سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(58) نبیﷺ حاضر ناضر نہیں

  • 11384
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 1399

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بعض لوگ کہتے ہیں کہ نبیﷺہر وقت اور ہر مجلس میں ذاتی طور بھی اور علم کے لحاظ سے حاضر ہوتے ہیں ۔لیکن ہم انہیں دیکھ نہیں سکتے کیونکہ وہ نور ہیں جو دیکھا نہیں جا سکتا اور بشر نہیں ہیں اور وہ استدلال کرتے ہیں رسول اللہ ﷺکے اس قول سے السلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ‘‘سلام ہو تجھ پر اے نبی اور اللہ کی رحمتیں اور برکتیں ۔ کیا یہ جرست ہے ؟( تمہارا بھائی:شوکت)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ولا حو ل ولاقوةالا باللہ۔

جو رسول اللہﷺکے بارے میں یا کسی اور کے بارے میں یہ عقیدہ رکھے کہ وہ غیب جانتے ہیں وہ کافر باللہ ہے اور شرعیت اسلامی ،ایمان اور ظاہر فرض عقیدے کا مخالف ہے او رججو کہ عقیدہ رکھے کہ انبیاء بشر نہیں تھے تو وہ اللہ کی مخلوق میں سب سے برا کافر ہے اس کا فرآن او رسنت پر کوئی ایمان نہیں اسے شیطان نے گمراہ کر دیا ہے او روہ خواہش کاتابعدار ہےہم اللہ تعالی کی پناہ پکرے ہیں کہ ہم ان میں سے ہوں ۔او راس مسئلے پر آیات اور سنن ثانیہ سے استدلال کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ  یہ معروف ایمانی مسئلہ ہے اور ایمان اس پر موقوف ہے تو مومن اور مسلمان کا اس سے  نا واقف رہنا کیونکر جائز ہے ۔

اور مبتدعین جو السلام علیک ایھاالنبی ........الخ سے استدلال کرتے ہیں تو اس کا جواب کئی وجوہ سے دیا جاسکتا ہے ۔

پہلی وجہ :یہ حطاب حکائی ہے جیسے قرآان میں ہے ’’یا فرعون ‘‘’’یا ھامان ‘‘’’یا موسی ‘‘  وغیرہ ۔

دوسری وجہ :صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین نے یہ صیفہ رسول اللہ ﷺکی وفات کے بعد ’ السلام علی  النبی ورحمتہ اللہ وبرکاتہ ‘‘ سے بدل تھا ،بخاری (2؍9026) مسلم،احمد (1؍414) بیھقی السنن الکبریٰ (2؍138)عبدالرزاق (2؍204)کے لیے دیکھیں : الارواء(2؍27)۔

او ریہ انہوں نے رسول اللہ ﷺکے سمجھانے کی وجہ سے کیا تھا میں نے اس قول کی تحقیق اپنے رسالے ’’ الردالوافر ‘‘میں کی ہے ۔

تیسری وجہ خطاب سے کسی کا حاضر ہونا لازمی نہیں ہوتا جیسے یہ بات الغت عربی وغیرہ میں معلوم ہے ۔ مولانا خلیل احمد بانپوری کی ’’البراھین القاطعۃ ‘‘وغیرہ کا مطالعہ کریں ۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ الدین الخالص

ج1ص135

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ