سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(306) وہ رشتی دار جو شعائر میں سست ہوں

  • 10663
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 1281

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اپنے والد اور  رشتہ دار  'پڑوسیوں اور ساتھیوں  کے بارے میں کای موقف اختیار  کرنا چاہیے جو بعض دینی شعائر کے ادا کرنے میں سست  ہوں یا انہیں بالکل  ہی ادا نہ کرتے ہوں حالانکہ میں انہیں نصیحت  بھی کرتا ہوں تو ان سے  معاملے کا کیا طریقہ ہونا چاہیے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ سوال ان بعض  شعائر  کے حوالے  سے مجمل ہے'جن کے بارے میں یہ لوگ کبھی سستی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور کبھی انہیں بالکل ترک کردیتے ہیں'کیونکہ بعض شعائر اسلام اصل اسلام ہیں،بعض  رکن اور بعض  سنت  ہیں۔لہذا ان شعائر  کے مختلف  ہونے کی وجہ سے  سختی اور نرمی کے اعتبار سے  ان کا حکم  بھی مختلف ہوگا اور ان شعائر  کے مختلف  ہونے کی وجہ سے سختی  اور نرمی  کرنے والوں کےلیے حکم بھی مختلف  ہوگا۔ بہرحال والدین کے حوالہ  سے ص آپ  پر یہ واجب  ہے کہ وہ  جب بھی کسی  شعار میں سستی کریں یا اسے ترک کریں توآپ انہیں حکمت  ودانش  کے ساتھ  نصیحت  کریں اور اسے ادا کرنے کی دعوت دیں، جس طرح  کہ حضرت ابراہیم  خلیل اللہ علیہ السلام نے اپنے  والد  کو توحید  کی دعوت دی  تھی۔اللہ تعالیٰ کی نافرمانی  کے کام میں اپنے والدین  کی اطاعت نہ کریں۔ دنیا  کے کاموں میں دستور کے مطابق ان کا ساتھ دیں اور اس شخص کے راستے پر چلیں جو  اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے والا ہو۔

والدین کے علاوہ  دیگر  رشتہ داروں 'پڑوسیوں اور ساتھیوں کو بھی حکمت  کے ساتھ  دعوت  دیں اوراحسن انداز  میں ان سے گفتگو کریں۔ جو شخص آپ کی دعوت  کو قبول  کرلے وہ آپ کا دینی بھائی ہے اور جو قبول نہ کرے توآپ بھی اس  سے قطع  تعلق کرلیں بشرطیکہ  وہ اسلام  کے کسی  اصل ،رکن یا متفق علیہ فرائض میں سے کسی ایک کا تارک ہو،ایسے شخص سے تعلق نہ رکھیں اور اگر وہ کسی  سنت  یا مستحب  معاملہ میں  کوتاہی  کرتا یا اس کا تارک  ہو تو اس سے  کوئی بھی  نہیں بچ سکتا سوائے اس کے جسے اللہ تعالیٰ بچائے'تو ایسے شخص سے قطع  تعلق نہ کریں بلکہ نیکی کے کام  میں اس سے تعاون کریں اور جس کام کو وہ ترک کرتا ہے'اس کے بارے میں اسے ہمیشہ  نصیحت  کرتے رہیے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج4ص238

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ