سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(287) منگیتر کو دیکھنے کی حدود و قیود

  • 12278
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 1189

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اپنی منگیتر کودیکھنے کے لئے کیا حدودہیں ،کیاانٹرنیٹ کے ذریعے اس کام کوسرانجام دیاجاسکتا ہے ،تصاویر کاتبادلہ کرنامنگنی کے لئے جائز ہے یانہیں، یہ اس لئے کیاجاتاہے تاکہ آیندہ شادی کرنے یانہ کرنے کے متعلق فیصلہ کرسکیں ،اس کے متعلق تفصیل سے آگاہ کریں ۔کتاب و سنت کی روشنی میں ا س کی وضاحت فرمائیں ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شرعی طورپراپنی منگیترکودیکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ اس کی وجہ سے باہمی شادی کرنے کافیصلہ آسان ہو جاتا ہے ،رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:’’جب تم میں سے کوئی کسی عورت سے منگنی کرے تواگرممکن ہوتواس سے وہ کچھ دیکھ لے جو اس کے لئے نکاح کاباعث ہو۔‘‘راوی حدیث حضرت جابر  رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی مذکورہ ہدایت کے مطابق میں نے ایک لڑکی کوپیغام نکاح بھیجا ،میں اسے چھپ کردیکھنے کی کوشش کرتا رہا، بالآخر میں نے اس کے ان اعضاء کودیکھ ہی لیا جواس سے نکاح کے لئے باعث رغبت تھے ۔اس کے بعد میں نے اس سے نکاح کرلیا۔     [مسند امام احمد، ص: ۳۳۴،ج ۳]

                اسی طرح حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجودتھا ،اتنے میں ایک آدمی آیااوراس نے بتایا کہ میں نے ایک انصاری عورت سے شادی کاارادہ کیاہے۔ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’کیاتونے اسے دیکھا ہے ؟‘‘اس نے عرض کیا نہیں؟آپ نے فرمایا: ’’جاؤ اور اسے دیکھ لوکیونکہ انصار کی آنکھوں میں کوئی بیماری ہوتی ہے۔‘‘[صحیح مسلم،النکاح:ـ۱۴۲۴ ]

                جمہور علما کے ہاں منگیتر کاصرف چہرہ اور ہتھیلیاں دیکھنا مباح ہے کیونکہ چہرے سے اس کی خوبصورتی اوربدصورتی کاپتہ چلتا ہے اورہتھیلیوں سے عورت کے بدن کے نرم، درشت اورباریک اورموٹے ہونے کاعلم ہوتا ہے لیکن الگ سے ملاقات کرنا،خلوت میں گفتگو کرنا شرعاً حرام ہے۔اگردیکھنا ممکن نہ ہوتوکسی عورت کواس کے دیکھنے پرمامور کیاجاسکتا ہے، جیساکہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ  کا بیان ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عورت سے شادی کرناچاہی، توایک عورت کواسے دیکھنے کے لئے بھیجااوراسے کہا کہ اس کے اگلے دانت سونگھے اوراس کی ایڑیوں کے اوپر والے حصّے کو دیکھے۔     [مستدرک حاکم، ص: ۱۶۶،ج ۲]

                اس حدیث میں معلوم ہوتا ہے کہ عورت کوبھیجنے سے وہ فوائد حاصل ہوسکتے ہیں جوخوددیکھنے سے حاصل نہیں ہوسکتے ۔ بہرحال اپنی منگیتر کودیکھنا جائز ہے لیکن اس کے لئے خاص اہتمام کرناحرام ہے اور دیکھنے کے لئے چارشرائط کاپایاجاناضروری ہے:

1۔  نکاح کرنے کا ارادہ ہو، اسے محض دل لگی اورمشغلہ کے طورپر سرانجام نہ دیاجائے ۔

2۔  خلوت نہ ہو ،حدیث کے مطابق ایسے حالات میں شیطان گھس آتا ہے ۔

3۔  فتنے یافسادکاڈرنہ ہو۔

4۔  مشروع مقدار سے زیادہ نہ دیکھا جائے، اس سے مراد وہ حصے ہیں جو لڑکی عام طورپر اپنے بھائی بیٹے اور باپ کے سامنے جوکچھ

ظاہرکرتی ہے ،چونکہ برصغیرکامعاشرہ ابھی تک اس قدر ترقی یافتہ یاتربیت یافتہ نہیں کہ اس میں نکاح کاپیغام دینے والے کے لئے اپنی بیٹی یابہن کے دکھانے کااہتمام کیاجائے۔ اس بنا پر اس کے جواز کی آڑ میں دیکھنے دکھانے پراصرار کرناصحیح نہیں ہے۔ والدین بھی اسے اپنی عزت کامسئلہ نہ بنائیں اورنہ ہی برخورداران اسے بطورمشغلہ اپنائیں۔انٹرنیٹ کے ذریعے براہ راست لڑکے کالڑکی سے رابطہ کرنااورپیغام نکاح دینابھی صحیح نہیں ہے ۔ہمارے جن گھروں میں انٹرنیٹ یاکیبل کی سہولت ہے انہیں اس پہلو کاخاص خیال رکھناہوگا۔عام طورپر ایساہوتا ہے کہ بچے اس سہولت سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے والدین کواس وقت خبر دیتے ہیں جب عدالتی نکاح کے ذریعے وہ خود کورشتہ ازدواج میں منسلک کرلیتے ہیں۔ ہمارے نزدیک منگنی کے لئے تصاویر کاتبادلہ بھی جائز نہیں ہے اس کی درج ذیل وجوہات ہیں:

1۔  تصویر بنانے کے لئے یہ کوئی حقیقی ضرورت نہیں ہے، پھراسے دیکھنے میں دوسرے بھی شریک ہوسکتے ہیں ۔

2۔  تصویر سے حسن وجمال رنگ اورکردار کاپتہ ہی نہیں چلتا ،کتنی ہی ایسی تصاویر ہیں جوحقیقت کے برعکس ہوتی ہیں، تصویر دیکھنے کے بعد جب اصل کودیکھاگیا تواس میں زمین وآسمان کافرق تھا ۔

3۔  یہ بھی ممکن ہے کہ منگنی پایہ تکمیل تک نہ پہنچے اوروہ تصویر منگیترکے پاس رہے جسے بعد میں بلیک میل کرتا رہے۔ ہمارے نزدیک بہتر ہے کہ منگنی کے جملہ معاملات اپنے والدین کے ذریعے پایہ تکمیل تک پہنچائے جائیں ،اسی میں خیروبرکت ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2 صفحہ:302

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ