سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(392) روزے کو واجب قرار دینے کی حکمت

  • 1194
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 1270

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

روزے کو واجب قرار دینے میں کیا حکمت عملی پوشیدہ ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

جب ہم درج ذیل ارشاد باری تعالیٰ پڑھتے ہیں :

﴿يـأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا كُتِبَ عَلَيكُمُ الصِّيامُ كَما كُتِبَ عَلَى الَّذينَ مِن قَبلِكُم لَعَلَّكُم تَتَّقونَ ﴿١٨٣﴾... سورة القرة

’’اے مومنو! تم پر روزے رکھنے فرض کیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بنو۔‘‘

تو اس سے ہمیں روزے کے وجوب کی حکمت معلوم ہوجاتی ہے اور وہ ہے تقویٰ اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی عبادت۔ تقویٰ ان چیزوں کے ترک کرنے کا نام ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے اور تقوی کا ان چیزوں کے سرانجام دینے پر بھی اطلاق ہوتا ہے جن کا حکم دیا گیا ہے انہیں بجالایا جائے اور جن سے منع کیا گیا ہے انہیں ترک کردیا جائے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ہے:

«مَنْ لَمْ يَدَعْ قَوْلَ الزُّورِ وَالْعَمَلَ بِهِ فَلَيْسَ لِلّٰهِ حَاجَةٌ أَنْ يَدَعَ طَعَامَهُ وَشَرَابَهُ» (صحيح البخاري، الصيام، باب من لم يدع قول الزور والعمل به فی الصوم، ح: ۱۹۰۳)

’’جو شخص جھوٹی بات اور اس پر عمل کرنے کو ترک نہ کرے، تو اللہ کو اس بات کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔‘‘

لہٰذا روزہ دار کو چاہیے کہ وہ نہایت پابندی کے ساتھ واجبات کو ادا کرے، حرام اقوال و افعال سے اجتناب کرے، لوگوں کی غیبت نہ کرے، جھوٹ نہ بولے، چغل خوری نہ کرے اور حرام چیز کی بیع نہ کرے۔ الغرض! تمام حرام امور سے اجتناب کرے۔ اگر انسان پورا ایک مہینہ اس طرح گزارے گا، تو امید ہے باقی سارا سال بھی اس کا نفس راہ راست پر رہے گا۔

افسوس کہ بہت سے روزہ دار اس میں کوئی فرق نہیں کرتے کہ انہوں نے روزہ رکھا ہے یا نہیں رکھا۔ ترک واجبات اور فعل محرمات کے اعتبار سے ان کے مشاغل روزے کی حالت میں بھی حسب عادت جاری رہتے ہیں جس کی وجہ سے آپ کو ان پر روزے کا وقار نظر نہیں آتاان افعال سے گو روزہ باطل نہیں ہوتا لیکن اس کا اجر و ثواب یقینا کم ہو جاتا ہے اور اگر تقابل کیا جائے تو بسا اوقات یہ افعال روزے کے اجر و ثواب سے زیادہ ہوتے ہیں، جس کے نتیجہ میں روزے کا اجر و ثواب ضائع ہو جاتا ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ارکان اسلام

عقائد کے مسائل: صفحہ368

محدث فتویٰ

 

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ