سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(90) میت کے لئے اظہار غم کی غیر شرعی شکلیں

  • 14699
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-18
  • مشاہدات : 3365

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

زید اہلحدیث تھا وہ فوت ہوگیا ۔ اس کی اولاد نہ اہل حدیث ہے نہ ہی بریلوی۔ اس کے علاوہ دوسرے تمام رشتہ دار بریلوی ہیں جو کہ زید کی وفات پر تیسرے دن قل کرانا چاہتے تھے۔ چونکہ زید کے بیٹے کچھ نہ کچھ اہل حدیثوں والا ذہن رکتھے تھے۔ اسلئے وہ قل، ساتے ، چالیسویں وغیرہ کو نا جائز سمجھتے ہیں ۔ انہوں نے تیسرے دن بجاے قل کروانے کے ایک پروگرام بنایا جس میں ایک اہلحدٰث عالم دین کو بلا کر تقریباً ایک گھنٹہ تقریر کروائی اور بعد میں آنے والے مہمانوں کو کھانا کھلایا۔ جس پر کسی قسم کا ختم وغیرہ نہیں دیا گیا تھا ۔ کیا دعوت دین کی غرض سے ایسا کرنا عالم کیلئے یا ورثاء کیلئے جائز ہے؟ کیا ایسی ہی دعوت کی غرض سے کوئی پکا اہلحدیث یا غیر اہلحدیث اس قسم کا پروگرام کروا سکتا ہے ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مرنے والے پر نوح خوانی جاہلیت کا عمل ہے۔ صحیح مسلم میں ابو مالک اشعری سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت میں چار چیزیں جاہلیت کے کاموں میں سے ہیں جنہیں وہ نہیں چھوڑیں گے۔ ان میں سے ایک چیز نیاحۃ ( بین کرنا ) شمار فرمائی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ نوح کرنے والی موت سے پہلے توبہ نہ کرے تو قیامت کیا دن اس حال میں کھڑی کی جائے گی کہ اس پر گندھک کی قمیض اور خارش کا کرتہ وہ گا۔

(بخارى ,مسلم , مشكوة  باب البكاء على الميت)

            نوحہ ایک شکل یہ بھی کہ میت کے دفن کے بعد میت کے گھر میں اجتماع کیا جائے اور کھانا تیار کیا جائے۔ مسند احمد میں جریر بن عبداللہ الجبلی سے روایت ہے فرماتے ہیں :

"كنا نعد الإجتماع إلى أهل الميت  و صنعة الطعام بعد دفنه من النياحة "

            '' یعنی ہم ( صحابہ کرام ) میت کے گھر والوں کی طرف اکٹھ کرنا اور کھانا تیار کرنا نوحہ میں شمار کرتے تھے "(نیل الوطار ، ص۹۷، ج۴)

            اس حدیث کی سند صحیح ہے اور اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک جلیل القدر صحابی سے صراحت آئی ہے کہ صحابہ کرام اس قسم کے اجتماع اور کھانا تیار کرنے کو نوحہ ( بین کرنا ) شمار کرتے تھے۔ کیونکہ یہ بھی اظہارِ غم کی ایک  مذموم صورت ہے جس میں اہل میت پر بے جا بوجھ ڈالاجاتا ہے ۔ کھانا تیار کرنے کی ناروا مشقت ڈالی جاتی ہے اور بلا ضرورت تمام کام چھوڑ کر اکھٹے ہونے کا بے جا اہتمام کیا جاتا ہے۔ غیر مسلموں کو دیکھا دیکھی بر سی منانے کا سلسلہ بھی اظہار غم کی ایک ایسی ہی صورت ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں بلکہ صحابہ کرام بلکہ خالص کفار کی رسم ہے۔ کفار کی کئی اور رسمیں مثلا تیجا ، ساتواں، دسواں، چالیسواں بھی مسلمانوں میں داخل ہو گئی ہیں۔ نوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ جو شخص ان رسوم میں حاضر نہ ہو اسے مطعون کیا جاتا ہے کہ اسے مرنے والے کا کوئی غم اور صدمہ نہیں ۔ چنانچہ ملامت کے خوف سے مجبوراً لوگ ان رسموں میں پہنچتے ہیں ۔

            بعض لوگ نے تو میت کے گرھا س قسم کے اجتماعات مثلاً تیجے، ساتویں، دسویں، چالیسویں اور برسی کو دین ہی بنا لیا ہے۔ انہیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ ان دنوں میں اس طریقے سے اکٹھ کرنا، کھانا پکانا، مولوی صاحب کا اس پر ختم پڑھنا، نوحہ کی ایک صورت ہونے کے علاوہ ہندؤن کی نقالی ہے۔ اور ان دنوں میں وہ بھی اکٹھ کرتے اور کھانا تیار کرتے ہیں جس پر ان کی پنڈت با قاعدہ اپنی کتاب پڑتھے ہیں ۔ ان حضرات کا علماء بھی ان کاموں کو کار ثواب قرار دینے کیلئے دلائل گھڑتے رہتے ہں کیونکہ عوامی دین اختیار کرلینے کی وجہ سے ان کا کام یہ نہیں کہ قرآن و سنت کے ساتھ لوگوں نے جو رسوم اختیار کر لی ہیں ، انہیں قرآن و سنت سے ثابت کریں۔ خواہ ان کا قرآن و سنت سے دور کا تعلق بھی نہ ہو ۔

بعض لوگ جو کسی اہل حدث کے گھر میں پیدا ہو گئے مگر اتباع سنت سے اپنے آپ کو آراستہ نہ کر سکے ، نہ بدعت سے اجتناب  کا جزبہ قائم  رکھ سکے عجیب مشکل میں گرفتار ہیں ۔ ان رسوم میں شریک نہیں  تو اپنے آپ میں اتنی ہمت نہیں پاتے کہ جاہلانہ رسوم میں مبتلا حضرات مے ملامت برداشت مر سکیں ۔ یہ لوگ ان رسوم کو جائز کرنے کے لیے حیلے تلاش کرتے رہتے ہیں ۔ ان میں سے ایک حیلہ یہ ہے حو آپ نے ذکر کیا ہے ۔یہ لوگ تیسرے دن مولوی صاحب کی تقیریر کروا لیتے ہیں اور ساتھ کھنا کھلادیتے ہیں ۔ حالانکہ اس موقعہ پر میت والوں کے ہاں اکٹھ کرنا ، کھانا تیار کرنا اظہار غم کی ایک صورت ہے جسے صحابہ کرام ﷢ نے اس موقع پر کبھیاس قسم کا اجتماع کیا ہے نہ کھانے کا انتظام کیا ہے ۔

عورتوں میں یہ کام مردوں سے بھی زیادہ  ہے ختی کہ بعض اہلحدیث مدارس کی مقررہ خواتین باقاعدہ اس قسم کی مجالس میں شریک ہوتی ہیں اور اپنے خیال میں لوگوں کو قل اور ختم کی بدعات سے بچاتی  ہیں ۔ انہیں معلوم نہیں کہ وہ دوسروں کو بدعت سے بچاتے بچاتے خود ایک بہت بڑے گناہ میں مبتلا ہو گئی ہیں ۔ کیونکہ اس پر  اجتماعی اور کھانا نوحہ کی ایک قسم ہے اور بجاے خود ایک عبادت ہے ۔

ہاں کسی کی موت کی خبر ےنے پر اس کے گھر والوں کے لیے کھانا تیار کر کے بھیجنا سنت ہے کیونکہ اس وقت گھر والے غم  و اندوہ کی زجہ سے کھنا پکانے کی طرف توجہ ہی نہیں کر سکتے ۔

((عن عبد الله بن جعفر قال لما جاء نعى جعفر قال النبى صلى الله عليه وسلم اصنعوا لأل جعفر طعاما فقد اتاهم ما يشغلهم))

’’عبد اللہ بن جعفر فرماتے ہیں کہ جب جعفر ﷜ کی موت کی خبر آئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ جعفر ﷜ کے گھر والوں کے لیے کھانا تیار کرو کیونکہ ان کے پاس ایسی چیز آئی ہے جس نے انہیں مشغول کر دیا ہے ۔‘‘رواہ الترمذی و ابو داؤد و ابن ماجہ ( مشکوة باب البکاء على المیت )

امام شافعی ﷫ نے فرمایا :

" و أحب لحيران الميت  او ذى قرابة أن يعملوا لأهل الميت فى بوم يموت و ليلة  طعاما  يشبعهم  فإن ذلك و ذكر كريم  وهو من فعل أهل الخير قبلنا و بعدنا لأنه لما جاء نعى جعفر طعاما فإنه جآءهم ما يشغلهم.))

’’ یعنی میں میت کے رشتہ داروں  کے لئے پسند کرتا ہوں کہ وہ میت کی وفات کے دن اس کے گھر والوں کے لیے اتنا کھانا تیار کریں کہ وہ سیر ہو جائیں ۔ کیونکہ جب جعفر ﷜ کی موت کی خبر آئی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا آل جعفر کے لیے کھنا تیار کرو کیونکہ ان کے پاس وہ چیز آئی ہے جس نے انہیں مشغول کر دیا ہے ‘‘( کتاب الام ص317:ج 1)

اس حدیث سے اس دن میت کے گھر والوں کے پاس آنے والے مہمانوں کا کھا نا تیار کر کے بھیجنے کی ترغیب  بھی ملتے ہے ۔ کیونکہ ظاہر ہے کہ جب زہ اپنے لیے کھانا تیار نہیں کر سکتے  تو مہمانوں کے لیے کھانا کیسے تیار کر سکیں گے ۔مگر اس حدیث کا مروجہ قل ساتویں  وغیرہ سے کوئی تعلق نہیں نہ ہی کھانا تیار کر کے جلسے کے نام پر تعزیتی ماتمی اجتماع کا کوئی تعلق  ہے ۔ میت کے گھر والوں کے پاس تعویت کے لیے جانا بھی مسنون ہے مگر اس کے لیے باقاعدہ اجتماع کرنا اور اسی کا دن مقرر کرنا درست  نہیں ۔ قدرتی طور پر جیسے جیسے لوگ آتے جائیں تعزیت کر کے واپس چلے جائیں ۔

            خلاصہ یہ ہے کہ میت کے گھر میں اس قسم کا اجتماع اور کھانا نوحہ خوانی میں شامل ہے اور در حقیقت  ماتمی اجتماع ہے ۔ اس لیے اس میں شریک ہونا جائز نہیں ۔خواہ تبلیغ  جین کے بہانے سے ہو  کیونکہ نا جائز کام کو دین کی تبلیغ کا ذریعہ سمجھنا  درست نہیں جیسے کہ آج کل اقامت دین کی دعوے دار جماعتیں قوالی ، تصویر کشی، موسیقی، بھنگڑے ،ڈرامے ، یوم پیدائش، برسی  وغیرہ کو اپنے خیال میں اقامت دین کے لیے استعمال کر رہی ہیں ۔دعوت و تبلیغ کی صرف وہی صورتیں  جائز ہیں جن میں کوئی شرعی قباحت نہ پائی جائے ۔ بلند مقاصد کے لیے  ذرائع بھی صاف ستھرے ہونے چاہئیں ۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

ج 1

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ