سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(331) مطلقہ سے دوبارہ نکاح کرنا

  • 11581
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-18
  • مشاہدات : 1185

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

گوجرانوالہ سے عبد الحمید لکھتے ہیں۔کہ ایک لڑکے کی شادی کے وقت عمر 12 سال تھی۔جبکہ بیوی کی عمر  تقریباً 24 سال تھی۔صرف ایک ر ات کے لئے رخصتی ہوئی بعدازاں طلاق ہوگئی۔ پھر خاوند نے اس کے بعد کسی دوسری عورت سے شادی کرلی اور مطلقہ بیوی کا نکاح بھی کسی دوسری جگہ کردیا گیا۔دوسرے خاوند سے ایک لڑکی  پیدا ہوئی اب پہلا خاونداپنی سابقہ مطلقہ بیوی کی لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہے۔جو دوسرے خاوند سے پیدا ہوئی ہےاوردوسراخاوند اس کے عوض اس کی طلاق دہندہ کی لڑکی سے شادی رچانے کا پروگرام رکھتا ہےایسا کرناشرعاًجائز ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

طلاق دہندہ کے لئے اپنی مطلقہ بیوی کی  لڑکی سے نکاح کرنے کے متعلق ہم نے متعدد اہل علم سے رابطہ کیا اور انتہائی غوروخوض کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں۔ کہ کوئی شخص کسی ایسی لڑکی سے شادی نہیں کرسکتا  جس کی ماں کے ساتھ تعلق زن وشوئی قائم کرچکا ہے۔قطع نظر کہ وہ لڑکی نکاح کے وقت موجود ہو یا طلاق دینے کے بعد کسی اور خاوند سے ہوارشاد باری تعالیٰ ہے:''تمہارے لئے تمہاری ان بیویوں کی لڑکیاں حرام ہیں جن سے تم وظیفہ زوجیت ادا کرچے  ہو۔''(4/النساء :آیت 23)

اس قسم کی لڑکی کو شرعی اصطلاح میں ''ربیبہ'' کہا جاتا ہے۔یہ  ربیبہ اپنے سوتیلے باپ کے لئے اجنبی ہوتی ہے۔ماں سے نکاح کے بعد باہمی مقاربت سے اس لڑکی کی اجنبیت ختم ہوجاتی ہے۔جس کے نتیجے میں وہ اپنے سوتیلے باپ کے عقد میں نہیں آسکتی۔اس ربیبہ کے حرام ہونے میں اس کی ماںس نکاح کے بعد دخول کرنے کا اعتبار کیاگیا ہے۔ عام طور پر ربیبہ اس لڑکی کو کہا جاتا ہے۔ جو ماں سے نکاح کے وقت موجود ہو لیکن بیشتر فقہاء نے اس کی تعریف ''بنت الموطوۃ''کے الفاظ سے کی ہے۔جس کا مطلب یہ ہے کہ اس عورت کی لڑکی جس کے ساتھ ملاپ ہوچکا ہے۔ احتیاط کا تقاضا بھی یہی ہے کہ مطلقہ ہر قسم کی لڑکیاں طلاق دہندہ کے لئے حرام قرار دی جائیں خواہ وہ نکاح کرتے وقت موجود ہوں یا طلاق دینے کے بعد اس کے بطن سے پیدا ہوئی ہے۔اس بناء پر صورت مسئولہ میں اگر 12 سالہ لڑکے نے اپنی بیوی سے دوران رخصتی ملاپ  کرلیاہے۔ تو طلاق دینے کے بعد اس مطلقہ کی جملہ لڑکیاں اس کے لئے حرام ہیں۔کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس قسم کی لڑکیوں کوخاوند پر حرام قرار دینے کے لئے ماں سے دخول کااعتبار کیا ہے۔اگر اس وقت ملاپ نہیں ہوا تو اس صورت میں مطلقہ بیوی کی لڑکی سے نکاح ہوسکتا ہے۔لیکن اس نکاح میں ایک اور قباحت بھی ہے جو نکاح کے لئے رکاوٹ کا باعث ہے۔ وہ یہ ہے کہ آپس میں مشروط طور پر تبادلہ نکاح جسے''شغار'' کہاجاتا ہے۔شریعت نے اس قسم کے نکاح کے متعلق حکم امتناعی جاری کیا ہے اس لئے شریعت کے ضابطوں کو اپنی خواہشات نفس پر قربان نہیں کرنا چاہیے۔نکاحکے معاملات بہت غور وخوض کے متقاضی ہیں۔لہذا اس کے لئے تمام پہلووں سے جانچ پڑتال کرنا  ضروری ہے۔(واللہ اعلم بالصواب)

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

 

فتاوی اصحاب الحدیث

جلد:1 صفحہ:350

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ