سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(314) تنبیہ ضروری بر غلام مصطفیٰ نوری

  • 21207
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 1913

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

غلا مصطفیٰ نوری قادری بریلوی نے ایک کتاب لکھی ہے۔

"تسویدوجه الشیطانی بتوثیق الامام محمد بن الحسن الشیبانی"

اس کتاب میں غلام مصطفیٰ صاحب نے ماہنامہ الحدیث حضرو میں شائع شدہ آپ کے مضمون کا اپنے گمان میں جواب دیا ہے اور شیبانی مذکور کی تو ثیق ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔آپ سے درخواست ہے کہ اس کتاب"تسویدوجہ الشیطانی"کا مدلل جواب دیں۔جزاکم اللہ خیراً۔(محمد شفیق بن محمدرفیق ، فیصل آباد)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

الحمد لله رب العالمين والصلوٰة والسلام علي رسوله الامين‘اما بعد:

راقم الحروف نے"النصرالربانی فی ترجمہ محمد بن الحسن الشیبانی "کے نام سے ایک مضمون لکھا تھا جس میں میزان الاعتدال اور لسان المیزان کی عبارات ترجمہ کرنے کے ساتھ ان کی تحقیق پیش کی تھی اور بعض فوائد کا اضافہ بھی کیا تھا۔ یہ مضمون ماہنامہ الحدیث حضرو:ص11تا20میں 2004ء میں شائع ہوا تھا اور بعد میں تحقیق و اختصارسے کام لیتے ہوئے اس مضمون کو "محمد بن الحسن بن فرقد الشیبانی اور محدثین کرام"کے عنوان سے چار صفحات پر لکھ دیا تھا۔

آپ کی ارسال کردہ کتاب مذکور کے مطالعہ کے بعد بعض الناس کے شبہات کا جواب دیتے ہوئے اس مضمون میں کافی اضافہ کر کے اس کانام"تائید ربانی اور ابن فرقد شیبانی"رکھ دیا ہے۔"تسوید وجہ الشیطانی"کے مصنف غلام مصطفیٰ نوری بریلوی صاحب اپنی اس کتاب میں شیبانی مذکور کی تو ثیق کے بارے میں متاخر علماء سے صرف دو حوالے پیش کر سکے ہیں۔

1۔حاکم نے اس کی حدیث کو صحیح کہا ہے۔

عرض ہے کہ حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ  نے بالدبوس کہہ کر اس تصحیح کو رد کر دیا ہے جیسا کہ آگے آرہا ہے۔

2۔ہیثمی نے اس کی حدیث کو حسن کہا ہے۔

عرض ہے کہ حاکم  رحمۃ اللہ علیہ اور ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ  کے حوالے جمہور محدثین اور کبارعلماء مثلاً امام احمد رحمۃ اللہ علیہ ، امام یحییٰ بن معین  رحمۃ اللہ علیہ  اور امام افلاس  رحمۃ اللہ علیہ وغیرہم کے مقابلے میں کس طرح پیش ہو سکتے ہیں؟نوری بریلوی صاحب اپنی تسویداور ترک رفع یدین دونوں کتابوں کی روسے اسماء الرجال اور علم حدیث سے سراسرناواقف ، کذاب وافتراء کے مرتکب اور وادی تعارض و تناقص میں غوطہ زن ہیں جس کی فی الحال دس(10)مثالیں پیش خدمت ہیں۔

1۔امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ  کی شیبانی پر ایک جرح کے راوی احمد بن سعد بن ابی مریم المصری ہیں جو 253ھ میں فوت ہوئے اور ثقہ و صدوق راوی تھے۔ ان کے بارے میں نوری صاحب  لکھتے ہیں۔"سنن الدارقطنی ج3ص5پر امام دارقطنی نے اس راوی کو ضعیف قراردیا ہے۔"(تسویدص50)

عرض ہے کہ امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا:

"وابوبكر بن ابي مريم ضعيف"(سنن دار قطنی  رحمۃ اللہ علیہ ج3ص4ح2777)

نیز دیکھئے موسوعۃ اقوال الدارقطنی رحمۃ اللہ علیہ  (2/739ت4015)

ابو بکر بن ابی مریم راوی اور ہے اور احمد بن سعد بن ابی مریم اور ہیں۔ دونوں کو ایک قراردینا نوری صاحب کی بہت بڑی جہالت ہے۔ابو بکر بن ابی مریم الغسانی الشامی156ھ میں فوت ہوا تھا اور علی بن احمد بن سلیمان المصری 227ھ میں پیدا ہوئے تھے۔(دیکھئے النبلاء 14/496)

کیا وہ اپنی پیدائش سے بہت عرصہ پہلے فوت ہونے والے کے پاس پڑھنے کے لیے عالم برزخ میں تشریف لے گئے تھے؟ جس شخص کو اسماء الرجال کی الف باء کا پتا نہیں وہ کس زعم اور بل بوتے پر بڑی بڑی کتابیں اور درود لکھ رہا ہے؟

کیا بریلویت میں کوئی بھی اسے سمجھانے والا نہیں کہ یہ کام چھوڑو اور کوئی دوسرا دھندا کرو جسے تم جانتے ہو؟!

2۔ صحیحین و سنن اربعہ کے راوی اور مشہور امام ابو حفص عمرو بن علی بن بحرین کنیز الصیر فی الفلاس  رحمۃ اللہ علیہ  (متوفی229ھ)کے بارے میں نوری صاحب نے لکھا ہے۔

"جس کی ثقاہت نہیں ملی"(تسوید ص35)

عرض ہے کہ حافظ ابن حجر العسقلانی رحمۃ اللہ علیہ  نے کہا:"ثقہ حافظ"(تقریب التہذیب:5081)

جس شخص کو تقریب التہذیب دیکھنے کا طریقہ نہیں آتا وہ اتنی بڑی ڈینگیں کیوں مار رہا ہے؟

اس طرح راویوں کے بارے میں نوری صاحب کی جہالت کی اور بھی کئی مثالیں ہیں مثلاً دیکھئے تسوید ص32،35،50)

3۔مستدرک الحاکم (4/341ح 7990)کی ایک حدیث کے بارے میں نوری صاحب نے لکھا ہے۔"اس حدیث کو امام حاکم نے صحیح قراردیا ہے۔ اور اس کی تلخیص میں امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ  نے بھی صحیح کہا ہے۔(تسوید ص80،67،نیز دیکھئے ص84)

عرض ہے کہ حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ  نے اس حدیث کو صحیح نہیں بلکہ"بالدبوس"(ڈنڈے کے زور سے)(!)کہہ کر حاکم پر تعاقب کیا ہے نیز دیکھئے فیض القدیر للمناوی (6/489)

معلوم ہوا کہ نوری صاحب کا دعوی صریح جھوٹ پر مبنی ہے۔

4۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  کے بارے میں امام ابو حاتم کا ذکر کرتے ہوئے نوری صاحب نے لکھا ہے۔"لیکن ان میں بھی تشدد تھا جس کی وجہ سے انھوں نے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  کو متروک تک کہہ دیا۔(تسوید ص47)

عرض ہےکہ امام ابو حاتم  رحمۃ اللہ علیہ نے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  کو قطعاً متروک نہیں کہا رہا روایت ترک کرنا تو یہ جمہور کی توثیق کے بعد کوئی جرح نہیں ہے۔

5۔نوری صاحب نے راقم الحروف کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا ہے۔

"آپ نے توالجزاء المفقود من المصنف عبدالرزاق کا صرف اس لیے انکار کر دیا ہے کہ اس کے ناسخ کی سند مؤلف تک نہیں ہے۔"الخ(تسوید ص13)

عرض ہے کہ بریلویوں کے کھڑے ہوئے الجزاء المنفقود کے موضوع اور من گھڑت ہونے پر راقم الحروف نے دس دلیلیں دی ہیں جن میں سے صرف دسویں دلیل کے جواب سے ہی ساری بریلویت عاجز اور دم بخود ہے۔دیکھئے "جعلی جزء کی کہانی اور علمائے ربانی"ص22تا 27،اور ص29تا 33)

لہٰذا نوری صاحب کا یہ کہنا کہ"صرف اس لیے انکار کر دیا ہے۔"جھوٹ ہے۔

فائدہ:

اس جعلی جزء کے بارے میں مولانا عبدالروف بن عبدالمنان بن حکیم محمد اشرف سندھو حفظہ اللہ (فاضل مدینہ یونیورسٹی)نے کہا:"یہ مکمل جزء جس میں کل چالیس احادیث ہیں محل نظر ہے بلکہ من گھڑت اور بے اصل ہے اس کے بارے میں عربی زبان میں بہت تفصیل سے لکھا جا چکا ہے۔ اسی  طرح"محدث"اور"الاعتصام "وغیرہ میں بھی اس جزء کے رد میں مضامین شائع ہو چکے ہیں۔

جب اس جزء کے بارے میں شور مچا تو حمیری نے اس کی توثیق کے لیے قلمی نسخہ "مرکز جمعۃ الماجد للثقافۃ والتراث "بھیجا جو کہ دوبئی میں قلمی نسخوں کا بہت بڑا مر کز ہے اس مرکز میں بحیثیت "مدقق المخطوطات"قلمی نسخوں کی جانچ پڑتال کا۔ کام کرنے والے ہمارے فاضل دوست شیخ شہاب الدین بن بہادر جنگ نے بتایا کہ جب ہم نے اس نسخہ کو دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ جعلی نسخہ ہے اور اس کی کوئی اصل نہیں ہے لہٰذا مرکز کی طرف سے دلائل و شواہد پر مبنی ایک رپورٹ تیار کر کے حمیری کو بھیج دی کہ یہ جعلی نسخہ ہے۔

شیخ محمد زیاد بن عمر نے"شبکاۃ سحاب السلفیۃ "[1]میں اس مکذوب اور مصنوعی جزء پر اپنے رد میں ذکر کیا ہے[2] کہ شیخ ادیب کمدانی نے۔ جو کہ عیسی حمیری کی ادارت میں کام کر چکےہیں، [3]مجھے ٹیلی فون پر دوران گفتگو بتایا کی حمیری نے مجھے جب یہ مخطوط دیکھایا تو میں نے دیکھ کر کہا کہ یہ من گھڑت ہے اور ان سے کہا کہ جس شخص نے آپ کو یہ مخطوط (قلمی نسخہ )لا کر دیا ہے اسے پوچھیں کہ جس اصل قلمی نسخے سے اس کو نقل کیا گیا ہے وہ کہاں ہے تو اس نے جواب دیا کہ روس کے ایک متبہ سے اس کو نقل کیا گیا تھا اور وہ مکتبہ لڑائی میں جل گیا ہے پھر حمیری نے اس سے مطالبہ کیا کہ اس جزء کا باقی حصہ کہاں ہے مجھے وہ بھی بھیجو مگرحمیری کی اس بات کا کوئی جواب نہیں دیا گیا ایک طرف تو یہ بات ہے جب کہ اس نسخہ کے آخر میں لکھا ہے کہ اس کو(933م) میں بغداد میں لکھا گیا ۔

بہر حال بہت سے ایسے شواہد و دلائل ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے یہ جزء من گھڑت بناوٹی اور خانہ ساز ہے اور "مصنف عبدالرزاق "کے ساتھ اس جزءکا کوئی تعلق نہیں ہے۔واضح رہے کہ حمیری کو یہ جزء ہندوستان کے ایک محمد امین برکاتی قادری نے لا کر دیا تھا۔(احناف کی چند کتب پر ایک نظر ص45) 

6۔جب امام یحییٰ بن معین  رحمۃ اللہ علیہ  نے شیبانی مذکور پر جرح کی تو نوری صاحب نے انھیں متشدد و متعنت قراردیا ۔دیکھئے تسوید ص44)

اور جب ابن معین سے مرضی والی روایت آئی تو نوری صاحب نے علانیہ لکھا:"امام یحییٰ بن معین رحمۃ اللہ علیہ  حدیث وقفہ الرجال کی مسلم شخصیت ہیں۔"(تسویدص72)

ایک ہی امام کی بات اگر مرضی کے خلاف ہوتو متشدد اور متعنت کا فتوی اور اگر مرضی کے مطابق ہوتو مسلم شخصیت قرار دے کر تعریف کرنا وادی تعارض و تنا قص میں غرق ہونے کی دلیل ہے۔ 

7۔ایک تابعی محارب بن دثار رحمۃ اللہ علیہ  جب رفع یدین کرنے کی ایک حدیث کی ایک سند میں آئے تو نوری صاحب نے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  کارد کرتے ہوئے لکھا :

"جس کی سند میں محارب بن دثارہے۔جس کے متعلق امام ابن سعد نے کہا کہ "لا يحتجون به"کہ محدثین اس کے ساتھ دلیل نہیں پکڑتے۔

پھر یہ شخص حضرت سیدنا عثمان غنی ذوالنورین  رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  اور حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  کے متعلق اس کے نظر یات درست نہیں تھے۔ ان مقدس حضرات کے ایمان کی گواہی یہ شخص نہیں دیتا تھا تعجب ہے ایسے لوگوں سے امام رفع یدین پر دلیل پکڑتے ہیں(ترک رفع یدین ، مطبوعہ جون 2004ءص423،424)

نیز محارب بن دثارکو متکلم فیہ قراردے کر میزان الاعتدال سے جرح نقل کرنے کے بعد نوری صاحب لکھتے ہیں۔

"اب آپ خود غور کریں کیا ایسے شخص کی روایت حجت ہو سکتی ہے۔جو حضرت عثمان غنی ذوالنورین رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  اور حضرت علی شیر خدا رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  کا گستاخ ہو۔"(ترک رفع یدین ص440)

حالانکہ اسی کتاب میں نوری صاحب محارب بن دثار کی اسی روایت سے ایک استدلال کرتے ہوئے خود لکھتے ہیں۔

"حضرت محارب بن دثار جو کہ کوفہ کے قاضی تھے اور صاحب علم و فضل تھے۔"(ترک رفع یدین ص256)

ان سے کوئی پوچھے کہ ایک ہی راوی کی کہیں زبردست تعریف اور کہیں شدید جرح آپ کیوں کرتے ہیں؟

8۔ایک روایت میں آیا ہے کہ (امام)ابو عبید نے فرمایا:میں نے محمد بن الحسن سے زیادہ قرآن کا کوئی بڑا عالم نہیں دیکھا۔اس کی سند نوری صاحب نے تاریخ بغداد (2/175)اور مناقب ابی حنیفہ واصحابہ للصیمری(ص123) سے پیش کی ہے جس میں احمد بن محمد بن الصلت بن مغلس الحمانی عرف ابن عطیہ ہے۔ ابن عطیہ مذکور کے بارے میں ذہبی نے کہا:"وضاع"وہ جھوٹی روایات گھڑنے والا ہے۔(دیوان الضعفاء 1/29ت50)

اور فرمایا:وہ ہلاک کرنے والا ہے۔(میزان الاعتدال 1/105ت410)

امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ  اور ابن ابی الفورس رحمۃ اللہ علیہ  نے کہا: وہ حدیث گھڑتا تھا۔

ابن عدی نے کہا: میں نے جھوٹے لوگوں میں اتنا بے شرم کوئی نہیں دیکھا۔

ابن حبان  رحمۃ اللہ علیہ نے کہا:پس میں نے جان لیا کہ وہ حدیث گھڑتا ہے۔

دیکھئے لسان المیزان (ج1ص270،271)

اور حافظ ذہبی  رحمۃ اللہ علیہ نے کہا:"کذاب وضاع"یہ جھوٹا حدیثیں گھڑنے والا ہے۔(میزان الاعتدال 1/140ح555)

اس کذاب کی روایت نوری صاحب بطوراستدلال پیش کر رہے ہیں۔ سبحان اللہ!

9۔ایک ثقہ عند الجمہور راوی محمد بن المظفر کے بارے میں نوری صاحب نے ابوالولید باجی کی جرح نقل کی:"کہ اس میں تشنیع ظاہر ہے۔"(تسویدص34)

اور تھوڑا آگے جا کر محمد بن عمران المرزبانی کے بارے میں کہا:

"یہ اگرچہ اہل تشنیع اور صاحب اعتزال تھا مگر عتیقی نے کہا کہ حدیث کی روایت میں یہ ثقہ ہے۔"تسویدص42)

مرضی کے مطابق معتزلی اور رافضی راوی بھی مقبول اور مرضی کے خلاف معمولی تشیع والا راوی بھی سخت مجروح؟کیا"خوب "انصاف ہے؟"

10۔محمد بن فضیل ایک راوی ہیں جن کے بارے میں نوری صاحب لکھتے ہیں۔

"پھر اس اثر کی سند میں محمد بن فضیل ہے جس کے متعلق ابو داؤد نے کہا یہ شیعہ ہے۔ ابن سعد نے کہا اس کے ساتھ دلیل نہ پکڑی جائے۔"(ترک رفع یدین ص424)

دوسری جگہ نوری صاحب نے محمد بن فضیل مذکور کی روایت کردہ ایک سندکے بارے میں لکھا۔"اس سند کے تمام راوی صحیح بخاری شریف  کے راوی ہیں اور ثقہ ثبت ہیں۔" (ترک رفع یدین ص454)

اس طرح کی اور بھی کئی مثالیں ہیں۔ ثابت ہوا کہ غلام مصطفیٰ نوری قدری صاحب اسماء الرجال اور علم حدیث سے بالکل ناواقف جاہل اور کورے ہیں اور دن رات اس کوشش میں مصروف ہیں کہ سفید کو سیاہ اور سیاہ سفید ثابت کر دیں۔

خلاصہ یہ کہ"تسوید وجہ الشیطانی"والی کتاب مردود ہے اور اس کامصنف علم وہ انصاف اور صدق واعتدال سے کوسوں دور ہے۔

غلا مصطفیٰ بریلوی صاحب میرا نام لے کر مجھ پررد کر رہے ہیں اور حال یہ ہے کہ وہ میرے نام سے بالکل بے خبر ہیں۔ میرا نام محمد زبیر ہے اور قبیلہ علی زئی مگر بریلوی صاحب بار بار"زبیر زئی"کی رٹ لگا رہے ہیں۔ دیکھئے اس کی تسوید (ص4،5)

علی زئی مرکب کو صرف زئی قرار دینا بہت بڑی جہالت ہے۔

حسن بن زیاد لؤلؤی حنفی کے بارے میں امام یحییٰ بن معین نے فرمایا:" کذاب"(تاریخ ابن معین روایۃ الدوری :1765)

ان کے علاوہ ابو حاتم الرازی رحمۃ اللہ علیہ  ، دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ  شافعی رحمۃ اللہ علیہ  ، محمد بن رافع  رحمۃ اللہ علیہ النیسا بوری رحمۃ اللہ علیہ ، الحسن بن علی الحلوانی رحمۃ اللہ علیہ ، یزیدبن ہارون رحمۃ اللہ علیہ  ، یعلیٰ بن عبید رحمۃ اللہ علیہ  ، نسائی  رحمۃ اللہ علیہ اور عقیلی  رحمۃ اللہ علیہ وغیرھم نے اس پر شدید جرحیں کی ہیں۔ دیکھئے ماہنامہ الحدیث : 16ص30تا 37)

امام یزید بن ہارون سے لؤی لؤی  کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے فرمایا:کیا وہ مسلمان ہے؟(الضعفاء للعقیلی 1/227و سندہ صحیح )

حافظ ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ  نے کہا :اور وہ متروک ہے۔(مجمع الزوائد 6/262)

امام محمد بن رافع  رحمۃ اللہ علیہ النیسابوری رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا حسن بن زیاد (نماز میں)امام سے پہلے سر اٹھا تا تھا اور امام سے پہلے سجدہ کرتا تھا۔

(الضعفاء للعقیلی 1/227و سندہ صحیح ، اخبار القضاۃ لوکیع بن خلف 3/189،الحدیث : 16ص 33)

ایسے مجروح عندالجمہور راوی کے بارے میں غلام مصطفیٰ صاحب نے"اقوال الاخیارفی ثناء امام احسن بن زیاد" لکھا ہے۔(دیکھئےاس کی تسوید ص110)

معلوم ہوا کہ نوری بریلوی صاحب عدل و انصاف سے ہزاروں میل دور ضد ،تعصب اور عناد کی راوی میں سرپٹ دوڑے جارہے ہیں اور رات کو دن ثابت کرنے کے لیے ہر حیلہ بروئے کار لارہے ہیں۔ لؤی لؤی کے بارے میں ایک تحقیقی مضمون پیش خدمت ہے۔

تلخیص نصب العماد فی جرح الحسن بن زیاد

حسن بن زیاد اللؤ لؤی (متوفی204ھ)کے بارے میں محدثین کرام اور علمائے عظام کی گواہیاں اور تحقیقات پیش خدمت ہیں۔

1۔امام یحییٰ بن معین رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا:وحسن اللؤلؤی کذاب"اور حسن (بن زیاد)اللؤلؤی کذاب ہے۔

(تاریخ ابن معین ، روایۃ الدوری :1765، الجرح والتعدیل 3/15،وسندہ صحیح الکامل لا بن عدی 2/731،دوسرا نسخہ 3/160، الضعفاء للعقیلی 1/228اخبار القضاۃ 3/189، وسندہ صحیح)

2۔امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ  نے کہا:" کذاب کو فی متروک الحدیث "(تاریخ بغداد7/317 وسندہ صحیح)

3۔یعقوب بن سفیان الفارسی نے کہا:"الحسن اللؤلؤی کذاب"

(المعرفۃ والتاریخ 3/56،تاریخ بغداد 7/317و سندہ صحیح)

4۔ امام نسائی نے کہا:"والحسن بن زیاد اللؤلؤی کذاب خبیث"

(الطبقات للنسائی آخر کتاب الضعفاء ص266، دوسرا نسخہ ص310)

5۔امام یزید بن ہارون  رحمۃ اللہ علیہ  سے حسن بن زیاد اللؤلؤی کے بارے میں پوچھا گیا کہ آپ کا اس کے بارے میں کیا خیال ہے؟انھوں نے فرمایا:"اومسلم ھو؟"کیا وہ مسلمان ہے؟(الضعفاء للعقیلی 1/227 وسندہ صحیح دوسرا نسخہ 1/246تاریخ بغداد 7/316وسندہ صحیح اخبارالقضاۃ لمحمد بن خلف بن حبان وکیع 3/189، وسندہ صحیح )

6۔امام محمد بن رافع النیسا بوری  رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا: حسن بن زیاد اللؤی لؤی امام سے پہلے سر اٹھاتا تھا اور امام سے پہلے سجدہ کرتا تھا۔ الخ (الضعفاء للعقیلی 1/227 ،228،وسندہ صحیح دوسرا نسخہ تاریخ بغداد 7/316، وسندہ صحیح اخبارالقضاۃ  3/189، وسندہ صحیح )

7۔حسن بن علی الحلوانی  رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا:میں نے لؤلؤی کو دیکھا اس نے سجدے میں ایک لڑکے کا بوسہ لیا تھا ۔(تاریخ بغداد7/316و سندہ تاریخ یاد رہے کہ  تاریخ بغداد میں کاتب کی غلطی سے حسن بن علی الحلوانی رحمۃ اللہ علیہ  کے بجائے حسن بن زیاد الحلوانی رحمۃ اللہ علیہ  چھپ گیا ہے)

8۔یعلیٰ بن عبید  رحمۃ اللہ علیہ  نے کہا:اتق "اللؤلؤی"لولؤی سے بچو۔

(الضعفاء للعقیلی 1/227 ،وسندہ صحیح دوسرا نسخہ 1/246تاریخ بغداد 7/316، وسندہ صحیح )

9۔ابو حاتم الرزای رحمۃ اللہ علیہ  نے کہا: وہ حدیث میں ضعیف تھا ثقہ اور قابل اعتماد نہیں تھا ۔ (الجرح التعدیل 3/15،علل الحدیث 2/432ح 2806)

10۔اسحاق بن اسماعیل الطالقانی (ثقہ عندالجمہور )نے کہا:ہم وکیع (بن الجراح) کے پاس تھے کہ کہا گیا۔بے شک اس سال بارش نہیں ہو رہی قحط ہے۔تو انھوں نے فرمایا: قحط کیوں نہ ہو؟

حسن اللؤلؤی اور حماد بن ابی حنیفہ جو قاضی بنے بیٹھے ہیں۔ (الضعفاء للعقیلی 1/ ،228،وسندہ صحیح)

تنبیہ:

اس عبارت کا ترجمہ ماہنامہ الحدیث (عدد 16ص36)میں میں غلط چھپ گیا تھا۔

11۔جوز جانی نے کہا:اسد بن عمرو، محمد بن الحسن اور لؤلؤی سے اللہ فارغ ہو چکا ہے۔(احوال الرجال 76،77رقم :96،99)

یعنی اللہ نے ہمیں ان سے نجات دے دی ہے یا یہ کہ وہ اللہ کی عدالت میں حاضر ہو کر اپنے اپنے مقامات پر پہنچ چکے ہیں واللہ اعلم۔

12۔عقیلی نے حسن بن زیاد کو کتاب الضعفاء میں ذکر کر کے جروح نقل کیں اور کسی قسم کا دفاع نہیں کیا۔

13۔ابن الجوزی نے اسے کتاب الضعفاء والمتروکین (1/202ت821)میں ذکر کیا۔

14۔ابن عدی نے کہا:اور وہ ضعیف ہے۔الخ(الکامل 2/732)

15۔ابن شاہین نے اسے تاریخ اسماء الضعفاء والکذابین (ص72ترجمہ 118)میں ذکر کیا ۔

16۔حافظ سمعانی نے کہا:لوگوں نے اس میں کلام کیا ہے اور وہ حدیث میں کچھ چیز نہیں ہے۔(الانساب5/146)

17۔ابن ایثر نےکہا:اور وہ روایت میں سخت ضعیف ہے، کئی (علماء )نے اسے کذاب کہا ہے اور وہ بڑا فقیہ تھا۔ (غایۃ النہایہ فی طبقات القراء 1/213ت975)

18۔حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ  نے کہا:اس کے ضعف کی وجہ سے انھوں (محدثین)کے کتب ستہ میں اس سے روایت نہیں لی اور وہ فقہ میں سردار تھا۔(العبر فی خبر من غبر 1/270وفیات 204ھ)

ذہبی نے اسے دیوان الضعفاء (1/185ت905) میں بھی ذکر کیا ہے۔

20۔زیلعی حنفی نے حسن بن زیاد کے بارے میں لکھا۔"

"ونقل عن آخرين أنهم رموه بحب الشباب ، وله حكايات تدل على ذلك"

"پھر انھوں(ابن عدی)نے دوسروں سے نقل کیا کہ یہ لڑکوں سے محبت کرتا تھا اور اس کے قصے اس پر دلالت کرتے ہیں۔(نصب الرایہ1/53)

جم غفیر اور جمہور محدثین کی اس جرح کے مقابلے میں درج ذیل تو ثیق مروی ہے۔

1۔مسلمہ بن قاسم نے اسے ثقہ کہا:

عرض ہے کہ مسلمہ مذکور بذات خود ضعیف و مشبہ تھا۔ دیکھئے میزان الاعتدال (4/112)اور لسان المیزان (6/35)

2۔حاکم نے اس سے المستدرک میں روایت لی ہے۔

عرض ہے کہ مجھے حسن بن زیاد اللؤلؤی کی کوئی روایت المستدرک میں تصحیح کے ساتھ نہیں ملی اور حاکم کا مستدرک میں صرف روایت لینا حاکم کے نزدیک بھی راوی کی توثیق نہیں ہے نیز دیکھئے المستدرک (3/589ح6492)

3۔ابو عوانہ نے المستخرج (1/9ح12) میں اس سے روایت لی۔

عرض ہے کہ اس روایت میں لؤلؤی کی صراحت نہیں اور اگر صراحت ہوتی بھی تو جمہور کی جرح کے مقابلے میں مردود ہے۔

نیز دیکھئے میزان الاعتدال (2/491، لسان المیزان 3/338ترجمہ عبد اللہ بن محمد البلوی)

4۔اگر کوئی کہے کہ ابن حبان نے اسے کتاب الثقات میں ذکر کیا ہے تو اس کاجواب یہ ہےکہ لؤلؤی کی صراحت کے ساتھ کتاب الثقات میں ہمیں اس کا ذکر نہیں ملا اور دوسرے یہ کہ اگر ابن حبان  رحمۃ اللہ علیہ سے یہ توثیق ثابت بھی ہوتی تو جمہور کی جرح کے مقابلے میں مردودتھی۔

5۔اگر کوئی کہے کہ یحییٰ بن آدم نے کہا:میں نے حسن بن زیاد سے زیاد کوئی فقیہ نہیں دیکھا۔(اخبار ابی حنیفہ واصحابہ للصمیری ص131)

عرض ہے کہ یہ قول احمد بن محمد الصیر فی ،محمد بن منصور اور محمد بن عبید اللہ الہمدانی کی وجہ سے ثابت نہیں ہے۔ دیکھئے الحدیث:16ص37۔

محمد بن الحسن الشیبانی کے بارے میں راقم الحروف کا رسالہ"تائید ربانی اور ابن فرقد شیبانی پڑھ لیں۔وما علینا الا البلاغ۔

(29/رمضان 1429 ھ بمطابق 30/ستمبر2008ء)(الحدیث : 54)


[1] ۔یہ انٹرنیٹ پر ایک روم کا نام ہے۔

[2] ۔ان کا رداب کتابی شکل میں بھی مجموع فی کشف حقیقہ الجزء المنفقود(المزعوم) من مصنف عبد الرزاق "کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔

[3] ۔یہ حمیری دوبئی اوقاف کے مدیررہ چکے ہیں۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاوی علمیہ

جلد1۔اصول، تخریج اورتحقیقِ روایات-صفحہ583

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ