سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(207) مسواک کس ہاتھ سے کرنی چاہیے

  • 1405
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-18
  • مشاہدات : 1508

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مسواک دائیں ہاتھ سے کرنی چاہیے یا بائیں ہاتھ سے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ علیہ نے اپنے فتاویٰ جلد 5 ص21 میں لکھا  ہے:

«یستحب السواک بالید الیسریٰ لآنه دفع القذرات والاذیٰ من الضم ۔ اوکما قال»

’’مسواک بائیں ہاتھ سے کرنا افصل و مستحب ہے کیونکہ وہ منہ کی مکروہ اور قبیح چیزوں کے نکالنے اور دفع کرنےکا سبب ہے۔‘‘

«اقول بتوفیق الموفق۔ ورد فی الحدیث رواه ابونعیم عن ابن عباس مرفوعاً قال السواک یذهب البلغم الحدیث »(تلخیص الحبیر ص25)

یعنی ’’مسواک بلغم کو دفع کرتی ہے پس بناء علیٰ ہذا مسواک بائیں ہاتھ سے کرنا بہتر اور افضل معلوم ہوتا ہے۔‘‘ ۔

تجربہ بھی اس پر شاہد ہے  او راسی کا مؤید ہےکہ واقعۃ مسواک کرتے وقت کئی دفعہ دیکھا گیا ہے کہ منہ سے تھوک، مخاط، بلغم،  لعاب وغیرہ ہاتھ(1) پر گرتے ہیں۔ پس مناسب ہے کہ وہ بائیں ہاتھ پر گریں او ران کو  بائیں ہاتھ ہی سے نکالا جائے۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے۔

«کانت ید رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم الیمنٰی لطهوره و طعامه و کانت یده الیسریٰ لخلائه وما کان من اذی رواه الامام ابوداؤد وقال المنذری اخرجه البخاری و مسلم والترمذی والنسائی و ابن ماجه» (عون المعبود ص13 ص1)

یعنی ’’نبی ﷺ کا دایاں ہاتھ کھانا کھانے اور دیگرپاکیزہ امور کے لیے تھا اور بایاں ہاتھ استنجاء اور اس قسم کے دوسرے کاموں کے لیے۔‘‘

تنبیہہ : حدیث شریف میں آیاہے:

«عن عائشة قالت کان رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم یحب التیامن فی تنعله و ترجله و طهوره وفی شانه متفق علیه۔» (نیل الاوطار ص212 ج2۔ تلخیص الحبیرص32 جلد1۔ «وقال الحافظ ابن حجر فی شرح البخاری» ص135 ج1۔ «زاد ابوداؤد عن مسلم بن ابراهیم عن شعبة و سواکه انتهٰی۔ واقول بتوفیق ربی ان هذه الزیادة فی سنن ابی داؤد موجودة ولله الحمد۔ و لفظ ابی داؤد هکذا۔ کان رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم یحب التیامن ما استطاع فی شانه کله فی طهوره و ترجله و تنعله قال مسلم ابی ابراهیم (احمد رواة الحدیث وهو ثقة) و سواکه ولم یذکر فی شانه کله۔ قال ابوداؤد رواه عن شعبه معاذ ولم یذکر و سواکه عون المعبود» ص218 ج1)

اس حدیث کے متبادر الیالفهم معنی یہی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مسواک دائیں ہاتھ سے کرنا دوست رکھتے تھے۔ شاید محدثین شارحین کتب احادیث رحمۃ اللہ علیہم نے اس حدیث کے ماتحت اسی واسطے یوں لکھا ہے:

«قال النووی هذه قاعدة مستمرة فی الشرع وهی ان ما کان من باب التکریم والتشریف کلبس الثواب والسراویل و الخف و دخول المسجد والسواک والا کتحال و تقلیم الاظفار وقص الشارب و ترجیل الشعر و نتف الابط وحلق الرأس والسلام من الصلوٰة و غسل اعضاء الطهارة والخروج من الخلاء والا کل و اشلرب المصافحة واستلام الحجر الاسود وغیره ذلک مما هو فی معناه یحب التیامن فیه واما من کان بضده کدخول الخلاء والخروج من المسجد والا متخاط والاستجأ و خلع الثوب والسراویل والخف واما شبه ذٰلک فیستحب التیاسرفیه و ذٰلک کله لکرامته الیمین» ( نیل الاوطار ص212 ج1)

مگر اس عاجز کے علم و فہم میں یوں ہے کہ اس حدیث مبارک کا مطلب یہ ہے کہ حضورﷺ کو یہ بات مرغوب خاطر تھی کہ ہر کام کو دائیں ہی طرف سے شروع کیا جائے اور خود بھی دائیں ہی جانب سے شروع کرنا پسند رکھتے تھے اگر وہ کام بائیں ہاتھ سے کرنے والا ہو مگر شروع دائیں ہی ہاتھ سے کیا جائے۔ مثلاً جوتی پہننا، طہارت کرنا، بغلوں کے بال اکھاڑنا، مسواک کرنا یا ناک صاف کرنا وغیرہ وغیرہ۔ میرا مطلب اس سے یہ  ہے کہ اگرچہ یہ سب کام بائیں ہاتھ کئے جائیں مگر ان میں یحب التیامن کی رُو سے دائیں طرف سے ابتدائی کی جائے، جوتی بھی دائیں جانب سے پہلے پہنی جائے، طہارت کرنے میں بھی پہلے دائیں طرف صاف کی جائے۔ بغلیں اکھیڑنے میں بھی پہلے دائیں جانب سے اکھیڑی جائیں۔ مسواک بھی پہلے منہ میں دائیں جانب کی جائے۔ اسی طرح ناک صاف کرتے وقت پہلے دائیں جانب سے بینی صاف کی جائے۔ اس کا عکس مثلاً کُرتہ اتارنا، واسکٹ صدری اتارنی، کوٹ جُبہ اتارنا، پاجامہ اتارنا ہو تو اگرچہ یہ سب دائیں ہاتھ سے اتارے جائیں گے مگر پہلے بائیں جانب سے اتارنے ہوں گے۔ البتہ بعض امور ایسے بھی ہیں کہ بسبب از باب التکریم والتشریف ہونےکے دائیں ہاتھ سے اور دائیں ہی جانب سے شروع کئے جاتے ہیں او رایسا کوئی ایک امربھی نظر نہیں آتا کہ بہ سبب خلاف از باب تکریم و تشریف ہونے کے بائیں ہاتھ اور بائیں ہی جانب سے شروع کیا جائے۔

«ویمکن ان یدخل فیه خلع النعل بالید۔» عالباً بلکہ اغلباً کتب احادیث کے شارحین رحمہ اللہ علیہم نے بھی یہی سمجھا ہے کیونکہ مذکورہ محولہ عبارت میں کوئی ایسا لفظ نہیں جو متبادر الی الفہم معنوں (جو عاجز نے پہلے عرض کئے ہیں) پر دلالت کرتے ہیں۔

نتیجہ: عاجز نے اپنا ذکر کردہ مقصد اس طریق  پر استدلال کرنے سے سمجھا ہے کہ حدیث«کانت یده الیمنی لطهوره و طعامه و کانت یده الیسریٰ لخلائه وما کان من اذیٰ» میں صرف یہ ذکر ہے کہ دایاں ہاتھ طعام و طہور اور عمدہ مبارک کاموں کے لیے ہے او ربایاں ہاتھ استنجا، اذی، نذر وغیرہ قبیح کاموں کے لیے ہے تو گویا اس حدیث میں دونوں ہاتھوں کے معین کاموں کا ذکر آگیا اور حدیث یحب التیامن کا صرف یہی مطلب ہے کہ ہر کام کو دائیں جانب سے شروع کرنا پسند فرماتے تھے (والا استثناء استثناء) دائیں یا بائیں ہاتھ کا اس میں کوئی تعرض یا اشارہ نہیں۔

جواب: حدیث (کانت یده الیمنٰی لطهوره) اسی کو مؤید ہے کہ مسواک دائیں ہاتھ سے ہو کیونہ دوسری حدیث میں مسواک کو مطهرة للفم کہا ہے۔ ابن تیمیہ رحمہ اللہ علیہ کا قیاس کچھ ٹھیک معلوم نہیں ہوتا کیونکہ منہ میں پانی دائیں ہاتھ سے ڈالا جاتا ہے حالانکہ وہ بھی منہ کی میل دور کرنے کے لیے اور اندر کی صفائی کے لیے ہوتا ہے۔ ابن تیمیہ رحمہ اللہ علیہ  کے قیاس سے لازم آتا ہے کہ بائیں ہاتھ سے منہ میں پانی ڈالا جائے، اسی طرح ناک میں پانی دائیں ہاتھ سے ڈالتے ہیں اور احادیث میں بھی اس کی تصریح آئی ہے حالانکہ بعض دفعہ گندے قطرے ہاتھ پر گرتے ہیں مگر یہ اتفاق امر ہے اس لیے اس کا اعتبار نہیں پس ابن تیمیہ رحمہ اللہ علیہ کاقیاس کچھ ٹھیک معلوم ہوتا ہاں ہاتھ گندگی کو لگنا جیسے ناک سنکنے اور استنجاء کرنے کے وقت لگتا ہے تو اس صورت میں بے شک مسواک بائیں ہاتھ سے مناسب تھی۔ مگر مسواک تو منہ اور ناک میں پانی ڈالنے کے بمنزلہ ہے اس لیے ناک سنکنے اور استنجاء کرنے کے ساتھ اس کو مشابہت دینا ٹھیک نہیں۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب


(1)منہ سیدھا سامنے کو رکھے پھر نہیں گرتے۔ نیز یہ اتفاقی امر ہے اس پر حکم مرتب نہیں ہوسکتا۔  12 (’’تنظیم اہلحدیث‘‘)

(2)آہ! آج ہم مجبور ہیں کہ موصوف کے نام سے مرحوم کہیں کیونکہ آپ 10 رجب1352ھ کو عالم بقا کی طرف رحلت فرما گئے۔ انالله وانا الیه راجعون اللهم اغفرو ارحمه۔12 (تنظیم)

فتاویٰ اہلحدیث

مسواک کا بیان، ج1ص282 

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ