سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(606) منہ ہلائے بغیر تلاوت قرآن

  • 2274
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 3981

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا منہ ہلائے بغیر قرآن مجید کی تلاوت کرنے پر ثواب ہو گا؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

منہ ہلائے بغیر تلاوت کرنے سے قراء ت معتبر نہیں ہو گی اور نہ ہی اس پر قراء ت کا ثواب ملے گا۔ کیونکہ یہ قراءت نہیں بلکہ تدبر ہے،اس پر تدبر کا تو ثواب ملے گا مگر قراءت کا نہیں۔

یاد رہے کہ وہ اذكار جن كا تعلق زبان سے ہے، اور وہ زبان سے ادا ہوتے ہيں، مثلا قرآن مجيد كى تلاوت، سبحان اللہ، الحمد للہ، لا الہ الا اللہ، اور صبح و شام كى دعائيں، اور سونے، اور بيت الخلاء وغيرہ كى دعائيں.... وغيرہ ان ميں زبان كو حركت دينا ضرورى ہے، يہ زبان كو حركت ديے بغير ادا نہيں ہوتے.

ابن رشد رحمہ اللہ تعالى نے " البيان والتحصيل " ميں نقل امام مالك رحمہ اللہ تعالى سے نقل كيا ہے كہ:

ان سے ايسے شخص كے متعلق دريافت كيا گيا جو نماز ميں قرآت كرتے وقت نہ تو زبان كو حركت ديتا ہے، اور نہ ہى كسى اور كو اور نہ ہى اپنے آپ كو سناتا ہے اس كا حكم كيا ہے ؟

تو ان كا جواب تھا:

« ليست هذه قراءة ، وإنما القراءة ما حرك له اللسان » البيان و التحصيل 1 / 490

" يہ قرآت نہيں ہے، بلكہ قرآت وہ ہے جس كے ليے زبان كو حركت دے " ا انتہى

امام كاسانى رحمہ اللہ تعالى «البدائع و الصنائع» ميں كہتے ہيں:

«القراءة لا تكون إلا بتحريك اللسان بالحروف ، ألا ترى أن المصلي القادر على القراءة إذا لم يحرك لسانه بالحروف لا تجوز صلاته . وكذا لو حلف لا يقرأ سورة من القرآن فنظر فيها وفهمها ولم يحرك لسانه لم يحنث » بدائع الصنائع  4 / 118

" زبان كو حركت ديے بغير قراءت نہيں ہوتى، كيا آپ ديكھتے نہيں کہ قراءت پر قدرت ركھنے والا نمازى جب حروف كى ادائيگى ميں زبان كو حركت نہ دے تو اس كى نماز جائز نہيں، اور اسى طرح اگر اس نے قسم اٹھائى كہ وہ قرآن كى سورۃ نہيں پڑھےگا، اور اس نے قرآن مجيد كو ديكھا اور اسے سمجھا ليكن اپنى زبان كو حركت نہ دى تو وہ حانث نہيں ہو گا، يعنى اس كى قسم نہيں ٹوٹے گى" انتھى

يعنى اگر وہ پڑھتا نہيں بلكہ صرف ديكھتا ہے تو حانث نہيں ہو گا۔

اس پر يہ بھى دلالت كرتى ہے:

علماء كرام نے جنبى شخص كو زبان سے قرآن مجيد پڑھنے كى منع كيا، اور اسے مصحف كو ديكھنے كى اجازت دى ہے، اور وہ زبان كو حركت ديے بغير دل سے پڑھ سكتا ہے، جو ان دونوں ميں فرض پر دلالت كرتا ہے، اور يہ كہ زبان كو حركت نہ دينا قرآت شمار نہيں ہوتا. المجموع ( 2 / 187 - 189 )

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے دريافت كيا گيا:

كيا نماز ميں قرآن كى تلاوت ميں زبان كو حركت دينا واجب ہے، يا كہ دل سے ہى كافى ہے ؟

تو انہوں نے جواب دیتے ہوءے فرمایا:

«القراءة لابد أن تكون باللسان ، فإذا قرأ الإنسان بقلبه في الصلاة فإن ذلك لا يجزئه ، وكذلك أيضاً سائر الأذكار ، لا تجزئ بالقلب ، بل لابد أن يحرك الإنسان بها لسانه وشفتيه ؛ لأنها أقوال ، ولا تتحقق إلا بتحريك اللسان والشفتين » مجموع فتاوى ابن عثيمين" 13/156

" زبان كے ساتھ قراءت كرنا ضرورى ہے، نماز ميں جب كوئى انسان دل كے ساتھ قراءت كرتا ہے تو وہ كفائت نہيں كرتی، اور اسى طرح باقى سارى دعائيں بھى ادا نہيں ہونگى، دل ميں پڑھنے سے دعائیں ادا نہيں ہونگى بلكہ زبان اور ہونٹوں كو حركت دينا ضرورى ہے؛ كيونكہ يہ اقوال ہيں، اور زبان اور ہونٹ كو حركت ديے بغير بات چيت اور اقوال كى ادائيگى نہيں ہوتى "

هذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

کتاب الصلاۃجلد 1

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ