سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(138) ٹیکس کے بارے میں شرعی حکم

  • 21903
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 1566

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ٹیکسوں کے بارے میں اسلام کا کیا حکم ہے؟(فتاویٰ الامارات:68)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ٹیکس کہ جسے چنگی کا نام دیا جاتا ہے۔مسلمانوں کے تمام علماء کے درمیان یہ متفق مسئلہ ہے کہ یہ جائز نہیں ہے۔صرف ایک صورت میں جائز ہے کہ جس کے بارے میں امام شاطبی  اپنی"الاعتصام" میں تفصیل سے گفتگو کرتے ہیں ۔فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان:

"وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ وَكُلُّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ"

یہ مطلق عام ہے اور اسلام میں کوئی بدعت حسنہ نہیں ہے تو اس کی کتاب وسنت میں کوئی دلیل نہیں ہے بلکہ یہ کچھ احادیث کے عموم کے مخالف بھی ہے کہ جن میں مطلق طور پر بدعت کی مذمت کی گئی ہے جس طرح بخاری ومسلم میں عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کی حدیث ہے:

"مَنْ أَحْدَثَ فِيْ أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدٌّ "

جس نے ہمارے اس د ین کے معاملے میں کوئی نئی چیزداخل کی جو اس میں سے نہیں ہے تووہ مردود ہے۔

امام شاطبی اپنی اس کتاب کچھ اور بھی چیزیں لایا ہے کہ جن کو"مصالح مرسلہ"کہا جاتا ہے کہ جو متاخرین پر مختلط ہوگئے انہوں نے اسے بدعت حسنہ کہنا شروع کردیا۔

جبکہ دونوں کے درمیان بالکل  علیحدگی ہے۔مصلحت مرسلہ وہ ہے کہ جو زمانے یاجگہ کے اعتبار سے کسی شرعی مصلحت کی وجہ سے ثابت ہوتی ہے۔اس کا بدعت حسنہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔بدعت حسنہ وہ ہوتی ہے کہ جس سے مقصود اللہ  تعالیٰ کی بندگی وقرب حاصل کرنا ہو،تو اس طرح کہ اضافہ کی اسلام میں کوئی گنجائش  نہیں ہے۔

امام مالک بن انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  فرماتے ہیں کہ جس نے بھی اسلام میں کوئی نیا کام شروع کیا۔بدعت حسنہ کے عقیدے  سے تو تحقیق اس نے یہ سمجھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم  نے رسالت میں خیانت کی ہے۔

اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان پڑھا کرو۔

﴿أَكمَلتُ لَكُم دينَكُم...﴿٣﴾... سورة المائدة

امام شاطبی شرعاً ٹیکس لگانے کا قائل ہیں اور اس کی تاکید بھی کرتے ہیں لیکن وہ ٹیکس ہمارے ممالک میں آج کل نافذ کردہ ٹیکسوں کے خلاف ہیں کہ جس طرح آج کل بہت سارے اسلامی ممالک میں جو ٹیکس لینے کے قوانین موجود ہیں۔

تو یہ جائز نہیں کہ آپ ٹیکسوں کو آسمان سے اترا ہوا اللہ کا حکم سمجھ کر نافذ کردیں،لیکن بعض اوقات اگر حالات ایسے ہوں تو ٹیکس لگایا جاسکتاہے۔

مثلا:کسی ایک اسلامی ملک پہ کوئی حملہ کردیتا ہے اور قومی خزانہ میں اتنی رقم نہیں ہے کہ جس کے ذریعہ فوج تیار کرکے ان حملہ آوروں کا مقابلہ کیاجاسکے تو ایسی صورت میں وہ ملک معین والے اشخاص سے ٹیکس لے کر اس شرکاء دفاع کرسکتی ہے۔تو جب یہ شرختم ہوجائے تو ان لوگوں سے ٹیکس لینا ختم کردیاجائے۔

 ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاویٰ البانیہ

معاملات کا بیان صفحہ:227

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ