سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(135) پانی موجود ہونے کے با وجود پتھروں سے استنجاء کرنا جائز ہے

  • 11844
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 1551

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

پانی موجود ہونے کے با وجود پتھروں سے استنجاء کرنا جائز ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ہاں بلا کراہت جائز ہے بلکہ نبی ﷺ اور صحابہ ﷜ کی اکثر عادت یہی تھی ۔اور جو آ پ کی سنت اور صحابہ کی سنت سے  رو گردانی کرتا ہے تو وہ مسلمانوں میں سے نہیں ہے ۔ گزشتہ سوالوں کے جواب میں دلا ئل گزر چکے ہیں مراجعہ کر لیں ۔

پانی اور پتھروں کا جمع کرنا کسی صریح حدیث میں آپ سے ثابت نہیں اور نہ ہی صحابہ ﷢ سے ۔

اسی لیے صاحب السنن المبتدعات نے (ص:21) میں کہا  ہے : پتھروں کے ساتھ استنجاء نبیﷺ کے فعل سے ثا بت ہے جس طرح کہ پانی کے ساتھ استنجاء ثابت ہے۔ 

صحیح بخاری میں ابن مسعود ﷜ سے رویت ہے وہ کہتے ہیں رسول اللہﷺ قضائے حا جت  کے لیے جانے لگے تو مجھے  تین پتھر لانے کا کہا مجھے دو پتھر ملے تیسرا پتھر تلاش کے باوجود نہیں ملا ۔ تو میں ساتھ لید اٹھا کر لے آیا آپ ﷺ نے پتھر لے لیے اور لید پھینک دی ۔ اور فر مایا یہ پلید ہے ؛احمد اور دار قطنی نے یہ اضا فہ کیا ہے اس کے علا وہ کوئی اور لا

اور بخاری  میں ہے آپ ﷺ نے فرمایا ؛‘‘جو ڈھیلے استعمال کرتا ہے تو طاق استعمال کرے۔

اور صحیح مسلم میں سلمان ﷜ سے ورایت ہے کہ رسول اللہﷺنے ہمیں چھوٹا پیشاب کوتے ہوے قبلہ رخ ہونے سے منع فرمایا  ہے اور داہنے ہاتھ  سے استنجاء  کرنے اور تین پتھروں سے کم  کے ساتھ استنجاء کرنے سے منع فرمایا ہے اور ہڈی و لید سے استنجاء  کرنے سے بھی  منع فرمایا  ہے ۔ تو ڈھیلے استعمال کونا  صحاح و سنن  مسند احمد  ومئوطا وغیرہ میں ثا بت ہے۔ نیز اقوال ائمہ سے اور اہل   اسلام کے تمام  طائفوں سے ثابت ہے ۔ امام ترمذی وغیرہ کہتے ہیں’‘‘حدیث سلمان صحیح ہے اور   یہ صحابہ اور ان کے بعد   اکثر اہل علم کا  قول ہے کہ پتھروں سے استنجاء کفایت کرتا ہے اگرچہ اس کے بعد پانی سے استنجاء  نہ کیا  جائے جیکہ پیشاب پاخانے کے نشانات صاف ہو جائیں۔ یہ سمجھ لینے کے بعد  جاننا چاہیے کہ پانی کے باوجود  پتھروں سے استنجاء کرنے  کی نماز کو باطل کہنا  بدعت اور جہالت ہے ۔ اور یہ باطل عقیدہ بہت سے علماء میں سرایت کر گیا ہے جسے دور کرنا ضروری ہے اورجو یہ کہتا ہے  کہ ڈھیلوں سے استنجاء تو پانی نہ ہونے کی صورت میں کیا  جائے اس   سے توبہ کرانی چاہیے اگر توبہ نہ کرے تو تعزیر دینی چاہیے۔

امام مالک سے نبیﷺ کا پانی کے ساتھ استنجاء کرنے کا انکار منقول ہے جبکہ احا دیث سے  یہ ثابت ہوتا ہے ہوتا ہے تو امام  مالک کے انکار پر کان نہ دھرا جائے ۔

بعض وسویہ کے شکار برائے نام متعلمین نے نہایت تنگی کا مظاہرہ کیا ہے جو کہتے ہیں کہ اگ نمازی کے پاس نماز پڑھنے والے پر ہاتھ  رکھدے جس نے ڈھیلوں کے ساتھ استنجاء کیا ہو تو اس کی نماز باطل ہو جائےگی ۔ کیونکہ اس کے زعم فاسد کے مطابق اس نے نجاست والے شخص پر ہا تھ رکھ دیا ہے جو کہ رسول اللہﷺ اور صحابہ کے قول  فعل کے خلاف ہے ۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ الدین الخالص

ج1ص306

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ