سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(404) اگر سفر میں آسانی اور سہولت ہو توروزہ رکھنا افضل ہے

  • 1206
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 1415

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مسافر کے روزے کے بارے کیا حکم ہے جب کہ عصر حاضر میں جدید ذرائع آمد و رفت کے باعث روزہ رکھنا مسافر کے لیے کوئی مشکل بات نہیں ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

مسافر روزہ رکھ سکتا ہے اور چھوڑ بھی سکتا ہے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَمَن كانَ مَريضًا أَو عَلى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِن أَيّامٍ أُخَرَ...﴿١٨٥﴾... سورة البقرة

’’اور جو بیمار ہو یا سفر میں ہو تو دوسرے دنوں میں (روزہ رکھ کر) ان کا شمار پورا کر لے۔‘‘

حضرات صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ سفر کرتے تو ان میں سے بعض روزہ رکھ لیتے اور بعض روزہ نہ رکھتے لیکن ان میں سے کوئی کسی پر عیب نہ لگاتا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  سفر میں روزہ رکھ لیا کرتے تھے۔ حضرت ابوالدردائ رضی اللہ عنہ  نے بیان کیا ہے:

«سافرنا مَعَ النبی فِی شَهْرِ رَمَضَانَ فِی حَرِّ شَدِيْدٍ-  وَمَا منَا صَائِمٌ اِلاَّ رَسُوْلُ اللّٰهِ وَعَبْدُاللّٰهِ بْنُ رَوَاحَةَ» (صحيح البخاري، الصوم، باب بعد باب: اذا صام اياما من رمضان ثم سافر، ح: ۱۹۴۵ وصحيح مسلم، الصيام، باب التخيير فی الصوم والفطر فی السفر، ح: ۱۱۲۲ واللفظ له)

’’ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ ماہ رمضان میں سخت گرمی کے موسم میں نکلے‘‘ وہ بیان کرتے ہیں کہ ’’ہم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اور عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ  کے سوا اور کوئی روزہ دار نہ تھا۔‘‘

مسافر کے بارے میں قاعدہ یہ ہے کہ اسے روزہ رکھنے اور نہ رکھنے کے بارے میں اختیار ہے اگر روزہ رکھنے میں مشقت نہ ہو تو پھر روزہ رکھنا افضل ہے کیونکہ اس میں درج ذیل تین فوائد ہیں:

(۱)       اس میں رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی اقتدا ہے۔

(۲)       اس میں سہولت ہے کیونکہ انسان جب دوسرے لوگوں کے ساتھ مل کر روزہ رکھے تو اس میں آسانی ہوتی ہے۔

(۳)      اس سے انسان جلد بریٔ الذمہ ہو جاتا ہے اور اگر روزہ رکھنے میں دشواری ہو تو نہ رکھے کیونکہ اس حالت میں سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں ہے۔

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے جب ایک شخص کو دیکھا کہ اس پر سایہ کیا گیا ہے اور لوگوں کا اس پر ہجوم ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے پوچھا: ’’یہ کیا ہے؟‘‘ صحابہ نے بتایا کہ ایک روزہ دار ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

«لَيْسَ مِنَ الْبِرِّ الصَّوْمُ فِی السَّفَرِ» (صحيح البخاري، الصوم باب قوم النبی لمن ظل عليه واشتد الحر: ’’ليس من البر الصيام فی السفر‘‘ ح: ۱۹۴۶ وصحيح مسلم، الصيام، باب جواز الصوم والفطر فی شهر رمضان للمسافرين من غير معصية، ح: ۱۱۱۵)

’’سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں ہے۔‘‘

اس عموم کو ایسے شخص پر محمول کیا جائے گا جسے روزہ رکھنا بہت گراں محسوس ہوتا ہو، اس لیے ہم کہتے ہیں کہ عصر حاضر میں سفر آسان ہے، جیسا کہ سائل نے کہا اور اکثر و بیشتر صورتوں میں روزہ گراں محسوس نہیں ہوتا، لہٰذا افضل یہ ہے کہ روزہ رکھ لیا جائے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ارکان اسلام

عقائد کے مسائل: صفحہ377

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ