سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(354) وجوب زکوٰۃ کی شرطیں

  • 1156
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 1800

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

وجوب زکوٰۃ کی کیا شرطیں ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

وجوب زکوٰۃ کی درج ذیل شرطیں ہیں:اسلام، آزادی، نصاب کی ملکیت اور اس کا مستقل ہونا اور سال کا گزرنا۔ مگر یہ آخری شرط زمین سے پیدا ہونے والی چیزوں کے لیے نہیں ہے۔

(۱) اسلام: اسلام کی شرط اس لیے ہے کہ کافر پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے اور اگر وہ زکوٰۃ کے نام سے ادا بھی کرے، تو اس سے قبول نہیں کی جائے گی کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَما مَنَعَهُم أَن تُقبَلَ مِنهُم نَفَقـتُهُم إِلّا أَنَّهُم كَفَروا بِاللَّهِ وَبِرَسولِهِ وَلا يَأتونَ الصَّلوةَ إِلّا وَهُم كُسالى وَلا يُنفِقونَ إِلّا وَهُم كـرِهونَ ﴿٥٤﴾... سورة التوبة

’’اور ان کے خرچ (اموال) کے قبول ہونے سے کوئی چیز مانع نہیں ہوئی سوائے اس کے کہ انہوں نے اللہ سے اور اس کے رسول سے کفر کیا اور وہ نماز کو آتے ہیں تو سست وکاہل ہو کر اور خرچ کرتے ہیں تو ناخوشی سے۔‘‘

ہم نے جو یہ کہا کہ کافر پر زکوٰۃ واجب نہیں اور اگر وہ ادا بھی کرے تو اس سے قبول نہیں کی جائے گی، اس کے یہ معنی نہیں کہ آخرت میں بھی اسے معافی  مل جائے گی بلکہ آخرت میں اسے ضرور عذاب ہوگا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿كُلُّ نَفسٍ بِما كَسَبَت رَهينَةٌ ﴿٣٨ إِلّا أَصحـبَ اليَمينِ ﴿٣٩ فى جَنّـتٍ يَتَساءَلونَ ﴿٤٠ عَنِ المُجرِمينَ ﴿٤١ ما سَلَكَكُم فى سَقَرَ ﴿٤٢ قالوا لَم نَكُ مِنَ المُصَلّينَ ﴿٤٣ وَلَم نَكُ نُطعِمُ المِسكينَ ﴿٤٤ وَكُنّا نَخوضُ مَعَ الخائِضينَ ﴿٤٥ وَكُنّا نُكَذِّبُ بِيَومِ الدّينِ ﴿٤٦ حَتّى أَتىنَا اليَقينُ ﴿٤٧﴾... سورة المدثر

’’ہر شخص اپنے اعمال کے بدلے گروی ہے، مگر داہنی طرف والے (نیک لوگ) (کہ) وہ باغہائے بہشت میں (ہوں گے اور) پوچھتے ہوں گے (آگ میں جلنے والے) گناہ گاروں سے کہ تمہیں دوزخ میں کس چیز نے ڈالا ہے؟ وہ جواب دیں گے کہ ہم نماز پڑھتے تھے نہ فقیروں کو کھانا کھلاتے تھے اور اہل باطل کے ساتھ مل کر (حق کا) انکار کرتے تھے اور روز جزا کو جھٹلاتے تھے یہاں تک کہ ہمیں موت آگئی۔‘‘

اس سے معلوم ہوا کہ اسلام کی تعلیمات کے مطابق عمل نہ کرنے کی وجہ سے انہیں عذاب ہوگا۔

(۲) آزادی: حریت کی شرط اس لیے ہے کہ غلام کا تو کوئی مال ہی نہیں ہوتا، اس کا مال اس کے آقا کا ہوتا ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ہے:

«َمَنِ باعَ عَبْدًا وَلَهُ مَالٌ فَمَالُهُ لبَائعَهُ إِلَّا أَنْ يَشْتَرِطَ الْمُبْتَاعُ» (صحيح البخاري، المساقاة، باب الرجل يکون له ممر او شرب فی حائط او نخل، ح: ۲۳۷۹ وصحيح مسلم، البيوع، باب من باع نخلا عليها ثمر، ح: ۱۵۴۳ (۸۰) واللفظ للبخاري)

’’جس نے کوئی غلام خریدا اور اس کا مال بھی ہو تو اس کا مال اس کے لیے ہے جس نے اسے بیچا الا یہ کہ خریدار اس کی شرط طے کرلے۔‘‘

غلام جب مال کا مالک ہی نہیں، تو اس پر زکوٰۃ بھی واجب نہیں اور اگر یہ بات فرض کرلی جائے کہ غلام مال کا مالک ہے تو آخر کار اس کی ملکیت اس کے آقا کے پاس لوٹ آتی ہے کیونکہ اس کے آقا کو یہ حق حاصل ہے کہ جو کچھ اس کے ہاتھ میں ہے وہ اس سے لے لے، لہٰذا اس کی ملکیت ناقص ہے، اس کی حیثیت آزادشخص کی ملکیت کی طرح مستقل نہیں ہے کیونکہ آزاد کے مال کی مستقل ملکیت ہوتی ہے۔

(۳) ملکیت نصاب: ملکیت نصاب کے معنی یہ ہیں کہ انسان کے پاس اتنا مال ہو جو اس نصاب کو پہنچ جاتا ہو جسے شریعت نے مقرر کیا ہے اور مختلف اموال کا نصاب بھی مختلف ہے۔ اگر انسان کے پاس بقدر نصاب مال نہ ہو، تو اس پر زکوٰۃ فرض نہیں کیونکہ اس کا مال قلیل ہے جو ہمدردی وخیر خواہی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

مویشیوں کے نصاب کی مقدار میں ابتدا اور انتہا کا خیال رکھا گیا ہے، جب کہ دیگر چیزوں میں صرف ابتدا ہی کا خیال رکھا گیا ہے اور جو نصاب سے زیادہ ہوگا تو اس کی زکوٰۃ اس کے حساب سے ہوگی۔

(۴) سال کا گزرنا: سال گزرنے کی شرط اس لیے ہے کہ اگر سال سے کم عرصے میں زکوٰۃ کو واجب قرار دے دیا جائے، تو یہ مال داروں کے مال میں نقصان کو مستلزم ہوگا اور سال سے زیادہ مدت کے وجوب کی صورت میں زکوٰۃ کے مستحق لوگوں کا نقصان ہوگا، لہٰذا شریعت نے حکمت ومصلحت کے پیش نظر ایک مدت متعین کر دی ہے، جس میں زکوٰۃ واجب ہے اور وہ ہے ایک سال دراصل ایک سال کے ساتھ اسے مربوط کرنے سے دولت مندوں اور مستحقین زکوٰۃ کے حق میں توازن پیدا کرنا مقصود ہے، لہٰذا اگر سال پورا ہونے سے پہلے انسان فوت ہو جائے یا اس کا مال تلف ہو جائے تو اس سے زکوٰۃ ساقط ہو جائے گی، البتہ تین چیزیں سال کی شرط سے مستثنیٰ ہیں:

٭           تجارت کا نفع

٭           مویشیوں کے پیدا ہونے والے بچے

٭           زمین کی پیداوار

تجارت کے نفع کا سال اس کے اصل کا سال ہے، مویشیوں کے پیدا ہونے والے بچوں کا سال ان کی ماؤں کا سال ہے اور زمین کی پیداوار، یعنی فصلیں اور پھل وغیرہ ان کا سال اس وقت ہے، جب یہ پیداوار حاصل ہوں۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ارکان اسلام

عقائد کے مسائل: صفحہ346

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ