سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(549) ٹیکس کے جواز کے بارے میں..!

  • 2007
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 1729

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

عرض خدمت ہے کہ جب سے طاغوت کے بارے میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے بصیرت سے نوازا ہے اپنے کام کے بارے میں دل مطمئن نہیں ہوتا۔

ہمارے کام (کاروبار) وثیقہ نویسی اور اسٹام فروشی کی تفصیل یہ ہے کہ وثیقہ نویسی سے مراد تو ان دو فریقین کے درمیان جو معاملہ خریدوفروخت ، شراکت ، کرایہ داری یا ٹھیکہ داری میں طے پایا اس کو عدل کے ساتھ تحریر کر دینا ہے ۔ مگر دوسری طرف اسٹام فروشی کا معاملہ ہے جس میں حکومت (ضلع کے ڈپٹی کمشنر) کی طرف سے ہمیں ایک لائسنس جاری ہوتا ہے جس کے تحت ہم ان کے لائسنس دار اسٹام فروش بن جاتے ہیں ۔ اور گورنمنٹ ہمیں اپنا ملازم سمجھتی ہے۔ ہمارا کام یہ ہے کہ اس لائسنس اسٹام فروشی کے تحت ہم سٹمپ پیپرز خریدتے ہیں ۔ جس پر ہمیں ۳ فیصد کے حساب سے کمیشن ملتا ہے ۔ یہ سٹمپ پیپرز زیادہ تر جائیداد کی خریدوفروخت کے کام آتے ہیں۔ یعنی مذکورہ سٹمپ پیپرز جائیداد اور زمینوں کی خریدوفروخت پر موجودہ (طاغوت) حکومت کاٹیکس ہے ۔ جس کو جمع کروا کے ہم اس طاغوتی حکومت کے اس ٹیکس کی وصولیابی کے لیے تعاون کر رہے ہیں ۔ نیز ہمارے کاروبار کی ایک اور شکل یہ ہے کہ کوئی شخص جب کوئی جائیداد خریدتا ہے تو اس وقت تک اس جائیداد کی رجسٹری نہیں ہوتی (یعنی خریدار اس جائیداد کا مالک نہیں بنتا) جب تک حکومت کو مقرر کردہ ٹیکس ادا نہیں کر دیتا ۔ ہمارا کاروبار جائیداد کے خریدار سے حکومت کا مقرر کردہ ٹیکس معہ سروس (مزدوری) لے کر گورنمنٹ سے رجسٹری (SALE DEED) لے کر گورنمنٹ کے مروجہ طریقے کے مطابق دستاویزات کی تکمیل کروا دیتے ہیں۔

ایک مسئلہ یہ ہے کہ اس طرح ٹیکس لینے کا جواز اسلام میں موجود ہے۔ یا ہمارے لیے اس کو بطور کاروبار اختیار کرنا جائز ہے ۔ مہربانی کر کے قرآن کریم ، نبیﷺ کی سنت اور صحابہ کرامﷺ کے اجماع کی روشنی میں ہماری رہنمائی فرمائیں تاکہ ہم اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ دین کے مطابق اپنے کاروبار اور عام زندگی سنوار سکیں ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اسلام میں پورا پورا داخل ہونے کی توفیق عطا فرمائے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حکومت مسلمان ہو خود اسلام کی پابند رعیت کو اسلام کی پابند بنانے والی ہو طاغوت نہ ہو حکومت ورعیت باہمی رضامندی سے کوئی ٹیکس طے کر لیں جس کے لگانے وصول کرنے اور مصارف پر صرف کرنے میں کوئی چیز خلاف شرع نہ ہو تو ایسے ٹیکس میں شرعاً کوئی مضائقہ نہیں اور نہ ہی اس کی وصولی پر موظف بننے میں کوئی حرج ہے بشرطیکہ اپنی ذمہ داری عدل انصاف کے ساتھ ادا کرے اور رشوت وغیرہ ناجائز امور سے اجتناب کرے۔

یاد رہے زکاۃ اسلام کا ایک بنیادی رکن ہے ٹیکس نہیں نہ ہی ٹیکس زکاۃ ہے بعض لوگ اس سلسلہ میں غلط فہمی کا شکار ہو جاتے ہیں۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل

خرید و فروخت کے مسائل ج1ص 385

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ