سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(44) بنو خطمہ کےامام اور قاری حضرت عمیر بن عدی الخطمی کےعصماء بنت مروان الیہودیہ کےقتل کرڈالنے کےواقعہ

  • 15898
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-18
  • مشاہدات : 1957

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

٭ بنو خطمہ کےامام اورقاری حضرت عمیر بن عدی الخطمی ﷜ کےعصماء بنت مروان الیہودیہ کےقتل کرڈالنے کےواقعہ


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

٭ بنو خطمہ کےامام اورقاری حضرت عمیر بن عدی الخطمی ﷜ کےعصماء بنت مروان الیہودیہ کےقتل کرڈالنے کےواقعہ کو خافظ نے ’’اصابہ ،، 3؍34 میں بحوالہ واقدی وابن السکن  وابو احمد العسکری وابوالعباس السراج وبغوی ذکر کیا ہے ۔واقدی کی روایت میں اتنی اورزیادتی بھی ہے ’’ فکان ( ای رسول اللہ ﷺ ) اول من  قالھا (ای الجملة المذکورة ) فساربھا المثل اور ابن عبدالبر نے ’’ استیعاب ،، میں جملہ مذکورہ کےآخر میں یہ الفاظ بھی ذکر کیے ہیں’’ فی داربنی خطمۃ ،، یعنی عصماء کے قتل کی وجہ سےمحلہ بنی خطمہ میں دوبکریا ں بھی نہیں لڑیں گی ۔

عصماء کےواقعہ قتل کوابن ہشام نےبھی  سیرۃ 2؍637 میں نقل کیا ہے ۔جملہ مذکورہ ’’ لاینتطح فیھا عنزان ،، کامختصر ترین الفاظ میں یہ مطلب ہے  أی أن شأنھا ھین ، لا یکون فیھا ثأرولا اختلاف اس مضمون و مفہوم اورمنشاء مطلب کوابن اثیر جزری  نےنہایہ 4؍162میں بایں الفاظ بیان کیا ہے :’’ أى لايلتقى فيها اثنان ضعيفان ، لأن النطاح من شأن التيوس والكباش لا العنوز ، وهوإشارة الى قضية مخصوصة ، لا يجزى فيها ونزاع ،، انتهى .

ابن درید کا مقصد یہ کہ آنحضرت ﷺ اس فقرہ میں  اصناف غنم میں سےخاص غنز (الانثی من المعز ) بیان کیا ہے یعنی : بکری کواس لئے  ذکر فرمایا بکری درسری بکری کوسونگھ کر الگ ہوجاتی ہے ۔ لڑتی نہیں ہے۔بخلاف مینڈھے اورنردنبے  کے، اوربکرے بھینسے اورسانڈ کے کہ وہ فورا خود آپس میں لڑنے لگتے ہیں۔مقصد یہ ہے کہ عصماء کے قتل کاواقعہ حق بخانب ہونے کی وجہ سے ایک بہت معمولی اورحقیر واقعہ ہے۔اس کی وجہ سےکوئی نزاع اورباہمی اختلاف وسقاق نہیں رونما ہوگا ، اس کی خاندان میں کوئی بھی اس کی قصاص اور خون کےبدلے کا طلب گار نہیں  ہوگا ، وہ اپنی جرم عظیم کی وجہ سے مباح الدم تھی اپنے کیفر  کردار کوپہنچ کئی ، ا س لیے اے عمیر  ! تم کوکوئی اندیشہ اورفکر نہیں کرنا چاہیے ۔

ابن درید آگے یہ بیان کررہےہیں کہ آں حضرت ﷺ کا یہ ارشاد جوصرب المثل ہوگیا ہے کہ عدی بن حاتم ﷜ کو مقولہ ’’لا تحبق فیھا عنز ،، ( وفی أسدالغابۃ 3؍ 394)،  ’’عناق ،، ( وھی الأنثی من أولاد المعز قبل استکمالھا السنة ) سےکہیں زیادہ بلیغ اوربر محل وبمطابق  واقع اورشائستہ ولطیف ہے۔جس کوانہیوں نے شہادۃ عثمان ﷜ کےموقع پر کہا تھا۔عدی بن حاتم ﷜ حضرت عثمان ﷜ سےمطمئن نہیں تھے ۔بلکہ ایک طرح سے ان سے ناخوش تھے، ان کا مقصد یہ تھا کہ حضرت عثمان ﷜ کےقتل کا واقعہ اتنا معمولی اورغیر اہم ہےکہ اس سلسلہ میں بکریاں پادیں گی بھی  نہیں ، لیکن جب جنگ جمل یا صفین میں جوحضرت عثمان ﷜ کی شہادت کےنتیجہ میں پیش آئی تھی ، حضرت عثمان ﷜ کی معاونت کےموقع پر حضرت عدی کی ایک آنکھ پھوڑدی گئی ، اوران کے بیٹے محمد قتل کردیے گئے اوردوسرے بیٹے طریف خوارج کی جنگ میں مقتول  ہوگئے ، توحالات میں سکون پیدا ہونے کےبعد حضرت عدی ﷜ سے کسی نے یا خاص حضرت معاویہ ﷜ نےبطور طنز کہا :’’ ھل حبقت العنز فی قتل عثمان ؟ ،، یعنی : عثمان  ﷜ کے قتل کے نتیجہ اورسلسلے میں بکریوں نے پادایا نہیں ؟ حضرت  عدی ﷜ نےجواب دیا : ہاں ضرور پادااور بڑے نرنے محض پادا ۔ یہ اس امر کا اعتراف تھا کہ ان کا قول  ’’ لا یبحق فی قتل عثمان عناق ،، یعنی : ان کی یہ پیشین  گوئی یا اندازہ غلط تھا ۔ عبیداللہ رحمانی مبارکپوری 7جمادی الاولی 1387ھ

    (مکتوب بنام مولانا محمد امین اثری ) 

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 1

صفحہ نمبر 140

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ