سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(593) نکاح مسیار اور اس کا حکم

  • 2261
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-18
  • مشاہدات : 4633

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نکاح مسیار کیا ہے، اور کیا یہ جائز ہے ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نکاح مسیار جسے عربی میں زواج المسيار کہا جاتا ہے، عربوں میں رائج ایک قسم کا نکاح ہے جو شرائط وغیرہ کے اعتبار سےعام نکاح کی طرح ہے، مگر اس میں مرد و عورت باہمی رضامندی سے اپنے کچھ حقوق سے دستبردار ہو جاتے ہیں۔ مثلاً عورت کے نان و نفقہ کا حق، ساتھ رہنے کا حق، باری کی راتوں کا حق، وغیرہ وغیرہ۔

نکاح مسيار اس وقت صحيح ہوگا، جب اس ميں عقد نكاح كى شروط اور اس كے اركان پائے جائيں گے ،اور اس شادى كى صورت دور قديم ميں بھی موجود تھی، اس ميں خاوند بيوى كے ليے شرط ركھتا ہے جو اس سے شادى كى رغبت ركھے وہ اس اور دوسرى بيويوں كے مابين برابرى كے ساتھ راتوں كى تقسيم نہيں كريگا، يا پھر وہ اس كے اخراجات كا ذمہ دار نہيں، يا اس كى رہائش كا ذمہ دار نہيں.

اور يہ بھى شرط ركھ سكتا ہے كہ رات كى بجائے وہ اس كے پاس دن كو آئيگا، جسے النھاريات يعنى دن والياں كا نام ديا جاتا ہے، اور يہ بھى ہو سكتا ہے كہ عورت ہى اپنے حقوق سے دستبردار ہو جائے، ہو سكتا ہے وہ عورت مالدار ہو اور اس كے پاس رہائش بھى ہو اس ليے وہ اس سے دستبردار ہو جائے.

اور يہ بھى ہو سكتا ہے كہ وہ رات كى بجائے دن پر راضى ہو جائے، اور يہ بھى ہو سكتا ہے وہ اپنى سوكنوں كے ايام سے كم ايام پر راضى ہو جائے، اور ہمارے دور ميں يہى مشہور ہے.

دونوں طرف سے ان حقوق سے دستبردار ہونا نكاح كو حرام نہيں كرتا، اگرچہ بعض اہل علم نے اسے ناپسند كيا ہے، ليكن شروط اور اركان كے اعتبار سے يہ جواز سے خارج نہيں ہوتا.

مصنف ابن ابى شيبہ ميں حسن بصرى اور عطاء بن ابى رباح سے مروى ہے كہ وہ دونوں دن والياں " النھاريات " سے شادى كرنے ميں كوئى حرج نہيں سمجھتے تھے "مصنف ابن ابى شيبۃ ( 3 / 337 )

اور عامر الشعبى سے مروى ہے ان سے ايک شخص كے متعلق دريافت كيا گيا كہ جس كى بيوى ہو اور وہ ايک دوسرى عورت سے شادى كرے تو اس كے ليے ايک دن كى شرط ركھے اور دوسرى كے ليے دو دن كى تو اس كا حكم كيا ہو گا ؟ انہوں نے جواب ديا: اس ميں كوئى حرج نہيں " انتہى مصنف ابن ابى شيبۃ ( 3 / 338)

ہمارے معاصر علماء ميں سے اكثر نے اس كى اباحت كا فتوى ديا ہے.

شيخ ابن باز رحمہ اللہ سے دريافت كيا گيا:

مسيار شادى كے بارہ ميں آپ كى كيا رائے ہے، يہ شادى اس طرح ہوتى ہے كہ آدمى دوسرى يا تيسرى يا چوتھى شادى كرے اور اس بيوى كى كچھ ضروريات ہوں جس كى بنا پر وہ اپنے والدين كے پاس ان كے گھر ميں رہتى ہو، اور خاوند مختلف اوقات ميں اس كے پاس جايا كرے جو دونوں كے حالات كے مطابق ہو، اس طرح كى شادى ميں شريعت كا حكم كيا ہے ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

«لا حرج في ذلك إذا استوفى العقد الشروط المعتبرة شرعاً ، وهي وجود الولي ورضا الزوجين ، وحضور شاهدين عدلين على إجراء العقد ، وسلامة الزوجين من الموانع ؛ لعموم قول النبي صلى الله عليه وسلم : ( أحق ما أوفيتم من الشروط أن توفوا به ما استحللتم به الفروج ) ؛ وقوله صلى الله عليه وسلم : ( المسلمون على شروطهم ) ، فإذا اتفق الزوجان على أن المرأة تبقى عند أهلها ، أو على أن القسم يكون لها نهاراً لا ليلاً ، أو في أيام معينة ، أو ليالي معينة : فلا بأس بذلك ، بشرط إعلان النكاح ، وعدم إخفائه" انتهى »(" فتاوى علماء البلد الحرام " ( ص 450 ، 451 ) ، و" جريدة الجزيرة " عدد ( 8768 ) الاثنين 18 جمادى الأولى 1417هـ .)

" جب اس ميں نكاح كى معتبر شرعى شروط پائى جائيں اور وہ شروط: ولى كى موجودگى ، خاوند اور بيوى كى رضامندى ، عقد نكاح كے وقت دو گواہوں كى موجودگى، اور خاوند اور بيوى كا موانع سے سلامت ہونا؛ اس كى دليل نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ فرمان ہے:

" شروط پورے كرنے ميں شروط كو پورا كرنے كى وہ شرط حقدار ہيں جن سے تم شرمگاہ كو حلال كرتے ہو "

اور ايک حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" مسلمان اپنى شرطوں پر قائم رہتے ہيں "

چنانچہ جب خاوند اور بيوى اس پر متفق ہوں كہ عورت اپنے گھر والوں كے پاس ہى رہےگى، يا پھر تقسيم رات كى بجائے دن ميں ہو گى، يا پھر معين ايام يا معين راتوں ميں ہوگى تو اس ميں كوئى حرج نہيں، ليكن شرط يہ ہے كہ نكاح اعلانيہ ہو خفيہ طريقہ سے نہ كيا جائے "

ليكن جب اكثر لوگوں نے اس كا غلط استعمال كرنا شروع كر ديا تو جن علماء نے اس كے جواز كا فتوى ديا تھا وہ اس ميں جواز كے قول سے توقف اختيار كرنے لگے، ان ميں سب سے اوپر شيخ عبد العزيز بن باز اور شيخ ابن عثيمين رحمہما اللہ شامل ہيں.

شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:

مسيار اور شرعى شادى ميں كيا فرق ہے ؟ اور مسيار شادى ميں كن شروط كا پايا جانا ضرورى ہے ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

«شروط النكاح هي تعيين الزوجين ورضاهما والولي والشاهدان ، فإذا كملت الشروط وأعلن النكاح ولم يتواصوا على كتمانه لا الزوج ولا الزوجة ولا أولياؤهما وأولم على عرسه مع هذا كله فإن هذا نكاح صحيح ، سمِّه بعد ذلك ما شئت" انتهى»" جريدة الجزيرة " الجمعة 15 ربيع الثاني 1422 هـ ، العدد : 10508 .

" ہر مسلمان شخص كو شرعى شادى كرنى چاہيے، اور اسے اس كے خلاف كام كرنے سے اجتناب كرنا چاہيے، چاہے اسے زواج مسيار كا نام ديا جائے يا كوئى اور، شرعى شادى كى شروط ميں اعلان شامل ہے، اس ليے اگر خاوند اور بيوى نے اسے چھپايا تو يہ صحيح نہيں؛ كيونكہ يہ اور جو حال بيان كيا گيا ہے وہ زنا سے زيادہ مشابہ ہے " انتہى ديكھيں: فتاوى الشيخ ابن باز ( 20 / 431 - 432 ).

حقيقت يہ ہے كہ يہ نكاح معاشرے ميں غير شادى شدہ اور شادى كى عمر سے زيادہ عمر ميں پہنچ جانے والى عورتوں كے ليے اسلامى معاشرے ميں بہت سارى مشكلات كا حل ہے، چنانچہ آدمى نہ تو عورتوں ميں تقسيم كى استطاعت ركھتا ہے، يا پھر دو بيويوں پر اخراجات نہيں كر سكتا، اور پھر بہت سارى عورتيں ايسى ہيں جن كے پاس مال بھى ہے اور رہائش بھى اور وہ اپنے نفس كو عفت عصمت ميں ركھنا چاہتى ہے، چنانچہ ہفتہ كے كسى بھى دن يا پھر مہينہ ميں كچھ ايام خاوند اس كے پاس آتا ہے.

اور ہو سكتا ہے اللہ عزوجل ان ميں محبت و الفت اور حسن معاشرت پيدا كر دے، اور اچھے حالات بن جائيں جن كى بنا پر اس مرد كى اس عورت سے شادى سے اس كى حالت بدل كر پہلے سے بہترى ميں تبديل ہو جائے، تو وہ عدل و انصاف كے ساتھ تقسيم كرنے لگے، اور اس پر خرچ بھى كرے اور اسے رہائش بھى دے.

اور اس نكاح ميں بہت سارى خرابياں اور مفاسد بھى پائے جاتے ہيں جو كسى پر مخفى نہيں، مثلا خاوند كى وفات كے بعد تركہ ميں اختلاف پيدا ہونا، اور اسے خفيہ ركھنے اور اعلان نہ كرنے ميں بہت سارى خرابياں ہيں.

اور پھر كچھ فسادى قسم كے مرد و عورت اس شادى كو غلط كام كے ليے وسيلہ بنا سكتے ہيں، اور وہ آپس ميں حرام تعلقات قائم كر كے عزيز و اقارب اور پڑوسيوں كى آنكھوں سے دور رہائش ركھ سكتے ہيں، اور جب انہيں كوئى ديكھے تو وہ كہيں گے يہ شادى مسيار ہے!

هذا ما عندي والله اعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

کتاب الصلاۃجلد 1

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ