سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(546) کلمہ گو مشرک

  • 13288
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 1501

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

زید کلمہ گو پاکستا نی ہے باپ دادا مسلما ن  شناختی فارم پر مذہب اسلام درج ہے قرآن مجید کو اللہ تعا لیٰ کی سچی کتا ب تسلیم کرتا ہے ارکا ن اسلام سے (اپنے علم کی حد تک) واقف ہے مگر اپنی خواہشات کے تا بع زندگی گزار رہا ہے رفا ہ عامہ  کے کا موں  میں غریب  کی بچی  کی شادی  مدرسہ  کی تعمیر  لا وارث میت کی تجہیز  و تکفین (سے رسم چہلم  تک) وغیرہ کے اخرا جا ت  برداشت  کرتا ہے دوستوں  کی نما ز  جنا زہ  میں بہر  صورت  شریک  ہو تا ہے رمضا ن  میں کبھی  کبھار نماز  تراویح   نماز تہجد  بھی ادا کر لیتا ہے لیکن ہر سال  بہشتی  دروازہ  پا کپتن  سے گزر  نے کی سعادت حاصل کرتا ہے ۔لا ہو ر میں عرس  کی سالا نہ تقریبات  میں شریک ہو تا  ہے مزاروں  سے گہرا شغف  ہے زراعت کے علاوہ آمد نی  کے کئی  اور بھی ذرائع  ہیں حلال و حرا م سب  درست جا نتا  ہے رقم  کا لین دین  ہو تو سودی کا رو با ر کرتا ہے بینک  میں کئی ایک سودی  سکیموں  میں پیسہ لگا رکھا ہے ۔

دوستوں کی محفل میں شراب  بھی پی لیتا ہے  اس نے  کئی دفعہ زنا بھی کیا  معا ملا ت  میں جھو ٹ  بو لتا ہے  فریب کا ری دھو کہ دہی اس کی زند گی کے معمول ہیں مو سیقی  کا شو قین  ہے اگر کو ئی مو حد شخص راہ حق  کی ہدایت کرتا ہے تو اس کا جواب صرف یہ ہو تا ہے  بھئی  ہم جیسوں  کا ابھی تو اللہ ہے اللہ کی رحمت  بہت وسیع  ہے ہر کلمہ  گو  نے بہر حال جا نا تو جنت میں ہی ہے کیا زید کی یہ خوش فہمی  درست ہے !بغیر تو بہ  کئے  اگر فوت  ہو جا ئے تو قرآن خوانی ساتوا ں چالیسواں  وغیرہ کچھ  فا ئدہ دے سکتے ہیں ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مذکو رہ صفات کے حا مل  شخص  کو چا ہیے کہ اپنی اولین فرصت  میں امدادی  ذرائع  سے دعوۃ  الر سل "تو حید خاص" کو سمجھنے  کی سعی کرے یا پھر  کسی مو حد بزرگ  عالم کی صحبت  کو اختیا ر کرے  تا کہ  اس کی با طنی  کیفیت  میں جلا ء پیدا ہو کر اس میں جذبہ تو حید مو جزن جو اول  و آخر  ذریعہ  نجا ت  ہے ورنہ  آپ جا نتے  ہیں کہ نکما بیج  تو زمین بھی قبول نہیں کرتی  چہ جا ئیکہ  سیاہ  کا ر یو ں اور بد اعمالیوں  کا سود  اللہ کے حضور پر وان چڑھتے  یہ حقیقت  ہے کہ اللہ جل شانہ کا بندوں  پر بہت  زیادہ  حق ہے اس کا تقاضا ہے کہ بندہ  کما حقہ حق  عبود یت  ادا کرے  اس کے ماسوا کسی کی پرستش  نہ کرے  اور  نہ کسی کو نفع  و ضرر اور خوف  و رجاء  وغیرہ  میں اس کا شر یک  و سہیم  سمجھے  خا لی  گھر ہر ایک کی توجہ  کا مر کز ہو تا ہے ہر کو ئی  اس کو اپنے مقاصد  میں استعمال  کے لیے  کو شاں ہو تا ہے اسی  طرح یا د الٰہی سے غا فل اور بے بہرہ دل و دماغ  بڑی آسانی  سے شیطانی قوتوں  کا ملجاء  و ماوی  بن جا تا ہے  اس کے نتیجہ  میں گناہ آلو د  زندگی  خو بصورت  و مزین  لگنے  لگتی  ہے آدمی  ہوا ئی  گھوڑے  پر سوار  ہو کر خوش  فہمی  میں  مبتلا  ہو جا تا  ہے کہ اللہ کی رحمت  بڑی وسیع  ہے عمل کی کیا  ضرورت  ہے وہ خود  بخود  معا ملہ  حسنہ  کر ے گا  میرے  اعمال  سے وہ مستغنی  ہے وغیرہ  سوچنے  کا مقا م ہے  اگر  اگر یہ بات  حقیقت  کا روپ دھا ر ے ہو تی  تو انبیا ء کرا م  علیہ السلام  اور اولیا ء عظام   رحمۃ اللہ علیہ کو عبادات  کے مصائب ومشکلا ت  کا بو جھ  اٹھانے  کی کیا  ضرورت  تھی جب کہ تاریخ شاہد  ہے کہ مجا ہد ہ نفس  میں وہ اپنی نظیر آپ تھے  اس بنا ء  پر وہ خلد بریں کے وارث  ٹھہر  ے ۔سوال میں ذکر  کردہ بہت ساری چیز یں  شر کیا ت  بدعات  اور کبائر  کی قبیل  سے ہیں  دین  اسلا م  سے غیر متعلق  ہیں ضرورت  اس امر کی ہے کہ پہلے دین کا صحیح فہم  و ادر اک حاصل کیا جا ئے ۔پھر اس کے تقا ضوں  کے مطا بق اپنے  کو ڈھا لا جا ئے ۔

«الکیس من دان نفسه والعاجز من اتبع نفسه هواه وتمنيٰ علي الله الاماني»

یعنی "عقل  مند اور دانا بینا وہ ہے  جس نے اپنے  نفس کو رب کی رضا کے تابع کردیا  اور عاجز  و بے  بس وہ ہے جو نفسانی  خواہش کی پیروی  میں لگا رہا اور اللہ سے صرف  آرزؤں  کا متمنی  ہے ۔"

شخص ہذا منہیا ت کا مر تکب  اگر مرگیا  تو قرآن خوانی ساتواں چالیسواں  وغیرہ  اس کے لیے  نفع  بخش نہیں کیو نکہ بذات خود ان اعمال کا وجود ہی شر یعت  اسلامیہ  میں ثابت  نہیں  دوسری طرف یہ شخص  مشرک بھی ہے جس کی نجا ت ممکن  نہیں ۔

﴿إِنَّ اللَّهَ لا يَغفِرُ‌ أَن يُشرَ‌كَ بِهِ وَيَغفِرُ‌ ما دونَ ذ‌ٰلِكَ لِمَن يَشاءُ ۚ وَمَن يُشرِ‌ك بِاللَّهِ فَقَد ضَلَّ ضَلـٰلًا بَعيدًا ﴿١١٦﴾... سورة النساء

مزید  آنکہ  یہ شخص  کبا ئر  کا  مرتکب ہے جس کی نجا ت  کا انحصا ر  مشیت  الٰہی  پر  مو قوف  ہے وغیرہ وغیرہ ۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ

ج1ص826

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ