سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(269) عشاء کے بعد وتر پڑھنا اور پھر قیام اللیل کرنا

  • 1725
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 3045

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک شخص عشاء کی نماز کے وقت وتر پڑھ لیتا ہے اور قیام اللیل کے وقت جاگ اٹھتا ہے اور نماز تہجد گزارنا چاہتا ہے دلائل وبراہین کی روشنی میں جواب مقصود ہے آیا وہ نماز تہجد ادا کر سکتا ہے یا نہیں اگر کر سکتا ہے تو اس کی صورت کیا ہو گی یعنی وتر وہی آغاز رات والے کفایت کریں گے یا بعد میں پھر ادا کرنا پڑیں گے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

رسول اللہﷺ سے رات کے تینوں حصوں میں تہجد ادا کرنا ثابت ہے اس لیے تہجد پہلی درمیانی اور آخری رات ادا کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں جس انسان کو پچھلی رات جاگنے میں دشواری محسوس ہوتی ہے وہ بلاخوف وخطر عشاء کے فوراً بعد تہجد ادا کر لے وتر پڑھ لے پھر سو جائے بہرحال تہجد رات کے کسی حصہ میں بھی ادا کی جائے وتر آخر میں ہونے چاہئیں کیونکہ رسول اللہﷺ کی صحیح حدیث ہے کہ وتروں کو نماز (تہجد ، تراویح ، قیام اللیل ، قیام رمضان اور صلاۃ اللیل) کے آخر میں رکھو ۔(مسلم باب صلاۃ اللیل مثنی مثنی والوتر رکعۃ من آخر اللیل)البتہ صحیح مسلم(بحوالہ مشکوۃ۔کتاب الصلاۃ باب الوتر الفصل الاول) کی ایک حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہﷺ وتروں کے بعد بھی دو رکعت نماز پڑھ لیا کرتے تھے جس سے پتہ چلتا ہے اگر کوئی صاحب وتر پڑھ کر سو گئے پھر جاگ پڑے تو وہ تہجد اور صلاۃ اللیل ادا کر سکتے ہیں آخر وتروں کے بعد دو رکعت پڑھنے سے بھی وتر تو آخر میں نہیں رہتے بہر کیف بہتر یہ ہے کہ وتر آخر میں پڑھے تہجد خواہ پہلی رات ہی کیوں نہ پڑھنی پڑے۔ بعض لوگ وتر پڑھ کر سو جاتے ہیں پھر اگر انہیں جاگ آ جائے تو وہ پہلی رات پڑھے ہوئے وتروں کو ایک اور رکعت پڑھ کر توڑتے ہیں پھر تہجد پڑھتے ہیں اور آخر میں پھر تیسری مرتبہ وتر پڑھتے ہیں یہ طریقہ رسول اللہﷺ سے ثابت نہیں۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل

نماز کا بیان ج1ص 220

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ