورت کسی کو کھانا کھلانا یاکسی کو ڈوبنے سے بچانا فرض ہے۔

(1)۔لقیط بچہ تمام احکام شرعیہ میں آزاد متصور ہوگا کیونکہ آزادی اصل ہے اور غلامی ایک عارضہ ہے،جب کسی کی غلامی کا علم نہ ہوسکے تو اصل(آزادی) ہی کا اعتبار ہوگا۔

(2)۔اگر بچے کے ساتھ یا اس کے قریب ہی مال بھی ملا ہوتو اٹھانے والا اسی بچے کا مال سمجھ کر معروف اور مناسب طریقےسے اس پر خرچ کرے گا کیونکہ وہ بچے کا ولی اور سرپرست ہے۔اگر مال نہیں  ہے تو بیت المال سے اخراجات پورے کیے جائیں گے۔سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے ایک شخص کو(جس نے لقیط کو  اٹھایا تھا) فرمایا:

"اذْهَبْ فَهُوَ حُرٌّ وَلَكَ، وَلَاؤُهُ وَعَلَيْنَا نَفَقَتُهُ"

"اسے لے جاؤ یہ بچہ آزاد ہے غلام نہیں۔اس کی سرپرستی تمہارے ذمے اور اخراجات ہمارے ذمے ہیں۔"[22]

واضح رہے سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی مراد"بیت المال" تھی۔

ایک روایت میں ہے سیدنا عمربن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے فرمایا:"وعلينا رضاعه"اسے دودھ پلانے کی ذمے داری ہم(بیت المال)پر ہے۔"

اس روایت کی روشنی میں بچے کے اخراجات اسے اٹھانے والے شخص پر نہیں بلکہ یہ بیت المال کی ذمہ داری ہے۔اگر بیت المال کا انتظام نہ ہوتو ان مسلمانوں پراس کاخرچ ہے جو اس کے حالات سے واقف ہوں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿ وَتَعاوَنوا عَلَى البِرِّ وَالتَّقوىٰ...﴿٢﴾... سورة المائدة

"نیکی اورپرہیز گاری میں ایک دوسرے کی مدد کرتے رہو۔"[23]

علاوہ ازیں اخراجات کے ترک میں بچے کی ہلاکت ہے۔مزید برآں اس کے اخراجات اٹھانا اس کے ساتھ ہمدردی اور خیرخواہی ہے،جیسے مہمان کی مہمان نوازی۔

(3)۔اگربچہ مسلمانوں کے کسی ملک سے ملا ہے یا کافروں کے کسی ایسے ملک میں سے ملا ہے جہاں کی اکثریت مسلمان ہے تو بچہ دینی اعتبار سے مسلمان متصورہوگا۔کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے:

" كل مولود يولد على الفطرة "

"ہربچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے۔"[24]

اگربچہ خالص کافر ملک سے ملا ہے یا اس ملک میں مسلمانوں کی تعدادکم ہے تو ملک کا اعتبار کرتےہوئے بچہ کافر متصور ہوگا جبکہ اس کی پرورش اسے اٹھانے والے ہی کے ذمے ہوگی بشرط یہ کہ وہ شخص امین ہو کیونکہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے ایک لقیط بچے کی پرورش کی ذمے داری ابوجمیلہ نامی شخص پر ڈالی۔جب معلوم ہوا کہ وہ نیک اور امین شخص ہے تو فرمایا:"تم ہی اس کے سرپرست ہو۔"اور اسے اٹھانے کی وجہ سے تم دوسروں کی نسبت پرورش کا حق زیادہ رکھتے ہو۔"[25]

(4)۔اگر بچے کے ساتھ مال بھی ملا ہوتو اس کو اٹھانے والا(سرفہرست) وہی مال اس پر معروف طریقے سے خرچ کرے۔

(5)۔اگر بچے کو اٹھانے والاپرورش کرنے کے لائق نہیں،مثلاً:وہ فاسق یا کافر ومشرک ہے جبکہ لقیط بچہ مسلمان ہے توبچہ ایسے شخص کے حوالے نہ کیاجائے۔اسلام کسی کافر یا فاسق کوولی سرپرست مقرر کرنے کی اجازت نہیں دیتا کیونکہ ان سے بچے کے دین کو خطرہ ہے۔

(6)۔اگر بچے کو اٹھانے والاخانہ بدوش ہے(جبکہ بچہ شہر سے ملاہے) تو اس خانہ بدوش پرپرورش کی ذمے داری نہ ڈالی جائے۔کیونکہ وہ مختلف جگہوں پر منتقل ہوتا رہتا ہے اور اس میں بچے کے لیے مشکلات ہیں۔ایسے شخص سے بچہ لے کر کسی شہری کے حوالے کیا جائے کیونکہ خانہ بدوشی کی نسبت شہر کی زندگی بچے کے دین ودنیا کی بہتری کے اعتبار سے مناسب ترین ہے،نیز اس سے بچے کے خاندان اور ورثاء کی تلاش اور اس کے نسب کی معرفت میں بھی آسانی وسہولت ہے۔

(7)۔لقیط اگرمرجائے تو بیت المال اس کا وارث ہے۔اگراس پر ایسی جنایت کی جائے جس سے دیت لازم ہوتو اس کی دیت بیت المال میں جمع ہوگی بشرط یہ کہ اس کاکوئی وارث نہ ہواوراگر اس کی بیوی زندہ ہوتو اسے چوتھائی ترکہ ملے گا۔

اگر لقیط کوعمداً قتل کردیاگیا تو اس کی دیت بیت المال میں جمع ہونے کی وجہ سے تمام مسلمان اس کے وارث ہوں گے،البتہ حاکم اس کا ولی ووارث بن کر مسلمانوں کی نیابت کرے گا،لہذا اسے(حاکم کو) قصاص یا بیت المال کے لیے دیت میں سے کسی ایک کا اختیار ہے کیونکہ حدیث میں ہے:

"فَالسُّلْطَانُ وَلِيُّ من لاولي له"

"جس کا کوئی ولی نہیں،امام(حاکم)اس کاولی ہے۔"[26]

اگر اسے زخمی کردیاگیا تو اس کی بلوغت اور سمجھ بوجھ کی عمر تک انتظار کیا جائے گا تاکہ وہ چاہے تو قصاص لے لے یا معاف کردے۔

(8)۔لقیط کے بارے میں اگر کوئی مرد یا عورت دعویٰ کرےکہ یہ میرابیٹا ہے تو اس صورت میں اگراس کابیٹا ہونا ممکن ہوتواس کادعویٰ تسلیم کرلیا جائے گا کیونکہ بچے کے نسب کے اتصال میں بچے کا فائدہ ہے اور کسی دوسرے کا نقصان بھی نہیں۔اوراگر بہت سے لوگ دعویٰ کرتے ہیں تو ان میں سے جو شخص دلیل پیش کرے گا وہ مقدم اورراجح ہوگا۔

اگر کسی کے پاس واضح دلیل نہ ہو اور متعدددعوےداروں کے دلائل میں تعارض ہوتو فیصلہ کسی قیافہ شناس سے کرایا جائے گا جو انصاف پسند،سمجھ دار اور تجربہ کارہو۔اور قیافہ شناس جس کے ساتھ نسب ملا دے اسی کے لیے فیصلہ کردیا جائے گا کیونکہ ایک مرتبہ سیدنا عمر بن خطاب  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کی موجودگی میں ایک قیافہ شناس کے فیصلے کی بنیاد پر فیصلہ کیا تھا۔[27]واللہ اعلم۔

وقف کا حکم

کسی چیز(اصل) کو (بیع ،وراثت اور ہبہ سے مستثنیٰ قراردے کر) محفوظ کرلینا اور اس کی آمدنی اور فائدہ کسی خاص مد کے لیے فی سبیل اللہ متعین کرنا وقف کہلاتا ہے۔

واضح رہے اصل چیز سے مراد ایسی شے ہے جس سے استفادہ ممکن ہو اوراستفادے کے بعد بھی وہ شے باقی رہے ،مثلاً مکان،دکان اور باغ وغیرہ۔اورنفع سے مراد اس چیز کی آمدنی اور فائدہ ہے،مثلاً:پھل،کرایہ،گھر کی رہائش وغیرہ۔

اسلام میں وقف کرنامستحب ہے اور اللہ کے قرب کا ذریعہ ہے ۔جس کی دلیل سنت رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  میں موجود ہے۔چنانچہ حدیث میں ہے کہ"سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو خیبر میں زمین ملی تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں مشورے کے لیے حاضر ہوئے اور عرض کی:اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !مجھے خیبر میں جو زمین ملی ہے،اس سے بہتر اور نفیس مال میرے ہاں اور کوئی نہیں۔اس کے بارے میں میرے لیے آپ کا کیا مشورہ ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"إِنْ شِئْتَ حَبَسْتَ أَصْلَهَا وَتَصَدَّقْتَ بِهَا "

"اگرتم چاہو تو اپنا اصل مال وقف کردو اور اس(کے نفع) کو صدقہ کردو۔"[28]

چنانچہ سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے اسے اس طرح صدقہ کیاکہ اس کا اصل بیچا جائے نہ ہبہ کیا جائے اور نہ میراث بنایا جائے۔

صحیح مسلم میں روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلا مِنْ ثَلاثَةٍ : إِلا مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ ، أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ ، أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَهُ "

"جب انسان فوت ہوجاتا ہے تو اس کے عمل منقطع ہوجاتے ہیں مگر تین چیزیں جاری رہتی ہیں:صدقہ جاریہ،علم جس سے فائدہ حاصل کیا جارہا ہے یا نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرے۔"[29]

سیدنا جابر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  فرماتے ہیں:"صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  میں سے اگر کوئی صاحب استطاعت ہوتا تو وہ ضرور کچھ نہ کچھ وقف کرتا۔"[30]

امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:"مساجد اور پلوں کو وقف قراردینے میں علماء کے درمیان قطعاً اختلاف نہیں،البتہ دوسری چیزوں میں اختلاف ہے۔"[31]

(1)۔وقف کی شرائط میں سے ہے کہ وقف کرنے والا وقف کرنے کا اہل اور صاحب اختیار ہو،یعنی عاقل وبالغ اور آزاد ہو،لہذا نادان،بچے اور غلام کا کوئی شے وقف کرنا صحیح نہیں۔

(2)۔وقف کا انعقاد دو صورتوں میں سے کسی ایک صورت کے ساتھ ممکن ہے:

1۔الفاظ کے ساتھ وقف ہومثلاً: کوئی کہے:"میں نے یہ مکان وقف کیا۔"یا"میں نے اس جگہ کو مسجد بنادیا ہے۔"

2۔وقف کرنے والا کوئی ایسا کام یا انداز اختیار کرے جو عرف میں وقف پر دلالت کرتا ہو،مثلاً: کوئی اپنے گھر کو مسجد قراردےدے اور لوگوں کو وہاں نماز ادا کرنے کی عام اجازت دے یاکوئی شخص اپنی زمین کو قبرستان بنادے اور وہاں عام لوگوں کے مردے دفن کرنے کی اجازت دے دے۔

(3)۔جوالفاظ "وقف"پر دلالت کرتے ہیں،ان کی دو قسمیں ہیں:

1۔صریح الفاظ کے ساتھ ہو،یعنی"وقف" کا لفظ استعمال کیاجائے یا ایسا لفظ جس کامفہوم وقف کے علاوہ اورکوئی نہ ہو،لہذا جب کوئی کسی شے پر ایسے الفاظ استعمال کرے گا تو بلاتاویل شے کو وقف ہی سمجھا جائے گا۔

2۔کنائے کے الفاظ کا استعمال ہو،مثلاً:کسی شے کے بارے میں صدقہ اورحرمت وغیرہ کے الفاظ کہے۔ان الفاظ کو کنایہ اس لیے کہتے ہیں کہ ان میں وقف اور غیر وقف دونوں کا احتمال ہے،لہذا اس میں انسان کی نیت فیصلہ کن ہوگی یاکنائے کے الفاظ کے ساتھ کوئی ایک صریح لفظ یا ایساکنائے کالفظ بولا جائے جس سے وقف کی طرف اشارہ ہوجائے۔کنائے کے ساتھ صریح الفاظ کی مثال یہ ہے ،کوئی کہے:" میں نے فلاں شے وقف کرتے ہوئے صدقہ کی یاہمیشہ ہمیشہ کے لیے صدقہ کی وغیرہ۔"اور کنائے کے الفاظ کے ساتھ کنائے کا ایسا لفظ بولنا جس سے وقف سمجھ آتا ہو تو اس کی مثال یوں ہوگی:"میں یہ یہ چیز صدقہ کی ،اسے بیچا جائے گا نہ وراثت میں منتقل ہوگی۔"

(4)۔وقف کی درستی کے لیے درج ذیل شرائط ہیں:

1۔واقف(وقف کرنے والا) شے کے تصرف میں بااختیار ہوجیسا کہ اوپر گزرچکا ہے۔

2۔موقوف(وقف شدہ) شے ایسی ہو کہ فائدہ حاصل کرنے کے بعد بھی باقی رہے،مثلاً:مکان یا اراضی وغیرہ۔اور جو شے استعمال کرنے سے ختم ہوجائے،مثلاً:کھانے پینے کی شے تو ایسی چیز وقف نہیں ہوتی۔(اور نہ اسے وقف کہا جاتا ہے۔ایسی شے کے خیرات کرنے کو صدقہ کہتے ہیں۔)

3۔وقف کامصرف جائز ہو کیونکہ وقف سے مقصود تقرب الی اللہ ہے،مثلاً:مساجد،پل،مساکین،پانی کی سبیلیں،علمی کتب یا کسی رشتے دار کے لیے شے وقف کرنا۔ناجائز مصرف کے لیے وقف درست نہیں،مثلاً:کفار کی عبادت گاہ کے لیےجگہ دینا،دین اسلام کے مخالف لٹریچر کے لیے وقف کرنا،مزاروں پر روشنی یا خوشبو کے لیے یاان کے مجاروں کے لیے کوئی چیز وقف کرنا کیونکہ اس سے گناہ ،شرک اور کفر کو تقویت ملتی ہے۔

5۔موقوف علیہ(جس کو وقف کی شے دی جارہی ہے) اگر وہ معین فرد ہوتو ایسا ہو جو مالک بننے کا اہل ہو کیونکہ وقف تملیک ہے اور جو شخص مالک نہیں بن سکتا اس پر وقف درست نہیں،مثلاً:میت یا حیوان وغیرہ۔

6۔وقف کی درستی کے لیے ایک شرط یہ بھی ہے کہ وہ غیر محدود مدت کے لیے ہو،لہذا ایسا وقف جس کا وقت مقرر ہو یا وہ مشروط ہو،درست نہیں،البتہ اگر کوئی شخص اپنی موت کی شرط لگا دے تو وقف درست ہے،مثلاً:کوئی کہے:"جب میں فوت ہوجاؤں تو میرا گھر فقراء کے لیے وقف ہوگا۔"

سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے اپنی"ثمغ" (نامی) زمین سے متعلق وصیت کی تھی کہ وہ ان کی موت کے بعد صدقہ ہے۔[32]اس پرکسی نے اعتراض نہ کیا۔بنا بریں اس کا جواز اجماع صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین  سے ثابت ہوتا ہے۔

واضح رہے کہ موت سے مشروط وقف تہائی مال سے زائد نہ ہو کیونکہ یہ عمل وصیت کے حکم میں ہے۔

(5)۔وقف کے احکام میں سے یہ بھی ہے کہ واقف(وقف کرنے والے) کی شرط پر عمل کیا جائے بشرط یہ کہ وہ حرام کو حلال یاحلال کو حرام قرار نہ دے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ہے:

"وَالمُسْلِمُونَ عَلَى شُرُوطِهِمْ، إِلَّا شَرْطًا حَرَّمَ حَلَالًا، أَوْ أَحَلَّ حَرَامًا"

"مسلمان باہم طے شدہ شرائط کی پاسداری کریں مگر ایسی شرط جو حلال کو حرام کردے یا حرام کو حلال کردے۔"[33]

علاوہ ازیں سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے بھی وقف میں شرط لگائی تھی۔

اگرجائز شرط کالحاظ ضروری نہ ہوتو شرط لگانے کا کوئی فائدہ ہی نہیں،لہذا اگرواقف خاص مقدارکی شرط لگائے یا کسی مستحق کو دوسرے سے زیادہ دینے کی شرط عائد کرے یا کسی مستحق کے بارے میں خاص وصف کا اعتبار کرتے ہوئے شرط لگائے،مثلاً:ایک شے طلباء پر وقف کرتے ہوئے شرط لگائے کہ جو صحیح البخاری پڑھنے والا طالب علم ہوگا یہ شے اس کے لیے وقف ہے یا یہ شے اسکے لیے وقف ہے جو ڈاڑھی نہ منڈوائے یا اس کے لیے وقف ہے جو اس شے کی نگرانی کرے وغیرہ تو اس قسم کی شرائط کی پاسداری ضروری ہے۔

الغرض اگر کوئی شرط کتاب وسنت کے مخالف نہ ہوتو اس کالحاظ واعتبار ضرور کیاجائے گا۔اگروقف کرنے میں کوئی شرط عائد نہ کی گئی تو اس کے استحقاق واستعمال میں امیر وغریب،مرد وعورت سب برابر ہیں۔

(6)۔اگر وقف شدہ چیز کاکوئی نگران مقرر نہ کیا گیا ہویا مقررتو کیاگیا لیکن وہ فوت ہوگیا تو موقوف علیہ شخص خود اس کی نگرانی کرے،بشرط یہ کہ وہ معین ہو۔اگر موقوف علیہ کوئی نوع،یعنی ایک قسم کی مختلف چیزیں ہوں،مثلاً:مساجد یا جن کو شمار کرنا ممکن نہ و،جیسے مساکین ،تب حاکم نگران ہوگا۔وہ  خود حفاظت کرے یا اس کی حفاظت پر کسی کو اپنا نائب مقرر کردے۔

(7)۔وقف شدہ شے نگران کے  پاس ایک امانت ہے ،لہذا اس کی نگرانی اللہ سے ڈرتے ہوئے کرے۔

(8)۔اولاد کے لیے وقف صحیح ہے، مثلاً:اگر کوئی یوں کہے:"میں اپنی اولاد کے لیے وقف کرتا ہوں"تو اس میں بیٹے اور بیٹیاں سب برابری کی بنیاد پر شامل ہوں گے ۔اور کسی کی شراکت کو مطلق رکھنے سے استحقاق سب کے لیے برابر ہوتا ہے،مثلاً:اگر وہ ان کے لیے کسی شے کا اقرار کردے تو سب اس میں برابر شریک ہوں گے۔ایسےہی اگر کوئی شے وقف کردے تو وہ بھی سب کے لیے ہوگی،پھر صلبی اولاد کے بعد وقف بیٹوں کی اولاد کی طرف منتقل ہوگی جب کہ بیٹیوں کی اولاد شامل نہ ہوگی کیونکہ وہ دوسرے شخص کی اولاد ہے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان:

﴿يوصيكُمُ اللَّهُ فى أَولـٰدِكُم...﴿١١﴾... سورةالنساء

"اللہ تمھیں اولاد کے بارے میں حکم کرتا ہے۔"[34]

میں بیٹیوں کی اولاد شامل نہیں۔ بعض علماء کرام کی یہ رائے ہے کہ بیٹیوں کی اولاد"الاولاد"میں داخل ہے کیونکہ بیٹیاں اولاد ہیں تو بیٹیوں کی اولاد بھی اولاد کی اولاد میں شامل ہے۔واللہ اعلم۔

اگر کوئی یوں کہے:"میں اپنے بیٹوں کے لیے یا فلاں کے بیٹوں کے لیے وقف کرتا ہوں۔"تو  صرف لڑکے مراد ہوں گے،لڑکیاں نہیں کیونکہ لفظ بَنِينَ (لڑکے) یہ مذکر ہی کے لیے بنایا  گیا ہے،جیسا اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿أَم لَهُ البَنـٰتُ وَلَكُمُ البَنونَ ﴿٣٩﴾... سورة الطور

"کیااس(اللہ) کے لیے تو بیٹیاں ہیں اور تمہارے لیے بیٹے ہیں؟"[35]

البتہ اگر موقوف علیہ کوئی قبیلہ ہو،مثلاً:"یہ شے بنو ہاشم یا بنوتمیم کے لیے وقف ہے۔"تو اس میں قبیلے کے مرد اور عورتیں سب مراد ہوں گے کیونکہ"قبیلے کا نام"کا اطلاق مرد اورعورتوں سب پر ہوتا ہے۔

اگر وقف ایسی جماعت کے لیے ہے جن کا حصر وشمار ممکن ہوتواس کے استحقاق استعمال میں سب برابر ہوں گے اور اگر حصر ممکن نہ ہو،مثلاً:بنوہاشم ،بنو تمیم تو تعمیم واجب نہیں اور بعض افراد پر اکتفا کرنایا ان میں سے بعض کو دوسروں پر ترجیح دینا جائز ہوگا۔

(9)۔محض کہہ دینے سے وقف ثابت ہوجاتا ہے۔اس کے بعد اسے فسخ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے:

 "وَلَا يُبْتَاعُ وَلَا يُورَثُ وَلَا يُوهَبُ "

"مال وقف نہ فروخت کیا جاسکتا ہے اور نہ ہبہ ومیراث بن سکتا ہے۔"[36]

امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:"اہل علم کی اکثریت کا اسی حدیث پر عمل ہے۔"[37]

(10)۔وقف کا فسخ جائز نہیں کیونکہ وہ ہمیشہ کے لیے ہوتا ہے۔اسی طرح اسے فروخت یا کسی اور کو منتقل نہیں کیا جاسکتا،البتہ اگرجگہ کے ویران ہونے کی وجہ سے وقف سے فائدہ حاصل کرناممکن نہ رہے،مثلاً:وقف شدہ گھر گرگیا اور وقف کی آمدنی سے اس کی تعمیر ممکن نہیں یا زرعی زمین تھی جو ویران وبنجر ہوگئی اور وقف آمدنی سے اس  کی تعمیر وآبادی ممکن نہ ہوتو اس حال میں وقف کو فروخت کیا جائے گا اور اس کی قیمت اس کے مثل میں لگائی جائےگی کیونکہ یہ صورت وقف کرنے والے کے مقصد کے قریب ترین ہے۔اگر اسی طرح کی شے ممکن نہ ہوسکے تو اس کے قریب قریب ہی ہوجانی چاہیے اور متبادل شے خریدنے کے ساتھ ہی وقف ہوجائے گی۔

(11)۔اگرکوئی مسجد وقف تھی لیکن اس جگہ میں مسجد مفید اورکارآمد نہ رہی،یعنی وہاں کی آبادی ویران ہوگئی تو اسے فروخت کرکے اس کی قیمت سے دوسری جگہ مسجد بنادی جائے یا وہ رقم دوسری مسجد پرخرچ کی جائے۔اگرکسی مسجد کے لیے کوئی شے وقف ہوتو جب اس وقف شدہ شے کو آمدن مسجد کی ضروریات سے زائد ہے تو زائد آمدن کسی دوسری مسجد پر صرف کردی جائے کیونکہ وقف کا مقصد یہی تھا۔مسجد پروقف شے اگر غلہ واناج ہے تو مسجد کی ضروریات سے زائد فقراء مساکین پر صرف کیا جاسکتا ہے۔

(12)۔جب موقوف علیہ معین فرد ہو،مثلاً: کوئی کہے:"یہ زمین زید کے لیے وقف ہے،اسے ہر سال سو من گندم دی جائے۔"تو اگر اس کی پیداوار اس مقرر حد سے زائد ہوتو زائد کو سنبھال کررکھنا ضروری ہے۔

شیخ تقی الدین  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:"اگر معلوم ہوکہ اس کی پیداوار ہمیشہ مقررہ مقدار سے زیادہ ہوتی ہے تو اس زائد پیداوار کوفی سبیل اللہ خرچ کردیا جائے کیونکہ اس کو بچا کررکھنے سے اس کے ضائع ہونے کا خطرہ ہے۔"

(13)۔اگر کوئی شے کسی ایسی مسجد کے لیے وقف کی گئی جو ویران ہوگئی  اور وقف شدہ شے کو وہاں خرچ کرنے کا کوئی فائدہ نہ رہا تو اس مال کو اس جیسی دوسری مسجد پر صرف کردیا جائے۔


[1]۔جامع الترمذی الاحکام باب ماذکر فی احیاء ارض الموات حدیث 1379 ومسند احمد 3/381۔

[2]۔سنن ابی داود الخراج باب فی احیاء الموات حدیث 3077 ومسند احمد 3/381۔

[3]۔سنن ابی داود الخراج والفی والامارۃ باب فی اقطاع الارضین حدیث 3061۔

[4]۔سنن ابی داود الخراج والفی والامارۃ باب فی اقطاع الارضین حدیث 3058۔3059۔

[5]۔صحیح البخاری المساقاۃ باب سکور الانھار حدیث 2359،2360۔وصحیح مسلم الفضائل باب وجوب اتباعہ حدیث 2357۔

[6]۔سنن ابی داود القضاء باب فی القضاء حدیث 3639 والموطا للامام مالک،الاقضیۃ باب القضاء فی المیاہ،حدیث 1491۔

[7]۔مسند احمد:2/155۔

[8]۔یوسف 12/72۔

[9]۔صحیح البخاری الاجارۃ باب مایعطی فی الرقیۃ علی احیاء العرب بفاتحۃ الکتاب حدیث 2276۔وصحیح مسلم السلام باب جواز اخذ الاجرۃ علی الرقیۃ بالقرآن والاذکار حدیث 2201۔

[10]۔مجموع الفتاویٰ 30/415۔

[11]۔اعلام الموقعین 2/379۔

[12]۔(ضعیف)سنن ابی داود القطۃ باب التعریف بالقطۃ حدیث 1717۔

[13]۔صحیح البخاری العلم باب الغضب فی الموعظۃ والتعلیم اذا رای ما یکرہ حدیث 91،وصحیح مسلم القطۃ باب معرفۃ العفاص والوکاء وحکم ضالۃ الغنم والابل حدیث 1722واللفظ لہ۔

[14]۔السنن الکبریٰ للبیہقی 6/191۔

[15]۔صحیح البخاری القطۃ باب ضالۃ الغنم حدیث 2428۔وصحیح مسلم القطۃ باب معرفۃ العفاص والوکاء وحکم ضالۃ الغنم والابل حدیث 1722 واللفظ لہ۔

[16]۔صحیح البخاری العلم باب الغضب فی الموعظۃ والتعلیم اذارای ما یکرہ حدیث 91،وصحیح مسلم القطۃ باب معرفۃ العفاص والوکاء وحکم ضالۃ والابل حدیث 1722۔

[17]۔صحیح مسلم المساجد باب النھی عن نشد الضالۃ فی المسجد۔۔۔،حدیث:568۔

[18]۔صحیح البخاری القطۃ باب کیف تعرف لقطۃ اھل مکۃ؟حدیث 2433۔

[19]۔الفتاویٰ الکبریٰ باب الودیعۃ:5/423۔

[20]۔سنن ابی داود البیوع باب فیمن احیا حسیرا حدیث 3524۔

[21]۔المائدۃ 5/2۔

[22]۔الموطا للامام مالک،الاقضیۃ باب القضاء فی المنبود حدیث 1482۔

[23]۔المائدۃ 5/2۔

[24]۔صحیح البخاری الجنائز باب ما قیل فی اولاد المشرکین؟حدیث 1385۔اس روایت سے واضح ہوتا ہے کہ بچہ کسی بھی جگہ سے ملے وہ ہر صورت مسلمان ہی متصور ہوگا۔(صارم)

[25]۔السنن الکبریٰ للبیہقی 6/202 اللقطۃ باب التقاط المنبود۔۔۔وارواء الغلیل 6/1573۔

[26]۔سنن ابی داود النکاح باب فی الولی حدیث 2083۔

[27]۔ایک قیافہ شناس کی زبان سے جب یہ بات نکلی کہ زید بن حارثہ اور اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   دونوں باپ بیٹا ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سن کر بہت خوش ہوئے تھے۔دیکھئے صحیح بخاری حدیث 3555۔(صارم)۔

[28]۔صحیح البخاری الشروط باب الشروط فی الوقف حدیث 2737 وصحیح مسلم الوصیۃ باب  الوقف حدیث 1632۔

[29]۔صحیح مسلم الوصیۃ باب مایلحق الانسان من الثواب بعد وفاتہ؟حدیث 1631۔

[30]۔منار السبیل ص 397۔

[31]۔تفسیر القرطبی 19/22۔الجن 72/18۔

[32]۔رواہ ابوداود فی سنۃ بمعناہ حدیث 2879 والقصۃ فی صحیح البخاری ایضاً حدیث 2764۔ان حدیثوں میں یہ وضاحت ہے کہ یہ مال عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے اپنی زندگی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے سامنے وقف کیا تھا،البتہ بعدتولیت کے بارے میں حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کے حق میں وصیت کی تھی(ع۔و)۔

[33]۔جامع الترمذی الاحکام باب ماذکر عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  فی الصلح بین الناس حدیث 1352۔دیکھئے صحیح البخاری الوصایا باب وما للوصی ان یعمل فی مال الیتیم۔۔۔،حدیث 2764 وسنن ابی داود الوصایا باب ما جاء فی الرجل بوقف الوقف حدیث 2879۔

[34]۔النساء:4/11۔

[35]۔الطور:52:39۔

[36]۔صحیح البخاری الوصایا باب الوقف کیف یکتب؟ حدیث 2772۔

[37]۔جامع الترمذی الاحکام باب ما جاء فی الوقف تحت حدیث 1375۔

 ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

قرآن وحدیث کی روشنی میں فقہی احکام و مسائل

غیر آباد زمین کو آباد کرنے کے احکام:جلد 02: صفحہ 141

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ