سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(526) قسطوں پر کاروبار کا حکم

  • 1984
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 4068

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

آپ کا مضمون نما مکمل اور مدلل جواب مارچ ۹۷ کے مجلہ میں پڑھا جو کہ اسٹیٹ لائف انشورنش کمپنی کے بارے میں تھا ۔ آج سے کوئی سات آٹھ سال قبل میں بھی اسی طرح کے دلائل اور کئی ایک مولانا کے بیانات سے بھرا ہوا کتابچہ پڑھ کر اور متاثر ہو کر بیمہ کرا کر پھنس گیا تھا مگر گذشتہ سال ۱۹۹۶ء کے مجلہ میں سے ایک مجلہ میں سوال وجواب کے کالم میں بیمہ کے بارے میں جواب ملا پھر اس کے بعد میں نے اس کمپنی کو چھوڑ دیا اور الحمد ﷲ کافی سے زیادہ مطمئن ہوں۔

جناب حافظ صاحب آپ بنی نوع انسان کی بہتری کے لیے کوشاں ہیں اللہ آپ کو مزید توفیق دے (آمین)  ایک اسی نوعیت کے مسئلہ کے حل کے بارے میں آپ کو زحمت دینی تھی میں امید کرتا ہوں کہ آپ اس طرح کا مکمل جواب عنایت فرما کر مزید زیادہ شاکر ہونے کا موقع دیں گے۔

(1) ہمارے علاقہ کے آڑھتی صاحب اور بڑے زمیندار لوگ چھوٹے اور غریب کسانوں کو کھاد اور زرعی ادویات فصل کے قرضہ پر دیتے ہیں ان کا طریقہ کار کچھ اس طرح ہوتا ہے ہے کہ مثلاً اگر ایک گٹو کھاد کا نقد روپے دے کر خریدا جائے تو اس کے وہ /۳۰۰ روپے وصول کریں گے اور اگر ادھار یعنی موجودہ فصل کاٹ کر آپ کو رقم لوٹا دیں گے جوکہ پانچ چھ ماہ کا عرصہ ہوتا ہے تو وہ اس کسان کے کھاتہ میں /۳۵۰ روپے وصول کرتے ہیں اسی طرح زرعی ادویہ کا ہے کہ اگر ایک لیٹر کی دوا /۵۰۰ روپے نقد ہے تو ادھار میں وہی دوا /۶۵۰  روپے کی ملتی ہے آپ سے پوچھنا یہ تھا کہ آیا کہ یہ جو اضافی رقم ادھار کے ساتھ وصول کرتے ہیں کیا یہ مجبوری سے فائدہ اٹھا کر (سود) میں شامل نہیں ہو جاتی ۔ جبکہ ان سے بحث کرنے پر وہ کہتے ہیں کہ (سود) پیسے کے لین دین میں ہوتا ہے اس میں ایک طرف جنس ہے اور دوسری طرف روپے۔ اس کی مثال وہ ایک پلاٹ کی دیتے ہیں کہ آپ نے ایک پلاٹ لاکھ میں خریدا ایک سال بعد آپ کا وہی پلاٹ سوا لاکھ میں فروخت ہوتا ہے آیا وہ اوپر والی رقم کیا سود ہو گی۔ جو یقینا نہیں ہے اس طرح وہ اس کو کاروباری منافع سمجھتے ہیں اور جائز قرار دیتے ہیں ہمارے امام مسجد صاحب سے معلوم کیا انہوں نے اس کو جائز قرار دیتے ہوئے کہا کہ زیادتی منافع ہے سود نہیں ہے اسلام میں بیع جائز ہے نہ کہ سود ۔ آپ سے گذارش ہے کہ آپ اس معاملہ میں میری ضرور رہنمائی فرمائیں گے ؟  اللہ آپ کو جزائے خیر کثیر عطا فرمائے (آمین)

(2) قسطوں والے کاروبار کی اسلام میں کیا نوعیت ہے وہ بھی اسی طرح ایک ہزار کی چیز قسط وار کچھ عرصہ بعد چودہ سو میں واپسی ہوتی ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

آپ کا مکتوب موصول ہوا جس میں دو سوال اور دو شبہے مذکور ہیں ان دونوں کا جواب مجلہ الدعوۃ  ۷/۶ مورخہ صفر    ۱۴۱۷ہـ میں حافظ  عبدالسلام صاحب بھٹوی حفظہ اللہ تبارک وتعالیٰ دے چکے ہیں چنانچہ وہ مذکور بالا شمارہ کے ص۲۲ پر لکھتے ہیں ۔

’’رسول اللہﷺنے خرید وفروخت کی وہ سب صورتیں حرام فرما دی ہیں جن میں سود کی آمیزش ہے ان میں سے ایک صورت وہ ہے جو ترمذی کی صحیح حدیث میں  مذکور ہے کہ «نَهٰی عَنْ بَيْعَتَيْنِ فِیْ بَيْعَةٍ»نبیﷺنے ایک بیع میں دو بیعوں سے منع فرمایا  ۔ اس کی تشریح اہل علم یہ فرماتے ہیں کہ اگر تم نقد لو  تو اتنی قیمت ہے اور اگر ادھار لو تو اور قیمت ہے ۔ مثلاً نقد دس روپے کی ہے اور ادھار پندرہ روپے۔ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ ٹھیک ہے یہ رسول اللہﷺ کا فرمان ہے مگر اس کے منع ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس بات کا تعین نہیں کیا گیا کہ وہ نقد لے گا یا ادھار۔ اگر پہلے طے کر لے کہ میں تمہیں نقد دوں گا یا ادھار دوں گا تو جائز ہے اصل سبب ایک قیمت کا معلوم اور متعین نہ ہونا ہے۔ اگر معلوم ہو جائے کہ نقد لینا ہے اسے دس روپے میں دے تو ٹھیک ہے یا طے ہو جائے کہ ادھار لینا ہے اور پندرہ روپے میں دے تب بھی ٹھیک ہے یہ رائے کئی جید علماء بھی دیتے ہیں انہوں نے اسے جائز قرار دیا ہے قسطوں پر چیز زیادہ قیمت کے ساتھ فروخت کرنے کو بھی انہوں نے جائز قرار دیا ہے مثلاً ایک چیز نقد لاکھ روپے کی اور قسطوں پر سوا لاکھ کی بشرطیکہ پہلے طے ہو جائے نقد لینی ہے یا ادھار لینی ہے۔

میرے بھائیو ! جہاں تک میں نے احادیث کا مطالعہ کیا ہے اور پڑھا ہے ان علماء کی بات درست نہیں کیونکہ ابوداود شریف میں یہی حدیث تفصیل کے ساتھ آئی ہے رسول اللہﷺنے فرمایا :«مَنْ بَاعَ بَيْعَتَيْنِ فِیْ بَيْعَةٍ فَلَهُ أَوْ کَسُهُمَا أَوِ الرِّبَا» جو شخص ایک بیع میں دو بیع کرتا ہے یا تو کم قیمت لے یا پھر وہ سود ہو گا۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس بیع کی حرمت کا اصل سبب سود ہے قیمت کا غیر متعین ہونا نہیں ہے آپ غور کریں اور دانائی سے سمجھنے کی کوشش کریں کسی شخص کو اگر آج قیمت ملے تو دس روپے کی چیز دیتا ہے اور اگر ایک ماہ بعد قیمت ملتی ہے تو وہ پندرہ روپے کی دیتا ہے وہ پانچ روپے زائد کس چیز کے لے رہا ہے صاف ظاہر ہے اس نے وہ پانچ روپے مدت کے عوض لیے ہیں اور یہی سود ہے‘‘  حافظ صاحب کا کلام ختم ہوا۔

رہے دو شبہے تو ان سے پہلا شبہ ہے : ’’سود پیسے کے لین دین میں ہوتا ہے اس میں ایک طرف جنس ہے اور دوسری طرف روپے‘‘ یہ شبہ بالکل بے بنیاد ہے کیونکہ سود پیسے کے لین دین میں بھی ہوتا ہے ، جنس کے لین دین میں بھی اور جنس وپیسے کے لین دین میں بھی ۔ قرآن مجید کی کسی آیت اور رسول کریمﷺ کی کسی حدیث میں یہ بات نہیں آئی کہ سود صرف پیسے کے لین دین میں ہوتا ہے جنس کے لین دین اور جنس وپیسے کے لین دین میں سود نہیں ہوتا۔

بلکہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم ہے: رسول اللہﷺنے فرمایا :

«وَالْبُرُّ بِالْبُرِّ رِبًا إِلاَّ هَآءَ وَهَآءَ ، وَالشَّعِيْرُ بِالشَّعِيْرِ رِبًا إِلاَّ هَآءَ وَهَآءَ ، وَالتَّمْرُ بِالتَّمْرِ رِبًا إِلاَّ هَآءَ وَهَآءَ»(صحيح بخارى ج1ص290 باب بيع التمر بالتمر)

گندم گندم   کے بدلے سود ہے مگر برابر برابر نقد بنقد اور جو جو کے بدلے سود ہے مگر برابر برابر نقد بنقد اور کھجور کھجور کے بدلے سود ہے مگر برابر برابر نقد بنقد ۔ تو آپﷺ  کا یہ فرمان اس بات کی دلیل ہے کہ جنس کے لین دین میں بھی سود ہوتا ہے۔

پھر رسول اللہ ﷺ کا پہلے مذکور فرمان ’’جس نے ایک بیع میں دو بیعیں کیں تو اس کے لیے ان دونوں میں سے کم ہے یا سود‘‘ اس امر کی دلیل ہے کہ پیسے اور جنس کے لین دین میں بھی سود ہوتا ہے کیونکہ رسول اللہﷺنے اپنے اس فرمان میں نہ تو پیسے کی تخصیص فرمائی ہے اور نہ ہی جنس کی تو آپﷺکا یہ فرمان تینوں صورتوں کو شامل ہے۔

اور دوسرا شبہ ہے ’’آپ نے ایک پلاٹ لاکھ روپے میں خریدا ایک سال بعد آپ کا وہی پلاٹ سوا لاکھ میں فروخت ہوتا ہے آیا وہ اوپر والی رقم کیا سود ہو گی ؟ جو یقینا نہیں ہے اسی طرح وہ اس کو کاروباری منافع سمجھتے ہیں اور جائز قرار دیتے ہیں‘‘ اس شبہ میں ’’ایک سال بعد‘‘ والی بات بالکل بے معنی ہے کیونکہ بسا اوقات آدمی ایک پلاٹ  لاکھ میں خریدتا ہے اور خرید لینے کے فوراً بعد اس کو اسی پلاٹ کا سوا لاکھ دینے والے موجود ہوتے ہیں۔ دراصل یہ شبہ وہی ہے جس کا قرآن مجید نے رد کر دیا ہے :

﴿ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمۡ قَالُوٓاْ إِنَّمَا ٱلۡبَيۡعُ مِثۡلُ ٱلرِّبَوٰاْۗ وَأَحَلَّ ٱللَّهُ ٱلۡبَيۡعَ وَحَرَّمَ ٱلرِّبَوٰاْۚ﴾--بقرة275

’’یہ اس لیے کہ وہ کہا کرتے تھے کہ تجارت اور سود ایک سے ہیں حالانکہ اللہ نے تجارت کو جائز کیا ہے اور سود کو حرام‘‘

رہی کاروباری منافع والی بات تو معلوم ہونا چاہیے کہ ہر کاروباری نفع شریعت میں جائز نہیں کیونکہ سود بھی کاروباری نفع ہے مگر شریعت نے اس کو حرام اور ناجائز قرار دیا ہے تو پلاٹ لاکھ میں خرید کر اسی وقت یا سال بعد سوا لاکھ میں بیچنا سود نہیں جس طرح کوئی چیز دس روپے میں خرید کر اسی وقت یا سال بعد بارہ روپے میں فروخت کرنا سود نہیں بلکہ یہ حلال اور جائز بیع ہے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿وَأَحَلَّ اﷲُ الْبَیْعَ﴾ جبکہ ادھار کی وجہ سے زائد قیمت کو رسول اللہﷺنے اپنے فرمان:

«مَنْ بَاعَ بَيْعَتَيْنِ فِیْ بَيْعَةٍ فَلَهُ أَوْکَسُهُمَا أَوِ الرِّبَا»

 میں سود قرار دیا ہے اس لیے یہ نفع محض اس لیے کہ کاروباری ہے جائز نہیں ہو گا کیونکہ وہ رسول اللہ  ﷺکے فرمان کے مطابق سود کے زمرہ میں آتا ہے تو سود والے حرام نفع کو حلال بیع سے حاصل شدہ حلال نفع پر قیاس کرنا درست نہیں اس کی مثال ایسے سمجھیں جیسے کوئی خمر وشراب کی تجارت یا خنزیر کی تجارت سے حاصل شدہ نفع کو شربت بزوری شربت بنفشہ یا گائے بیل کی تجارت سے حاصل شدہ نفع پر قیاس کرنا شروع کر دے تو جس طرح یہ قیاس درست نہیں بالکل اسی طرح پہلا ادھار زائد قیمت اور پلاٹ والا قیاس بھی درست نہیں فرق صرف بیع میں ہے ۔

مزید وضاحت کے لیے دیکھئے اگر کوئی یہ کہے کہ انسان کا اپنے باپ کی بیٹی کے ساتھ نکاح جائز ہے کیونکہ اس کا اپنے چچا کی بیٹی سے نکاح جائز ہے آخر دونوں عورتیں ہی تو ہیں تو یہ قیاس درست نہیں ہو گا کیونکہ باپ کی بیٹی کے ساتھ نکاح شریعت میں حرام ہے اور چچا کی بیٹی کے ساتھ نکاح شریعت میں حلال ہے بالکل اسی طرح سود بھی کاروباری نفع ہے اور حلال تجارت سے حاصل شدہ نفع بھی کاروباری نفع ہے مگر سود والا نفع حرام ہے اور حلال تجارت سے حاصل شدہ نفع حلال ہے اور حرام کو حلال پر قیاس کر کے حرام کو حلال نہیں بنایا جا سکتا واللہ اعلم تمام احباب واخوان کی خدمت میں ہدیہ سلام پیش فرما دیں ۔ بشیر رزاق کی بجائے بشیر عبدالرزاق لکھا ، لکھوایا اور کہلوایا کریں۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل

خرید و فروخت کے مسائل ج1ص 366

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ