سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(08) سفارش کون کرے گا؟

  • 13766
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-24
  • مشاہدات : 6129

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بحرین سے سردار محمد انور لکھتے ہیں۔ اس سے قبل آپ نے نبی پاکﷺ کے وسیلے سے دعا مانگنے کے جواب میں قرآن مجید میں انبیاء کرامؑ کی دعاؤں کا ذکر کیا اور صحابہ کرامؓ کی دعاؤں کا ذکر کیا کہ اس میں کسی وسیلے کی نشان دہی نہیں۔ لہٰذا یہ جائز نہیں ہے۔ یہ ثبوت اپنی جگہ درست ہے لیکن قرآن پاک کے پارہ۲۵(سورہ زخرف:۸۶)میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

’’اور جن کو یہ لوگ اللہ کے سوا پکارتے ہیں وہ ان کی سفارش نہیں کرسکتے البتہ جس نے علم و یقین کے ساتھ حق کی گواہی دی وہ سفارش کرسکتے ہیں۔‘‘

 اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ جس نے میرے نیک بندوں (ولی اللہ) سے عداوت رکھی میں اس کے خلاف اعلان جنگ کرتا ہوں۔ قرب الٰہی حاصل ہونے کے بعد بندہ مومن کی سماعت وبصارت ’ پکڑ و رفتار سب چیزیں اللہ تعالیٰ کی خاص نگرانی میں آجاتی ہیں اور اس کی برکات کے باعث مومن کے اعضاءجسمانی میں گویا قوت الٰہی کام کرنے لگتی ہے اب آپ ہی بتائیں کہ ایسے ولی اللہ سفارش یا وسیلے سے مانگی ہوئی دعا کو جائز کس طرح نہ کہاجائے اور یہ شان تو اس امتی کی ہے جس نے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کیا جب کہ ہمارے نبی کریمﷺ کی مثال تو کہیں زیادہ ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

آپ کے دونوں سوال شفاعت اور وسیلے کے بارے میں ہیں اورہم دونوں مسئلوں کی الگ الگ وضاحت کئے دیتے ہیں۔

پہلا سوال جس کی بنیاد آپ نے سورہ زخرف کی ایک آیت پر رکھی ہے وہ شفاعت کےبارے میں ہے۔ جہاں تک شفاعت کےثابت ہونے کا تعلق ہے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ قرآن وسنت سے ثابت ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کون سفارش کرے گا ؟ کس بات کی کرے گا؟ اور کس کی کرے گا؟

ان تینوں چیزوں کا جاننا ضروری ہے اور قرآن و حدیث کی روشنی میں جب ہم ان تینوں باتوں کو اچھی طرح سمجھ لیں گے تو شفاعت کا مسئلہ اچھی طرح سمجھ میں آجائے گا۔

پہلی: بات یہ کہ سفارس کون کرے گا؟ اس بارے میں قرآن حکیم میں جابجا اس بات کی تصریح ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے سفارش کےلئے وہی لوگ  زبان کھولیں گے جن کی وہ اجازت دے گا آیت الکرسی کے یہ الفاظ کتنے واضح ہیں

﴿مَن ذَا الَّذى يَشفَعُ عِندَهُ إِلّا بِإِذنِهِ...﴿٢٥٥﴾... سورةالبقرة

’’اس کے ہاں اس کی اجازت کےبغیر سفارش کون کرے گا؟‘‘

دوسری: بات یہ کہ جو سفارش کی اجازت حاصل کرکے سفارش کریں گے وہ کن لوگوں کی سفارش کریں گے ؟ قرآن نے اس کی بھی وضاحت کردی کہ وہ ان لوگوں کے بارے میں سفارش کرنے کی جرات کریں گے جن کے بارے میں اللہ انہیں اجازت دے گا۔ارشاد ربانی ہے:

﴿يَومَئِذٍ لا تَنفَعُ الشَّفـٰعَةُ إِلّا مَن أَذِنَ لَهُ الرَّ‌حمـٰنُ وَرَ‌ضِىَ لَهُ قَولًا ﴿١٠٩﴾... سورةطه

’’اس کی شفاعت کسی کو نفع نہیں پہنچائے گی مگر جس کے لئے اللہ اجازت دے اور اس کےلئے کوئی بات کہنے کو پسند کرے۔‘‘

تیسری: یہ چیز کہ صحیح بات میں سفارش کرے گا یعنی غلط کام کی سفارش نہیں ہوگی ارشاد ربانی ہے:

﴿يَومَ يَقومُ الرّ‌وحُ وَالمَلـٰئِكَةُ صَفًّا ۖ لا يَتَكَلَّمونَ إِلّا مَن أَذِنَ لَهُ الرَّ‌حمـٰنُ وَقالَ صَوابًا ﴿٣٨﴾... سورة النباء

’’یعنی جس دن جبرائل سمیت فرشتے صفت بستہ کھڑے ہوں گے۔ رحمن کی اجازت کے بغیر کوئی بات نہیں کرے گا اور وہ بات ٹھیک کہے‘‘

قرآن میں یہ بھی ذکر موجود ہے کہ سفارش کرنے والے بات وہی کریں گے جو ان کے علم میں ہوگی۔ جو بات ان کے بعد ہوئی یا ان کے علم میں نہیں اس کے بارے میں کوئی سفارش نہیں چلےگی۔

جیسا کی حضرت عیسیٰ ؑ کے بارے میں ہے کہ وہ قیامت کے دن فرمائیں گے۔

﴿وَكُنتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَّا دُمْتُ فِيهِمْ...١١٧﴾... سورةالمائدة

’’کہ میں ان پر گواہ رہا جب تک ان میں خود رہا اور جب تونے مجھے اٹھا لیا تو پھر ان کے بارے میں تو ہی خبر رکھنے والا تھا۔‘‘

یہ اور اس طرح کی متعدد آیات قرآنی سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اللہ کے ہاں اس کی اجازت کےبغیر کوئی سفارش نہیں کرے گا اور جوکریں گے وہ حق بات میں اپنے علم کی حد تک کریں گے اس لئے قرآن میں جابجا یہ لفظ آیا کہ انہیں کوئی سفارش نفع نہیں دے گی۔

اب اسے بعد آپ نے جو آیت تحریر کی ہے اس کی مفہوم سمجھنا زیادہ آسان ہے۔

امام قرطبی ؒ اپنی عظیم تفسیر میں سورہ زخرف کی اس آیت ۸۶ کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ:

’’ اللہ کے سوا جن کو وہ پکارتے تھے ان میں عیسیٰ ؑ عزیر اور فرشتے شامل تھے اور ان کے بارے میں یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ وہ ان کی سفارش کریں گے ۔ قرآن نے اس کی نفی کرتے ہوئے کہا کہ اللہ کےسوا سفارش کا کوئی مالک نہ ہوگا۔ ہاں الامن شھد بالحق سوائے اس کے جس نے حق کی گواہی دی‘‘

آگے فرماتے ہیں:

والمعني لا یملک هؤلاء الشفاع الا لم شهد بالحق و امن علی علم و بصیر۔( تفسیر قرطبی ج۱۶ ص: ۱۲۲)

’’اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی سفارش کی طاقت نہیں رکھتا مگر جس نے حق کی شہادت دی اور علم و بصیرت کےساتھ ایمان لائے( انہیں اللہ اس کی اجازت دے گا)‘‘

آگے فرماتے ہیں:

وقیل ای لا یملک هؤلاء العابدون من دون الله ان یشفع لهم احد الا من شهد بالحق فان من شهد بالحق یشفع له ولا یشفع لمشرک۔( تفسیر قرطبی ص: ۱۲۲ ج ۱۶)

’’ یعنی ایک قول اس میں یہ بھی ہےکہ جو اللہ کےسوا غیروں کی پرستش کرنے والے ہیں ان کے لئے کوئی سفارش نہیں کریں گے ہاں ان میں سے جو حق قبول کریں گے ان کےلئے سفارش کی جائے گی مشرک کےلئے سفارش نہیں ہوگی۔‘‘

امام ابن کثیرؒ اپنی تفسیر میں اس آیت کی تفسیر یوں کرتے ہیں

’’ کسی کی سفارش کام نہیں آئے گی اس بات کا استثناء منقطع ہے لیکن جو شخص حق کا اقرار اور شاہد ہو اور خود بھی علم و معرفت والا ہو(یعنی صحیح مسلمان ہو) ایسے شخص کےلئے سفارش کار آمد ہوگی۔ (ابن کثیر ج۵ ص۴۶)

امام طبری نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ:

’’ وہ حضرت عیسیٰؑ اور عزیر کو اپنا سفارشی سمجھ بیٹھے ہوں گے‘‘ مگر ان کی سفارش ان کےلئے ہوگی جو حق کو قبول کریں اور حق بات کو جانتے ہوں کہ اللہ حق ہے۔‘‘ (طبری جلد ۲۴۔۲۷۔ص ۶۲)

بہرحال اس دن سفارش کا اختیار کسی کو نہ ہوگا البتہ اللہ تعالیٰ جنہیں اجازت  دے گا وہ حق بات کی گواہی دیں گے یعنی حق بات میں سفارش کریں گے اجازت ملنے کے بعد۔

احادیث میں بھی رسول اکرمﷺ نے اپنے اقربا ء کے بارے میں واضح فرمایا کہ میری سفارش پر بھروسہ نہ کرنا بلکہ اپنے اعمال درست کرنا۔

اب ظاہر ہےکہ جب پہلی بنیاد ہی یہ ہے کہ اجازت کے بغیر کوئی سفارش نہیں کرے گا اور یہ معلوم ہی نہیں کہ اللہ کس کس کو اجازت دے گا اور کس کو نہیں دے گا۔ تو اگر ہم بزرگوں کو ابھی سفارش کےلئے منتخب  کرلیں یا کہیں کہ فلاں بزرگ میری سفارش کردے گا جب کہ اس بزرگ کے بارے میں فیصلہ تو قیامت کے دن ہو گا کہ اسے سفارش کی اجازت ملے گی بھی کہ نہیں۔ ہاں نبی کریم ﷺ  یقیناً شفاعت فرمائیں گے۔ آپ بھی پہلے اجازت لیں گے لیکن ان کے حق میں سفارش کریں گے جنہوں نے حق کی گواہی دی اور قرآنی تعلیمات پر عمل کیا ورنہ آپ کچھ لوگوں کے خلاف بھی سفارش کریں گے۔ ارشاد قرآنی ہے:

﴿وَقَالَ الرَّ‌سُولُ يَا رَ‌بِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَـٰذَا الْقُرْ‌آنَ مَهْجُورً‌ا ﴿٣٠﴾... سورة الفرقان

’’ کہ اے اللہ! میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑدیا تھا۔‘‘

اب ظاہر ہے جو قرآن کو پس پشت ڈال دیں اور پھر شفاعت کے توقع رکھیں وہ بڑی جہالت اور گمراہی میں ہیں۔ اللہ کے نیک بندے اللہ کے دین کے باغیوں کی کیسے شفاعت فرما سکتے ہیں۔

اور اللہ کی طرف سے اجازت کے بغیر اگر کوئی دعویٰ کرتا ہے اور لوگوں سے کہتا ہے کہ قیامت کے دن میں تمہاری سفارش کروں گا تو وہ بھی جاہل اور دشمن دین ہے۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ہرگز اجازت نہیں دیں گے جو ناجائز سفارش کریں گے۔

اس طرح نبی کریمﷺ کسی کی ناجائز شفاعت ہرگز نہیں کریں گے

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ صراط مستقیم

ص63

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ