سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(400) دائمی بیماری کی وجہ سے روزے نہ رکھنا

  • 1856
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 1327

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

عرض یہ ہے کہ آدمی سابقہ رمضان میں بیمار ہوا ہے اور ابھی تک اسی طرح بیمار ہے۔ اس بندے کے پچھلے رمضان کے روزے بھی رہتے ہیں۔

اب مسئلہ یہ ہے کہ وہ ان روزوں کا کیا کرے۔ اب بھی وہ خود روزے نہیں رکھ سکتا۔ اب وہ کسی کو روزے رکھائے یا ایک ہی مرتبہ تیس آدمیوں کو کھانا کھلائے یا پھر وہ تیس آدمیوں کا کھانا پکا کر اللہ تعالیٰ کی راہ میں تقسیم کر دے ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا :

﴿وَمَن كَانَ مَرِيضًا أَوۡ عَلَىٰ سَفَرٖ فَعِدَّةٞ مِّنۡ أَيَّامٍ أُخَرَۗ﴾--البقرة185

’’اور جو کوئی ہو بیمار یا اوپر سفر کے پس گنتی ہے دنوں اور سے‘‘ اس آیت کریمہ کی رو سے مریض مرض سے صحت یابی کے دنوں میں روزے رکھے خواہ ایک رمضان کے ہوں یا زیادہ رمضانوں کے اور اگر مریض مرض سے صحت یاب نہیں ہوتا مرض میں فوت ہو جاتا ہے تو جتنے رمضانوں کے روزے وہ نہیں رکھ سکا اب اس کے اولیاء وہ روزے رکھیں صحیح بخاری میں ہے : «مَنْ مَاتَ وَعَلَيْهِ صِيَامٌ صَامَ عَنْهُ وَلِيُّهُ»(بخارى-كتاب الصوم-باب من مات وعليه صوم) ’’جو فوت ہو جائے اور اس پر روزے ہوں تو اس کا ولی اس کی طرف سے روزے رکھے‘‘ رسول اللہﷺ کا یہ فرمان اور مندرجہ بالا آیت کریمہ اپنے مفہوم ومنطوق میں بالکل واضح ہیں اگر مریض بغرض اجر وثواب تطوع مساکین کو کھانا کھلانا چاہتا ہے تو بڑی خوشی سے کھلائے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

﴿وَمَن تَطَوَّعَ خَيۡرٗا فَإِنَّ ٱللَّهَ شَاكِرٌ عَلِيمٌ﴾--البقرة158

اور جو کوئی نفل طور پر زیادہ نیکی کرے تو بے شک اللہ تعالیٰ قدردان جاننے والا ہے

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل

روزوں کے مسائل ج1ص 289

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ