سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(300) زمیندار کا آڑھتی سے فصل سے پہلے رقم لینا

  • 19949
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 991

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے ہاں آڑھتی حضرات کا یہ طریقہ ہے کہ زمیندار حضرات ان سے رقم لے لیتے ہیں اور فصل کے موقع پر انہیں پیداوار دینے کا وعدہ کرتے ہیں، اس طرح آڑھتی حضرات ایک لاکھ روپے دے کر تقریباً ڈیڑھ لاکھ روپیہ کما لیتے ہیں۔ کیا ایسا کرنا شرعاً جائز ہے؟ کتاب وسنت کا حوالہ دیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

کسی چیز کی آیندہ ادائیگی کے وعدے پر اس کی نقد قیمت وصول کرنا جائز ہے۔ شرعی طور پر اسے بیع سلم یا بیع سلف کہا جاتاہے، اس طرح کی خریدوفروخت جائز ہے۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں اس طرح کی خریدوفروخت ہوا کرتی تھی، خود رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اجازت دی ہے لیکن اس کی چند ایک شرائط ہیں۔ جو چیز بطور قیمت ادا کی جا رہی ہے اس کی مقدارمعلوم ہو اور اسے مجلس عقد میں ادا کر دیا جائے، نیز جو چیز آیندہ لینی ہو اس کا ایسا وصف بیان کیا جائے جس سے اس کی مقدار اور نوع ممتاز ہو جائے تاکہ دھوکے اور تنازعہ کا امکان نہ رہے نیز ادائیگی کی مدت معلوم ہونی چاہیے، اس کے لیے تاریخ طے کر لی جائے، صحیح بخاری میں ہے: ’’جو شخص کسی بھی چیز میں بیع سلم کرنا چاہے وہ مقررہ وزن اور مقررہ مدت ٹھہرا کر کرے۔‘‘ [1]

 بہرحال اس قسم کی خریدوفروخت کے لیے ضروری ہے کہ جنس معین ہو، ماپ یا وزن بھی معلوم ہو، بھاؤ بھی طے ہو اور ادائیگی کی تاریخ بھی معین ہو۔ دراصل اس قسم کی خریدوفروخت اشیا کے معدوم ہونے کی وجہ سے ناجائز تھی لیکن اقتصادی مصالح کے پیش نظر لوگوں کے لیے نرمی کرتے ہوئے اسے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے، معاملہ طے کرتے وقت اس چیز کا موجود ہونا لازمی نہیں ہے۔ چنانچہ حضرت عبداﷲ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ اس قسم کی خریدوفروخت کرتے تھے تو لوگوں نے ان سے دریافت کیا آیا اس وقت ان کے پاس کھیتی موجود ہوتی تھی؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم ان سے اس کے متعلق نہیں پوچھا کرتے تھے۔‘‘ [2]

 صورت مسؤلہ میں اگر آڑھتی حضرات زمیندار سے خریدوفروخت کا معاملہ کرتے ہیں کہ انہیں پیشگی رقم دے کر آیندہ جنس لینے کا اہتمام کرتے ہوں اور اس کا بھاؤ، تاریخ ادائیگی جنس اور نوع نیز بھاؤ کا تعین کر لیا جائے تو جائز ہے اور اگر روپیہ دے کر آیندہ فصل کے موقع پر ان سے روپیہ ہی لینا ہے تو ایسا کرنا سود ہے جو بہت سنگین جرم ہے۔ (واﷲ اعلم)


[1]  صحیح مسلم، السلم: ۲۲۴۔   

[2]  صحیح بخاری، السلم: ۲۲۵۵۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:266

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ