سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(91) اہل میت کے لیے کھانا پکانا

  • 14700
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 2913

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

وفات کے وقت طعام کا بندوبست  کن لوگوں کی طرف سے ہونا چاہئے  اور کتنے دنوں کے لیے ہونا چاہئے ۔ نیز موجودہ رائج سسٹم کس حد تک درست ہے ؟

(حافظ محمد واہد ،فیصل آباد)

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جس گھر میں فوتیدگی ہو جائے تو ان کے طعام کا بندوبست میت کے قریبی رشتہ دار وں یا پڑوسیوں کو کرنا چاہئے  کیونکہ حدیث میں آتا ہے :

(( عن عبد الله بن جعفرقال  لما جاء نعى جعفر  قال النبى صلى الله عليه وسلم إصنعوا لأل جعفر طعما فقد أتاهم ما يشغلهم ))

عبد اللہ لن جعفر نے کہا کہ جب جعفر ﷜کی وفات  کی خبر آئی تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جعفر ﷜ کے گھر والوں کے لیے کھنا تیار کرو ان کے باس ایسی چیز آئی ہے  جو ان کو مشغول رکھے گی۔( مستدرک حاکم 1/372،ابو داؤد2/59، ترمذی 2/137)

اس حدیث  کو امام حتکم نے صحیح کہا ہے اور امام  ذہبی نے تلخیص میں ان کی موافقت کی ہے ۔ امام ابن سکن  نے بھی اسے صحیح کہا ہے ۔یعنی سیدنا  جعفر غزوۃ  مۃتہ میں شہید ہوئے جب شہید ہوئے جب انکی شہادت کی خبر آئی  تو اللہ کے رسول اللہ  ﷺ نے لوگوں کو کہا کہ جعفر  کے گھر والوں  کے لیے کھانا تیار کرو  کیونکہ وہ تو پریشانی میں  مبتلا ہیں ، کھانا نہیں پکا سکیں ۔ اس کھانے کو عام لوگوں کے لیے دعوت کی صورت بنا  لینا  درست نہیں ہے اور نہ ہی میت کے گھر والوں کے لیے کھانا تیار کرنا چاہئے بلکہ یہ لن کے عزیز و اقارب کا حق ہے ۔ جیسا کہ سیدنا جریر بن عبد اللہ سے مروی ہے کہ :

(( كنا نرى الإجماع إلى أعل الميت و صنعة الطعام  من  النياحة ))

’’ ہم اہل میت کے ہاں  جمع ہونا اور وہاں کھنا تیار کرنا نوحہ شمار کرتے تھے ‘‘

(ابن ماجہ 1/513(1612) احمد حدیث نمبر 6905 ، 11/ 125،126 پر ان الفاظ سے یہ روایت مروی ہے :

(( كنا نعد الإجماع إلى أهل الميت و صنيعة  الطعام بعد دفنه  من النياحة.))

’’ ہم اہل میت کے ہاں جمع ہونا اور میت کے دفن کے بعد وہاں کھانے کا انتظام کرنا نوحہ شمار کرتے تھے ‘‘ اور نوحہ شریعت میں حرام ہے ۔

 شیخ احمد محمد شاکر مسند احمد کے حاشیہ پر اس کی یوں شرح کرتے ہیں کہ :

" والمراد بصنعة الطعام هنا : ما يصنعه أهل الميت لضيافة  الواردين للعزاء  زعموا فإن السنة أن يصنع الناس الطعام لأهل  الميت لا أن يصنعوهم للناس لقوله صلى الله عليه وسلم ... إصنعوا لأل جعفر طعاما ."

صنعۃ الطعام کا مطلب یہ ہے کہ اہل میت ان بوگوں کے لیے جو ان کے ہاں تعزیت کے لیے تے ہیں کھا نا تیار کریں ...حالانکہ سنت یہ ہے کہ لوگ اہل میت  کے لیے کھانا تیار کریں  نہ اہل میت لوگوں کے لئے ۔ اس لیے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے جب جعفر ﷜ شہید ہوئے تو کہا تھا کہ آل جعفر کے لیے کھا نا تیار کرو۔ علامہ ابن ہمام نے فتح القدیر 1/437 میں ایسے کھانے کے متعلق لکھا ہے ’’ وھی بدعة قبیحة‘

یہ قبیح بدعت ہے ۔ اس مسئلہ پر ائمہ اربعہ اور اور دیگر محدثین کا اتفاق ہے جیسا کہ الفتاح الربانی۸/۹۰ میں مرقوم ہے۔

            البتہ جو مہمان دور دراز سے تعزیت کیلئے آتے ہیں ان کیلئے کھانے کا بندوسبت کرنا درست ہے کیونکہ وہ اہل میت کے طعام کے ضمن میں ہی آتے ہیں ۔

            اور ہمارے ہاں جو براردری سسٹم رائج ہے اس میں یہ خرابی ہے کہ یہ کھانا عوض و معاوضہ بن چکا ہے اور جتنی دیر تک اس کھانے کا عوض نہ دیا جائے اتنی دیر تک برادری والے اس کو قرض سمجھتے ہیں ۔ ہمیں یہ خرابی دور کر کے صحیح سنت کے مطابق کام کرنا چاہئے اللہ تعالیٰ توفیق دے۔ آمین 
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

ج 1

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ