سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(293) نماز باجماعت کے احکام

  • 1088
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 1205

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نماز باجماعت کے بارے میں کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ نماز باجماعت، اللہ تعالیٰ کی ایک ایسی اطاعت ہے، جو بہت عظیم الشان ہے، جس کی بے حد تاکید آئی ہے اور جو نہایت افضل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ذکر کرتے ہوئے حالت خوف میں بھی اس کا حکم دیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَإِذا كُنتَ فيهِم فَأَقَمتَ لَهُمُ الصَّلوةَ فَلتَقُم طائِفَةٌ مِنهُم مَعَكَ وَليَأخُذوا أَسلِحَتَهُم فَإِذا سَجَدوا فَليَكونوا مِن وَرائِكُم وَلتَأتِ طائِفَةٌ أُخرى لَم يُصَلّوا فَليُصَلّوا مَعَكَ وَليَأخُذوا حِذرَهُم وَأَسلِحَتَهُم وَدَّ الَّذينَ كَفَروا لَو تَغفُلونَ عَن أَسلِحَتِكُم وَأَمتِعَتِكُم فَيَميلونَ عَلَيكُم مَيلَةً وحِدَةً وَلا جُناحَ عَلَيكُم إِن كانَ بِكُم أَذًى مِن مَطَرٍ أَو كُنتُم مَرضى أَن تَضَعوا أَسلِحَتَكُم وَخُذوا حِذرَكُم إِنَّ اللَّهَ أَعَدَّ لِلكـفِرينَ عَذابًا مُهينًا ﴿١٠٢﴾... سورة النساء

’’اور (اے پیغمبر) جب تم ان (مجاہدین کے لشکر) میں ہو اور ان کو نماز پڑھانے لگو تو چاہیے کہ ان کی ایک جماعت تمہارے ساتھ مسلح ہو کر کھڑی رہے۔ جب وہ سجدہ کر چکیں تو پرے ہو جائیں، پھر دوسری جماعت جس نے نماز نہیں پڑھی (ان کی جگہ) آئے اور ہوشیار اور مسلح ہو کر تمہارے ساتھ نماز ادا کر لے۔ کافر اس گھات میں ہیں کہ تم ذرا اپنے ہتھیاروں اور سامان سے غافل ہو جاؤ کہ تم پر یکبارگی حملہ کر دیں۔ اگر تم بارش کے سبب تکلیف میں ہو یا بیمار ہو تو تم پر کچھ گناہ نہیں کہ ہتھیار اتار رکھو مگر ہوشیار ضرور رہنا، بلا شبہ اللہ نے کافروں کے لیے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے۔‘‘

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی بہت سی احادیث مبارکہ سے بھی یہی ثابت ہے کہ نماز باجماعت ادا کرنا واجب ہے، مثلاً: آپ نے فرمایا:

«وَلَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ آمُرَ بِالصَّلٰوةِ فَتُقَامَ ثُمَّ آمُرَ رَجُلًا فَيُصَلِّی بِالنَّاسِ ثُمَّ أَنْطَلِقَ مَعِی بِرِجَالٍ مَعَهُمْ حُزَمٌ مِنْ حَطَبٍ اِلٰی قَوْمٍ لَّا يَشْهَدُونَ الصَّلٰوۃَ فَاُحَرِّقُ عَلَيْهِمْ بُيُوتَهُمْ بِالنَّارِ» (صحيح البخاري، الاذان، باب وجوب صلاة الجماعة، ح: ۶۴۴ وصحيح مسلم، المساجد، باب فضل صلاة الجماعة… ح: ۶۵۱ (۲۵۲) واللفظ له)

’’میرا ارادہ ہے کہ میں نماز کا حکم دوں اور اقامت کہہ دی جائے، پھر میں کسی شخص کو حکم دے دوں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائے اور پھر میں کچھ آدمیوں کو لے کر جن کے پاس ایندھن کا گٹھا ہو، ایسے لوگوں کے پاس جاؤں، جو نماز میں حاضر نہیں ہوتے اور ان کے گھروں کو آگ لگادوں۔‘‘

اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ہے:

«مَنْ سَمِعَ النِّدَاءَ فَلَمْ يَجبِ فَلَا صَلَاةَ لَهُ اِلاَّ مِنْ عُذْرٍ» (سنن ابن ماجه، المساجد، باب التغليظ فی التخلف عن الجماعة، ح: ۷۹۳)

’’جو شخص اذان سنے اور مسجد میں نہ آئے تو اس کی نماز نہیں ہوتی الایہ کہ کوئی عذر ہو۔‘‘

اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس نابینا شخص سے فرمایا تھا، جس نے آپ سے گھر میں نماز ادا کرنے کے لیے رخصت طلب کی تھی:

«هَلْ تَسْمَعُ النِّدَاءَ بِالصَّلَاةِ؟»

’’کیا تم نماز کے لیے اذان کی آواز سنتے ہو؟‘‘

اس نے عرض کیا: جی ہاں، تو آپ نے فرمایا:

«فَأَجِبْ» (صحيح مسلم، المساجد، باب يجب اتيان المسجد علی من سمع النداء، ح: ۶۵۳)

’’پس تم جواب دو۔‘‘

یعنی نماز باجماعت ادا کرو۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں:

«لَقَدْ رَأَيْتُنَا(يعنی الصحابة مع رسول الله) وَمَا يَتَخَلَّفُ عَنِها۔أی عن صلاة الجماعة ۔ِ إِلَّا مُنَافِقٌ معلوم النفاق، أَوْ مَرِيضٌ، وَلَقَدْ کَانَ الرَّجُلُ يُؤْتٰی بِه يُهَادٰی بَيْنَ الرَّجُلَيْنِ حَتّٰی يُقَامَ فِی الصَّفِّ» (صحيح مسلم، المساجد، باب صلاة الجماعة من سنن الهدی، ح: ۶۵۴ (۲۵۶، ۲۶۷)

’’میں نے (حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ باجماعت نماز ادا کرتے) دیکھا، نماز باجماعت ادا کرنے سے صرف وہی شخص پیچھے رہتا تھا جو منافق ہوتا(اور اس کا نفاق ظاہرہوتا) یا مریض ہوتا‘‘ اور مریض آدمی کو دو آدمیوں کے درمیان گھسیٹ کر لایا جاتا اور صف میں کھڑا کر دیا جاتا۔‘‘

عقل کا بھی یہی تقاضا ہے کہ نماز باجماعت واجب ہو کیونکہ امت اسلامیہ ایک ہی امت ہے اور کمال وحدت کے لیے ضروری ہے کہ یہ اپنی عبادت اجتماعی طور پر ادا کرے اور عبادتوںسب سے عظیم الشان ،اور سب سے افضل نیز سب سے زیادہ اہم عبادت نماز ہی ہے، اس لئے امت اسلامیہ کے لیے واجب ہے کہ وہ نماز باجماعت ادا کرے۔ اس بات پر تو علماء کا اتفاق ہے کہ نماز سب سے اہم اور عظیم الشان عبادت ہے لیکن اس مسئلہ میں اختلاف ہے کہ کیا اسے باجماعت ادا کرنا صحت نماز کے لیے شرط ہے؟ یا اس کے بغیر بھی نماز ہو جاتی ہے، البتہ جماعت کے بغیر ادا کرنے والا گناہ گار ہوگا؟ اسی طرح اس مسئلہ میں کچھ اور اختلافات بھی ہیں۔ صحیح بات یہ ہے کہ نماز باجماعت ادا کرنا واجب تو ہے مگر یہ صحت نماز کے لیے شرط نہیں، البتہ تارک جماعت گناہ گار ضرور ہوگا الایہ کہ اس کے پاس کوئی شرعی عذر ہو۔ نماز کی صحت کے لیے جماعت کے شرط نہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے نماز باجماعت کو انفرادی نماز سے افضل قرار دیا ہے اور نماز باجماعت کو افضل قرار دینا اس بات کی دلیل ہے کہ انفرادی طور پر نماز ادا کرنا بھی صحیح ہے۔ بہرحال ہر عاقل اور بالغ مرد مسلمان پر واجب ہے کہ سفر میں ہو یا حضر میں نماز باجماعت کا اہتمام کرے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ارکان اسلام

عقائد کے مسائل: صفحہ306

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ