سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(126) قرآن مجید کو غلط پڑھنا

  • 14229
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 4655

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

1- جو شخص قرآن عزیز غلط پڑھتا ہے شریعت میں اس کا کیا حکم ہے؟

۲۔  جاہل اور بےعلم امام کے پیچھے عالم شخص کی نماز ہو سکتی ہے یا نہیں؟

۳۔ ایک امام قرآن مجید کے اعراب وغیرہ کا کوئی خیال نہیں کرتا، اس کے متعلق حکم شرعی کیا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اگر کوئی شخص جان بوجھ کر قرآن مجید غلط پڑھتا ہے تو ایسا آدمی سخت مجرم، گناہ گار اور واجب التعزیر ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ قرآن عزیز ایسے شخص پر لعنت کرتا ہے کیونکہ ایسا شخص تحریف لفظی کا مرتکب ہوتاہے اور تحریف لفظی کفر کے مترادف ہے۔ ایسے آدمی کو توبہ کرنی چاہیے۔ اگر جان بوجھ کر نہیں بلکہ کوئی اور وجہ ہے مثلاً لکنت وغیرہ، تو پھر ایسا شخص مجبور ہے۔ تاہم اسے بھی اپنی بساط تک صحیح پڑھنے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے۔ اگر وہ اس کو شش میں لگا رہے گا تو ان شاءاللہ اسے دوگنا ثواب ملے گا۔ خدا توفیق ارزانی فرمائے۔ حدیث میں ہے:

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا أَذِنَ اللَّهُ لِشَيْءٍ مَا أَذِنَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَغَنَّى بِالقُرْآنِ» ، وَقَالَ صَاحِبٌ لَهُ: يُرِيدُ: أَنْ يَجْهَرَ بِهِ۔ (صحیح بخاری: ص۷۵۱ج۲ باب من لم یتغن بالقرآن)

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اتنا متوجہ ہو کر کسی چیز کو نہیں سنتا جتنا قرآن کی طرف متوجہ ہو کر سکتا ہے۔ جب پیغمبرﷺ اس کو خوش آوازی سے پڑھتے ہیں۔‘‘

ابو سلمہ راوی حدیث کو ایک دوست عبدالحمید بن عبدالرحمٰن کہتا تھا۔ اس حدیث میں یتغنی بالقرآن سے یہ مراد ہے کہ پکار کر اس کو پڑھے۔ علمائے حدیث نے لم یتغن بالقرآن کے تین مطلب بیان کئے ہیں:

۱۔   قرآن مجید کوہی کافی سمجھنا چاہیے، دوسرے مذاہب کی کتب کا مطالعہ غیر ضروری سمجھنا چاہیے۔

۲۔  دوسری جماعت کا خیال ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو قرآن کو نعمت عظمی سمجھ کر اس کی وجہ سے غنی اور بےپروا نہ رہے بلکہ دنیا داروں کی خوشامد کرے اور ان سے اپنی احتیاج بیان کرے، ایسا شخص مسلمان نہیں۔

۳۔  اہل علم کی تیسر جماعت کا خیال ہے کہ جو شخص قرآن مجید کو خوش آوازی سے نہ پڑھے وہ گناہ گارہے۔ بہرحال اس حدیث کا جو بھی مفہوم ہو، یہ بات واضح ہے کہ قرآن مجید کو صحت کے ساتھ پڑھا ضروری ہے۔ حافظ ابن حجرؒ اس حدیث کے ذیل لکھتے ہیں:

اما تحسین الصوت وتقدیم حسن الصوت علی غیرہ فلا نزاع فی ذلک۔ (فتح الباری: ص۶۴ج۹طبع مصیر)

’’قرآن مجید کو خوش آوازی سے پڑھنا اور خوش آواز قاری کو امام بنانے میں کوئی نزاع نہیں ہے۔‘‘

أَجْمَعَ الْعُلَمَاءُ عَلَى اسْتِحْبَابِ تَحْسِينِ الصَّوْتِ بِالْقُرْآنِ مَا لَمْ يَخْرُجْ عَنْ حَدِّ الْقِرَاءَةِ بِالتَّمْطِيطِ فَإِنْ خَرَجَ حَتَّى زَادَ حَرْفًا أَوْ أَخْفَاهُ حَرُامَ۔ (فتح الباری ص۶۳ج۹)

’’قرآن مجید کو خوش آوازی سے پڑھنا بالا جماع مستحب ہے۔ بشرطیکہ وہ قراءت معروفہ کی حد سے متواجز نہ ہو اور کوئی حرف چھوڑ دینا یا کسی حرف کا اضافہ کرنا حرام ہے۔

بہرحال خوش آوازی جبھی مستحب ہوگی جب وہ صحت الفاظ کے ساتھ ہو، ورنہ نہیں۔ واللہ اعلم

۲۔ جاہل امام کے پیچھے نماز:

جاہل کے پیچھے عالم کی نماز اگر چہ ہو جاتی ہے تاہم عالم آدمی کو چھوڑ کر جاہل کو امام بنانا جائز نہیں ہے۔ کیونکہ امامت کے لیے ایسا آدمی ہونا چاہیے جو عالم اور ماہر قرآن ہو۔

عَن ابن ابی مسعود عُقْبَبة بن عمر وقال قال رسول اللہﷺ یَؤم القَوْمَ أَقْرَاھُمْ لِکِتَاب اللہ۔۔۔۔ الحدیث  رواو احمد ومسلم۔ قال القاضی الشوکانی فی النیل وَقَدْ اُخْتُلِفَ فِي الْمُرَادِ مِنْ قَوْلِهِ: " يَؤُمُّ الْقَوْمَ أَقْرَؤُهُمْ " فَقِيلَ الْمُرَادُ أَحْسَنُهُمْ قِرَاءَةً وَإِنْ كَانَ أَقَلّهمْ حِفْظًا، وَقِيلَ: أَكْثَرهمْ حِفْظًا لِلْقُرْآنِ. وَيَدُلُّ عَلَى ذَلِكَ مَا رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْكَبِيرِ وَرِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيحِ عَنْ عَمْرِو بْنِ سَلَمَةَ أَنَّهُ قَالَ: «انْطَلَقَتْ مَعَ أَبِي إلَى النَّبِيِّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - بِإِسْلَامِ قَوْمِهِ، فَكَانَ فِيمَا أَوْصَانَا: لِيَؤُمَّكُمْ أَكْثَرُكُمْ قُرْآنًا، فَكُنْتُ أَكْثَرَهُمْ قُرْآنًا فَقَدَّمُونِي» (اخرجه ایضا البخاری، ابو داؤد والنسائی)

یعنی قوم کی امامت اللہ کی کتاب (قرآن مجید) زیادہ پڑھنے والا کرے۔ امام محمد شوکانیؒ نے نیل الاوطار میں لکھا ہے کہ محدیثین نے أقراھم (زیادہ پڑھنے والا) کے متعدد معنی لکھے ہیں بعض نے لکھا ہے کہ اس سے مراد وہ ہے جو بہترین طریقہ سے پڑھنے والا ہو۔ اگرچہ قرآن مجید کم ہی یاد ہو۔ اور بعض کے مطابق اس سے وہ شخص مراد ہے جو زیادہ قرآن کا حافظ ہو۔ اس مطلب کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جو طبرانی کبیر میں ثقہ راویوں سے مروی ہے۔ عمرو بن سلمہ سے روایت ہے کہ جب میرے والد اپنی قوم کے اسلام لانے کی خبر لے کر جناب رسول اللہﷺ کی خدمر میں حاضر ہوئے تو میں بھی اپنے والد کے ساتھ گیا تھا۔ آپ نے ہمیں کچھ وصیتیں فرمائی تھیں۔ منجملہ ایک وصیت یہ تھی کہ زیادہ قرآن والا امامت کرے۔ میں زیادہ قرآن جاننے والا تھا، انہوں نے مجھ کو امام بنالیا۔

عن جابر عن النبیﷺ قال لا تَؤُمَّنَّ إِمْرَأَۃٌ رَجُلاً وَّلا أعرابی م ھاجرا وَّلَا یَؤُمَّنَّ فَاجِرٌ مُّؤمِناً إِلا ان یَقْھَرَ بِسُلْطَان یَخَافُ سَوْطه وسیفه۔ (رواہ ابن ماجه)

’’یعنی حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ عورت مرد کی امامت نہ کرائے اور اعرابی مہاجر کی امامت نہ کرائے اور نہ فاجر مومن کی، مگر یہ کہ جبراً امام بن جائے، اپنے کوڑے اور تلوار کے بل بوتے پر، تو ایسی صورت میں مومن کو فاجر کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے۔

ان حدیثوں سے معلوم ہوا کہ عالم کی موجودگی میں جاہل کو منصب امامت چھوڑ دینا چاہیے۔ کیونکہ اس منصب کا اہل نہیں ہے۔

۳۔ اعراب کا خیال نہ کرنے والے کے متعلق شرعی حکم:

ایسا شخص سخت نافرمان ہے۔ کیونکہ رسول اللہﷺ شد، مداور اعراب کا خاص خیال رکھتے تھے۔ چنانچہ صحیح بخاری میں ہے:

قال قتادة سألت انس بن مالک عن قرأة النبیﷺ فَقَالَ کَانَ یَمُدُّ مَدًّا۔ (باب مد القرأة: ج۱ص۷۵۴)

’’جناب قتادہؒ تابعی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ رسول اللہﷺ کی قراءت کیسی ہوتی تھی؟ تو انہوں نے بتایا: مدکے ساتھ یعنی جس حرف کو لمبا کرنا چاہیے اس کو لمبا کرتے تھے۔‘‘

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اعراب، زبر، زیر، پیش، مدوغیرہ کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ ورنہ معانی میں التباس اور خلل کا اندیشہ ہے۔ لہٰذا ایسا امام جو اعراب کا خیال نہیں رکھتا، ایسے امام کو امامت کے منصب سے رضاکارانہ سبکدوش ہوجانا چاہیے۔ بصورت دیگر اسے امامت سے ہٹا دینا چاہیے۔ تاہم اگر کسی فتنہ کا خطرہ ہوتو مجبوری ہے۔ 

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص421

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ