سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(02) ذبح غیر اللہ شرک ہے

  • 14170
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-18
  • مشاہدات : 1109

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میرے خاندان میں اولیائے کرام کی قبروں پر بکری کے ذبح کرنے کو تقرب کا ذریعہ بنانے کا دستور چلا آرہا ہے…میں نے انہیں منع کیا لیکن ان میں عناد اور زیادہ بڑھ گیا میں نے انہیں کہاکہ یہ تو اللہ سے شرک ہے وہ کہنے لگے۔ ’’ ہم اللہ کی عبادت کو اسی کا حق سمجھتے اور اسی عبادت کرتے ہیں۔ لیکن اگر ہم اولیاء اللہ کی زیارت کریں یا اپنی دعاؤں میں یوں کہیں کہ اپنے فلاں ولی کے طفیل ہمیں شفا عطا فرما،یافلاں مصیبت کو دور کردے تو اس میں گناہ کی کونسی بات ہے میں نے انہیں کہا، ہمارا دین واسطے کا دین نہیں۔ تو وہ کہنے لگے ہمیں ہمارے حال پر رہنے دو۔‘‘

ایسے لوگوں کے علاج سے متعلق آپ کو ن سا حل بہتر سمجھتے ہیں؟ ان کے مقابلہ میں مجھے کیا کرنا چاہیے اور میں اس بدعت کا کیسے مقابلہ کروں؟ شکریہ!


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 کتاب و سنت کے دلائل سییہ معلوم ہو چکا ہے کہ اللہ کے علاوہ دوسروں کے لیے قربانی سے تقرب حاصل کرنا‘ خواہ یہ قربانی اولیاء کے لیے ہو یا جنات کے لیے یا بتوں کے لیے ہو یا کسی بھی دوسری مخلوق کے لیے اللہ کے ساتھ شرک ہے اور ایسے اعمال جاہلیت کے اور مشرکین کے اعمال ہیں۔ ارشاد باری تعالی ہے:

﴿قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَ بِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ﴾

’’ آپ کہہ دیجئے کہ میری نماز ، میری قربانی ، میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ رب العالمین ہی کے لیے ہے ۔ اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھے اسی بات کا حکم ملا ہے اور میں سب سے اول فرمانبردار ہوں۔‘‘ (الانعام: ۱۶۲)

اور نسک کا معنی قربانی ہے اللہ سبحانہ و تعالی نے اس آیت میں یہ وضاحت فرمائی ہیے کہ غیر اللہ کی قربانی اللہ سے ایسے ہی شرک ہے جیسے غیراللہ کی نماز شرک ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ o اِِنَّ شَآنِئَکَ ہُوَ الْاَبْتَر﴾

’’(اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) ہم نے آپ کو کوثر عطا فرمائی ہے تو اپنے پروردگار کے لیے نماز پڑھا کرو اور قربانی دیا کرو۔‘‘(الکوثر: ۱،۲)

اس سورہ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ وہ اپنے پروردگار کے لیے نماز ادا کریں اور اسی کے لیے قربانی کریں۔ بخلاف مشرکین کے کہ وہ غیر اللہ کو سجدہ کرنے اور غیر اللہ کے لیے ہی ذبح کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہے:

﴿وَ قَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِیَّاہُ ﴾

’’ اور تمہارے پروردگار نے طے کردیا ہے تم اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو‘‘ (الاسراء: ۲۳)

﴿وَمَا اُمِرُوْٓا اِِلَّا لِیَعْبُدُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ حُنَفَآئَ ﴾

’’ اور انہیں حکم تویہی ہوا تھا کہ اخلاص عمل کے ساتھ یکسو ہو کر اللہ عبادت کریں‘‘ (البینة: ۲۳)

اس مضمون کی آیات کثیر ہیں کہ قربانی عبادت ہی ہے الہذا اس میں اللہ تعالیٰ اکیلے کے لیے اخلاص واجب ہے اور صحیح مسلم میں امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

﴿لَعَنَ اللّہُ من ذَبَحَ لِغَیرِ اللّہِ﴾

’’ جس نے غیر اللہ کے لیے کی اس پر اللہ نے لعنت کی ہے‘‘

رہی قائل کی یہ بات کہ میں اللہ سے اس کے اولیاء کیحق یا انکی منزلت کے ساتھ یا نبی کے حق یا نبی کی منز لت کے ساتھ سوال کرتا ہوں ، تویہ بات شرک تو نہیں تاہم یہ بات جمہور اہل علم کے نزدیک بدعت اور شرک کا ذریعہ ہے ۔ کیو نکہ دعا عبادت ہے اور اس کی کیفیت تو قیفی امور سے تعلق رکھتی ہے اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی ایسی بات ثابت نہیں جو کسی بھی مخلوق کے حق یا منزلت سے توسل کے جو ازیا اس کی مشرو عیت پر دلالت کرتی ہو۔ الہذ ا کسی مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ ایسا توسل اختراع کرے جو اللہ سبحانہ و تعالی نے مشروع نہیں کیا:

﴿اَمْ لَہُمْ شُرَکَائُ شَرَعُوْا لَہُمْ مِّنْ الدِّیْنِ مَا لَمْ یَاْذَنْ بِہٖ اللّٰہُ ﴾

یا ان کے کچھ شریک ہیں جنہوں نے ان کے لیے ایسا دین مقرر کیاہےجس کا اللہ نے حکم نہیں دیا۔‘‘(الشوری: ۲۱)

اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

((مَنْ أَحْدَثَ فى امرِنا هَذا ما ليسَ منه ُ فهُو ردُّ))

’’ جس نے ہمارے اس امر (شریعت) میں کوئی نئی بات پیدا کی جو اس میں پہلے نہ تھی وہ مردود ہے‘‘

اس حدیث کی صحت پر شخین کا اتفاق ہے اور مسلم کی روایت جسے بخاری نے اپنی صحیح میں تعلیقاذ کر کیا ہے اس کی تاکید کرتی ہے وہ یوں ہے :

((مَنْ أحْدثَ فی أمرِنا ہَذا لیسَ منہُ فھُو ردٌ))

’’ جس نے کوئی ایسا کام کیا جو ہمارے امر (شریعت) میں موجود نہیں وہ مردود ہے‘‘

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول رد کامعنی یہ ہے کہ وہ کام کرنے والے کے منہ پر مارا جائے گا اور قبول نہیں کیا جائے گا۔لہذا مسلمانوں پر واجب ہے کہ جس چیز کو اللہ تعالیٰ نے مشروع کیا ہے اسی کے پابند رہیں اور جو بدعات لوگوں نے پیدا کر رکھی ہیں ان سے بچیں۔ مشروع توسل صرف یہ ہے کہ اللہ کی ذات اس کی صفات اس کی توحید اور عمال صالحہ سے توسل کیا جائے اللہ تعالیٰ اس کے رسولوں پر ایمان نیز اللہ اور اس کے رسول کی محبت اور اسی طرح کے نیکی اوربھلائی کے کاموں سے توسل کرنا چاہیے…اور عمل کرنے کی توفیق بخشے والا تو اللہ تعالیٰ ہی ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ابن بازرحمہ اللہ

جلداول -صفحہ 27

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ