سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(188) خاوند کیلئے تزئین کے طو ر پر عو رت اپنے کچھ بال کتر سکتی ہے

  • 11938
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 1986

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا عورت کے لئے جا ئز ہے کہ وہ خاوند کے لئے بطو ر  زینت کچھ بال کترا ڈالے ۔ ؟ اخو کم فی اللہ : اسمیل


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس کے لئے بالوں کو کتر نا جائز ہے ۔ سر مو نڈنا جا ئز نہیں لیکن اس کے لئے یہ شروط ہیں :

1 ۔ مردوں کے ساتھ مشا بہت نہ کرے کیو نکہ نبی ﷺ نے عورتوں میں مردوں جیسی بننے والی پر لعنت فرما ئی ہے ۔

2 ۔ نصاریٰ وغیرہ کا فرات کی عا دتو ں کی مشا بہت نہ کرے کیو نکہ جو جس قو م کی مشابہت کر ے گا وہ انہیں میں سے ہو گا ۔

 3 ۔  اپنے علاقے کی عا دات واطوار سے خروج نہ کر ے کیو نکہ شہرت والے لباس سے نہی وارد ہے جیسے کے حد یث میں ہے :

‘‘ جو دنیا میں شہرت کا لبا س پہنے گا ‘ ’’  ۔ ( احمد ’  ابو داؤد ) اور اس طرح  المشکاۃ ( 2؍ 375)

4 ۔ شو ہر کو وہ کا م محبو ب بھی ہو ۔

اور دلیل اسکی یہ ہے کہ احرام والی عو رت حج اور عمر ے میں اپنے بال کتر سکتی ہے۔

اور اسی طر ح مسلم نے اپنی صحیح ( 1 ؍ 148) میں  روایت کیا  ہے : ‘‘ باب ہے غسل  جنا بت  میں  پانی کا مستحب اندازہ’’ ۔۔

ابو سلمہ ﷜ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ نبی ﷺ کی بیویا ں اپنے سر کے  بال کتر کر وفرہ ( چھتے ) بنا لیتی تھیں’’ ۔

امام نوو ی شرح مسلم میں کہتے ہیں : اس میں دلیل ہے کے عو رتو ں کے لئے با لو ں میں  تخفیف جائز ہے ’’ ۔ 

 اور اسی طرح عام اباحت بھی جواز کا فا ئدہ دیتی ہے تو عورت کے بال نہ کتر نے کے حکم میں مرد کی  داڑھی کی طرح نہیں لیکن زیا دہ محبوب یہی ہے کے  اپنے حا لا پر  چھو ڑ  دے تا کے شبہا ت  سے نکل جا ئے  ۔

جیسے اضو اء البیا ن للشنقیطی ( 5 ؍595) ( 600)  میں  ہے : ‘‘ وہ کہتے ہیں عورت مے لئے اپنے بال منڈوانا اسکے جمال کے لئے نقص ہے اور بد صو رتی  ہے اور یہ مسئلہ ہے اس سے معلو م ہوا ہے  کہ اکثر ملکو ں میں عورتوں کے بالوں کو جڑوں کے قریب تک کتر نے کے جورسم جاری ہے یہ انگریز وں کا طریقہ ہے اور مسلما ن عورتوں اور قبل اسلا م عرب    عورتو ں کی عا دت کے خلا ف ہے تو یہ بھی ان انحرافات میں سے ہے جسمیں دینی ‘ اخلاقی اور عا د ت کے لحا ظ سے اکثر لو  گ مبعلیٰ ہیں ۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ الدین الخالص

ج1ص413

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ