سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(114) ثقہ کی زیادت مقبول ہے

  • 13635
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 2188

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مولانا ارشاد الحق اثری صاحب لکھتے ہیں: ’’لہٰذا جب سلیمانؒ کے برعکس شعبہؒ، ہشامؒ، معمرؒ وغیرہ جو اس سے زیادہ ثقہ اور ثبت ہیں۔ اس زیادت کو ذکر نہیں کرتے تو یہ روایت شاذ ہوئی جب کہ شاذ کی تعریف یہی ہے کہ جس میں ثقہ اوثق کی مخالفت کرے……‘‘ (توضیح الکلام، طبع جدید ص۶۶۷)

پچھنا یہ ہے کہ کیا ایک راوی کا زیادت کا ذکر کرنا ذکر نہ کرنے والوں کی مخالفت ہے؟ جیسا کہ اس کلام سے بظاہر لگ رہا ہے۔

براہِ مہربانی شاذ کی تعریف میں، مخالفت کا صحیح مفہوم کیا ہے؟ وضاحت کریں۔ ثقہ کی زیادتی کب مقبول ہوتی ہے اورکب شاذ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مولانا اثری صاحب کی یہ بات صحیح نہیں ہے۔ کسی زیادت ک ذکر نہ کرنا مخالفت نہیں ہوتی اور نہ اسے شاذ کہنا صحیح ہے۔ اس میں راجح یہی ہے کہ اگر ایک ثقہ راوی کئی ثقہ راویوں (یا اوثق) کی مخالفت کرے تو وہ روایت شاذ ہوتی ہے۔

دیکھئے اختصار علوم الحدیث لابن کثیر (۱۸۲/۱ بتعلیق الالبانی)

مثلاً ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشہد میں شہادت کی انگلی ہلاتے تھے اور دوسری میں ہے کہ نہیں ہلاتے تھے۔ دوسری روایت کی سند محمد بن عجلان کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے اور پہلی صحیح حدیث کے خلاف ہونے کی وجہ سے ششاذ یا منکر بھی ہے۔

اگر ثقہ کی سند اور متن میں زیادت کو شاذ قرار دیا جائے تو بہت سی صحیح احادیث کا انکار لازم آتا ہے جو کہ غلط ہے۔

تنبیہ بلیغ:

صحیح مسلم میں سلیمان التیمی رحمہ اللہ یک بیان کردہ حدیث: «واذا قرا فانصتوا» اور جب وہ قراءت کرے تو تم خاموش ہو جاؤ، صحیح محفوظ ہے، بعض ائمہ کا اسے ضعیف و معلول قار دینا صحیح نہیں اور نہ صحیح مسلم کی احادیث کو ضعیف اور شاذ کہنا جائز ہے۔ یاد رہے کہ بعض الناس کا اس سے فاتحہ خلف الامام کے خلاف استدلال دو وجہ سے غلط ہے:

(۱)          ی حدیث حنفی اصول کی رو سے منسوخ ہے کیونکہ اس کے راوی سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فاتحہ خلف الامام کا فتوی دیا ہے۔

(۲)           یہ حدیث ماعدا الفاتحہ (فاتحہ کے علاوہ مطلق قراءت) پر محمول ہے کیونکہ فاتحہ خلف الامام کی تخصیص دوسری صحیح احادیث سے ثابت ہے اور اصول میں یہ مسئلہ مقرر ہے کہ خاص عام پر مقدم ہوکر اس کی تخصیص کر دیتا ہے۔ (۱۵/اگست ۲۰۰۷ء)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)

ج2ص296

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ