سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(13) اللہ تعالی کے اسماء وصفات کے معانی کے مطابق اخلاق اختیار کرنا

  • 15138
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-18
  • مشاہدات : 2488

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اللہ تعالی کے اسماءوصفات کے معانی کے مطابق اخلاق اختیار کرنا

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

آپ کا مؤرخہ۲۳مارچ۱۹۸۶ءکا لکھا ہوا مکتوب گرامی موصول ہوا جس میں آپ نے یہ سوال بھی پوچھا ہے کہ ایک خطیب صاحب نے خطبۂ جمعہ میں اس بات کی ترغیب دی کہ اللہ تعالیٰ کی صفت کو اپنایا جائے اور اس کے اخلاق کو اختیار کیا جائے۔کیا اس کلام کا کوئی وزن اور مقصد ہے اور ان سے پہلے بھی کسی نے یہ بات کی ہے یا نہیں؟۔۔۔۔۔الخ

اس کا جواب یہ ہے کہ یہ تعبیر نامناسب ہے لیکن اس کا محمل صحیح ہے اور وہ ہے اللہ تعالیٰ کی صفات کے تقاضے اور اس کے اسماءحسنیٰ کے مطابق اخلاق اختیار کرنے کی ترغیب وتلقین،لیکن یہاں صفات سے مراد اللہ تعالیٰ کی وہ صفات ہیں جن کے تقاضا کے مطابق متصف ہونا مخلوق کے لئے مستحسن ہے۔یہاں وہ صفات مراد نہیں ہیں جو محض اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی کے ساتھ مخصوص ہیں مثلا اس کا خلاق،رزاق اور الہٰ ہونا کہ اس طرح کی صفات کے ساتھ موصوف ہونا مخلوق کے لئے ممکن ہی نہیں ہے اور نہ کسی کے لئے یہ دعویٰ کرنا جائز ہے کہ وہ ان صفات سے موصوف ہے،اسی طرح ان صفات سے مشابہ اسماءحسنیٰ کا بھی یہی حکم ہے،لہٰذا یہاں وہ صفات مراد ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ یہ پسند فرماتا ہے کہ اس کے بندے ان کے تقاضوں کے مطابق اتصاف پذیر ہوں مثلا علم،قوت حق،رحمت،حلم،جودوکرام اور عفو وغیرہ،چنانچہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ علیم ہے تو وہ علماء سے محبت کرتا ہے۔وہ قوی ہے تو کمزور مومن کی نسبت قوی مومن سے محبت فرماتا ہے۔وہ کریم ہے۔کرم کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔وہ رحیم ہے۔رحم کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔وہ معاف کردینے والا ہے،معاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔۔۔۔۔۔الخ۔لیکن اللہ تعالیٰ کی یہ صفات اور اس کی دیگر صفات مخلوق کی نسبت اکمل واعظم ہیں بلکہ خالق اور مخلوق کی صفات کا کوئی مقانلہ ہی نہیں کیونکہ صفات وافعال میں کوئی چیز اس جیسی نہیں ہے جیسا کہ ذات کے اعتبار سے بھی کوئی چیز اس جیسی نہیں ہے۔مخلوق کے لئے بس اتنی بات ہی کافی ہے کہ اسے ان صفات کے معانی میں سے کچھ حصہ مل جائے جو اس کے مناسب حال ہو اور پھر وہ اسے دائرۂ شریعت کے اندر استعمال کرے مثلا اگر کوئی جودوکرم میں شرعی حد سے تجاوز کرے گا تو یہ اسراف ہوگا،اگر کوئی رحمت کے اظہار میں دائرۂ شریعت سے تجاوز کرے گا تو اس سے شرعی حدودوتعزیرات معطل ہوجائیں گی،اسی طرح اگر کوئی شخص شرعی حد سے بڑھ کر معانی دے تو یہ بھی معانی کا غلط استعمال ہوگا۔یہ چند مثالیں ہیں،اس سلسلہ میں باقی صفات کا بھی یہی حکم ہے۔

علامہ ابن قیمؒ نے اپنی کتابوں‘‘عدۃ الصابرین’’اور‘‘الوابل الصیب’’اور شائد‘‘مدارج’’اور‘‘زاد المعاد’’کے علاوہ دیگر کتابوں میں بھی اس مسئلہ کو بیان فرمایا ہے،چنانچہ‘‘عدۃ’’اور‘‘وابل’’کے حولے پیش خدمت ہیں۔

علامہ ابن قیمؒ‘‘عدۃ الصابرین’’کےص۳۱۰پر رقم طراز ہیں کہ جب اللہ سبحانہ وتعالیٰ حقیقی معنوں میں شکور ہے تو اپنی مخلوق میں سے اسے وہ شخص زیادہ پسند ہوگا جو صفت شکر سے متصف ہو اور اسے وہ بےحد ناپسند ہوگا جو صفت شکر کو معطل کردےیاناشکری کی صفت سے موصوف ہو۔اسی طرح اسماء حسنی کا معاملہ ہے کہ اللہ تعالی کو اپنی مخلوق میں سے وہ سب سے زیادہ پسند ہیں جو اسماء حسنی کے موجب متصف ہوں اور وہ اسے سب سے زیادہ ناپسند ہیں جو ان کے اضداد کے ساتھ موصوف ہوں۔یہی وجہ ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کو کافر،ظالم،جاہل،سنگدل،بخیل،بزدل اور ذلیل وکمینہ انسان سے نفرت ہے جب کہ وہ ذات گرامی جمیل ہے تو حسن وجمال سے اسے محبت ہے۔وہ علیم ہے تو علماءکو وہ پسند فرماتا ہے۔وہ رحیم ہے تو رحمدل لوگوں پر اسے پیار آتا ہے۔وہ محسن ہے تو وہ احسان کرنے والوں کو چاہتا ہے۔وہ ستیر ہے تو اہل ستر سے اسے محبت ہے۔وہ قادر ہے تو عجز ودرماندگی پر ملامت کرتا ہے اور کمزور مومن کی نسبت قوی مومن کو زیادہ پسند فرماتا ہے۔وہ معاف کرنے والا ہے تو معاف کرنے والوں کو پسند بھی کرتا ہے۔وہ وتر ہے تو وتر سے محبت کرتا ہے۔الغرض اللہ تعالیٰ کو جس جس چیز سے بھی محبت ہے تو وہ اس کے اسماءوصفات کے آثار وموجبات ہیں اور جس جس چیز سے بھی اسے نفرت ہے تو وہ اس کے اسماءوصفات کی منافی ومخالف اشیاء ہیں۔

اسی طرح علامہ ابن قیمؒ نے‘‘الوابل الصیب’’ص:۴۲ پر لکھا ہے کہ جو رب جل جلالہ کی صفات میں سے ایک صفت ہے کہ وہ عطا فرماتا ہے اور لیتا نہیں،وہ کھانا کھلاتا ہے اور خود کھاتا نہیں،وہ سب سے بڑھ کر جودوسخا کا مظاہرہ فرمانے والا ہے،وہ سب سے زیادہ کرم فرمانے والا ہے۔مخلوق میں سے بھی اسے سب سے زیادہ پسند وہ ہے جو ان صفات کے تقاضوں سے موصوف ہے کہ وہ کریم ہے،کرم کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے،وہ عالم ہے،علماء کو پسند فرماتا ہے،وہ قادر ہے بہادر لوگوں سے اسے محبت ہے،وہ جمیل ہے،حسن وجمال کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔’’

امید ہے کہ میں نے جو کچھ ذکر کیا یہ کافی ہوگا اور اس سے فائدہ بھی حاصل ہوگا۔اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو دین میں فقاہت(سمجھ)عطا فرمائے اور دین کے حق کو ادا کرنے کی توفیق بخشے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

مقالات و فتاویٰ

ص129

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ