سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(14) اللہ ، رسول ، اور قرآن کے بارے میں شیطانی وسوسوں کا آنا

  • 11947
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 3691

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میرے دل میں  اللہ  تعالیٰ، اس کے رسول(صلی اللہ علیہ وسلم ) اور اس کی کتاب کے متعلق بہت برُے برُے خیالات آتے ہیں، نماز وروزہ میں پابندی سے کرتی ہوں لیکن یہ برُے خیالات میرا پیچھا نہیں چھوڑتے، اس سلسلے میں بہت پریشان ہوں، ان سے نجات کے لیے کوئی نسخہ تحریر کریں ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شیطان کایہ ایک حربہ ہے کہ وہ برُے خیالات کے ذریعے اہل ایمان پرحملہ کرتاہے، قرآن پاک نے اس کے طریقۂ واردات سے ہمیں بایں الفاظ آگاہ کیاہے :

                ’’وہ جولوگوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالتارہتاہے۔ ‘‘     [۱۱۴/الناس :۵]

                ان وساوس سے شیطان کامقصد یہ ہے کہ وہ اہل ایمان کے عقیدے کوخراب کردے اورانہیں نفسیاتی اور فکری اضطراب میں مبتلا کر دے، یہ سلسلہ قیامت تک چلتارہے گا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم  کوبھی اس طرح کی باتوں کاسامنا کرنا پڑتاتھا،لیکن وہ ایسے خیالات کے مقابلہ میں استقامت اورعمل کے پہاڑ ثابت ہوئے، جیسا کہ حدیث میں ہے کہ کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول  اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا: یارسول  اللہ ! ہم اپنے دلوں میں کچھ ایسی باتیں پاتے ہیں کہ انہیں زبان پر لانابھی ہمارے لیے بہت گراں ہے۔ اس پر رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا: ’’کیا تم اس چیز کو پاتے ہو؟‘‘ انہوں نے جواب دیا: ہاں، آپ نے فرمایا: ’’یہی توخالص اورصحیح ایمان ہے ۔‘‘   [صحیح مسلم، الایمان: ۱۳۲]

اس کامطلب یہ ہے کہ چور اورڈاکو اس گھر میں حملہ آورہوتے ہے جہاں خزانہ ہوتا ہے، اسی طرح شیطان بھی ڈاکہ زنی کے لیے ایسے دلوں کا انتخاب کرتا ہے جہاں دولت ایمان ہوتی ہے، اس لیے وسوسوں سے ڈرنے والاانسان بہت ہی نصیب والا ہے ۔ رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کاعلاج بھی تجویز کیاہے، جیسا کہ درج ذیل حدیث میں ہے، رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں کسی کے پاس شیطان آکر کہتاہے کہ مخلوق کواس انداز سے کس نے پیدا کیا حتی کہ وہ وسوسہ اندازی کرتا ہے کہ تیرے رب کوکس نے پیدا کیا ؟ جب معاملہ یہاں تک پہنچ جائے تو اللہ  تعالیٰ سے پناہ مانگے اورآگے بڑھنے سے رک جائے۔‘‘     [صحیح بخاری ،بدء الخلق : ۳۲۷۶]   

                اس کے علاج کے لیے حسب ذیل چیز وں کوعمل میں لایا جائے۔

                ’’اعوذ ب اللہ ‘‘ پڑھ کران خیالات کوجھٹک دیاجائے اورضبط سے کام لیاجائے۔

٭  ایسے حالات میں اپنے آپ کواللہ کی عبادت اوراس کے ذکر اور فکرآخرت میں مصروف کر لیا جائے۔

٭   اللہ  تعالیٰ سے د لجمعی کے ساتھ دعا کی جائے کہ وہ اپنے فضل و کرم سے ہمیں اپنی پناہ میں رکھے ۔بہر حال ایسے خیالات کا آنا خالص ایمان کی علامت ہے اوراس کاعلاج یہ ہے کہ ایسے خیالات کوترک کرکے  اللہ  کی پناہ میں آجائے اورخود کو اللہ  کی عبادت میں مصروف کردے ۔  [واللہ اعلم ]

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2،صفحہ:55

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ