سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(533) فمن تعجل فی یومین کا صحیح مفہوم

  • 1375
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 2307

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جو شخص بارہویں دن یہ سمجھتے ہوئے رمی ترک کر دے کہ (قرآن میں) جلدی سے یہی مراد ہے اور پھر مکہ کو چھوڑ دے اور طواف و داع نہ کرے، تو اس کے حج کے بارے میں کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

اس کا حج صحیح ہے کیونکہ اس نے ارکان حج میں سے کسی رکن کو ترک نہیں کیا، البتہ اگر اس نے بارہویں رات منیٰ میں نہیں گزاری، تو اس طرح تین واجبات ترک کر دیے، جو حسب ذیل ہیں: (۱) بارہویں رات منیٰ میں بسر کرنا (۲) باہوریں دن رمی جمار کرنا (۳) طواف و داع۔ اس پر واجب ہے کہ ان میں سے ہر واجب کی طرف سے مکہ میں جانور ذبح کرے اور اسے فقرا میں تقسیم کر دے کیونکہ حج کے بارے میں اہل علم کے نزدیک یہ واجب ہے کہ جب وہ حج کے کسی واجب کو ترک کر دے، تو اس کے فدیے کے طور پر مکہ میں ایک جانور ذبح کر کے اسے فقرا میں تقسیم کر ے۔ اس سائل نے جس غلطی کا ارتکاب کیا ہے اس کے حوالے سے میں اپنے حاجی بھائیوں کی اس طرف توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ بہت سے حاجی یہ سمجھتے ہیں کہ:

﴿فَمَن تَعَجَّلَ فى يَومَينِ فَلا إِثمَ عَلَيهِ...﴿٢٠٣﴾... سورة البقرة

’’پھر جس نے دو دنوں میں (منیٰ سے مکہ کی طرف واپسی کے لیے) جلدی کی تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔‘‘

کا مفہوم یہ ہے کہ وہ گیارہویں دن ہی منیٰ سے نکل جائے، یعنی وہ دو دن سے عید کا دن اور گیارہویں تاریخ کا دن مراد لیتے ہیں حالانکہ یہ غلط ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

﴿وَاذكُرُوا اللَّهَ فى أَيّامٍ مَعدودتٍ فَمَن تَعَجَّلَ فى يَومَينِ فَلا إِثمَ عَلَيهِ...﴿٢٠٣﴾... سورة البقرة

’’اور (قیام منیٰ کے) دنوں میں (جو) گنتی کے (دن ہیں) اللہ کو یاد کرو، پھر جس نے دو دنوں میں (منی سے مکہ کی طرف واپسی کے لیے) جلدی کی تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔‘‘

﴿أیام معدو دات﴾ ’’گنتی کے دنوں‘‘ سے مراد ایام تشریق ہیں، جن میں پہلا دن گیارہویں تاریخ سے ہے، لہٰذا اس صورت میں اس آیت:

﴿فَمَن تَعَجَّلَ فى يَومَينِ فَلا إِثمَ عَلَيهِ...﴿٢٠٣﴾... سورة البقرة

’’پھر جس نے دو دنوں میں (منی سے مکہ کی طرف واپسی کے لیے) جلدی کی تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔‘‘

کے معنی یہ ہیں کہ وہ ایام تشریق کے دنوں میں جلدی کر لے اور دوسرا دن باہوریں تاریخ کا دن ہے، لہٰذا انسان کو چاہیے کہ وہ اس مسئلہ کو اچھی طرح سمجھ لے تا کہ غلطی نہ کرے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ارکان اسلام

عقائد کے مسائل: صفحہ452

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ