سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

  • 930
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 144

سوال

دعا
فرض نماز کے بعد اجتماعی دعا السلام عليكم ورحمة الله وبركاته فرض نماز کے بعد امام صاحب کا دعا کروانا کیساہے اور اگر کوئی دعا کروانے کا کہے تو اس کا کیا حکم ہے۔؟ الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته! الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! فرض نماز کے بعد اجتماعی دعا کے ثبوت میں کوئی مقبول حدیث نہیں ہے ، نہایت تعجب کی بات ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم مدینہ منورہ میں دس (١٠) سال رہے ، پانچوں وقت نمازیں پڑھائی ، صحابہ کرم کی کثیر تعداد نے آپ صلی الله علیہ وسلم کی اقتداء میں نماز پڑھی ، مگر ان میں سے کوئی بھی اجتماعی دعا کا ذکر نہ کرے تو یہ اس کے بطلان کی واضح دلیل ہے ! مولانا عبدالرحمان مبارکپوری کہتے ہیں کہ اگر کوئی انفرادی طور پر نماز کے بعد دعا ہاتھ اٹھا کر مانگ لیتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ! سیّدنا سلمان فارسی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ '' رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا " تمہارا رب برا ہی کرنے والا اور سخی ہے ، جب بندہ اس کے حضور ہاتھ اٹھاتا ہے تو انھیں خالی لوٹاتے ہوۓ اسے شرم آتی ہے '' ( ابن ماجہ : الدعا باب : رفع الیدین فی الدعا : ٣٨٦٥) امام ابن تیمیہ ، ابن قیم ، ابن حجر رحم الله اور بہت سے علماء نے فرض نماز کے بعد اجتماعی دعا کا انکار کیا ہے اور اسے بدعت کہا ہے - رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا " عنقریب میری امّت میں ایسے لوگ پیدا ہونگے جو پانی کے استعمال میں اور دعا کرنے میں حد سے تجاوز کریں گے " ( ابو داوؤد، الوتر ، باب الدعا ، حدیث ٩٦ ، ١٤٨٠ ، ابن ماجہ ، الدعا : ٣٨٦٤ ، اسے حکیم اور امام ذہبی نے صحیح کہا ہے) اجتماعی دعا کی دلیل میں بیان کی جانے والی تمام روایت ضعیف ہیں ، تفصیل حسب ذیل ہے ؛ ١- سیدنا انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ " جو بندہ ہر نماز کے بعد اپنے دونو ہاتھ پھیلا کر دعا کرے ، الله تعالیٰ اس کے ہاتھوں کو نامراد نہیں لوٹاتا " - (ابن السنی) .. اسکی سند میں (الف) اسحاق بن خالد ہے جو منکر احادیث روایت کرتا ہے- (ب) امام احمد بن حنبل رحمہ الله فرماتے ہیں کہ (اسکا ایک اور راوی) عبدالعزیز بن خصیف کا سیّدنا انس سے سننا معلوم نہیں “ (ج) علاوہ ازیں اس روایت میں اجتماعی دعا کا ذکر نہیں ہے - (٢) سیّدنا یزید بن اسود عامری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ " رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے نماز فجر کا سلام پھیرا اور دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا مانگی " (فتاویٰ نزیریہ) اس حدیث کی سند حسن ہے مگر مولانا عبید اللہ رحمانی لکھتے ہیں : " کتب احادیث کے اندر اس حدیث میں ( ورفع یدیہ فدعا ) دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا مانگی - کے الفاظ نہیں ہیں ،، علاوہ ازیں اس میں بھی اجتماعی دعا کا ذکر نہیں ہے " امام شاطبی کتاب الاعتصام۱/۲۵۲ میں بدعات اضافیہ سے مفصل بحث کے نتیجے میں ایک جگہ راقم ہیں ۔ امثلۃ ھذا الاصل التزام الدعاء بعدا لصلوٰت بالھیئۃ الاجمتاع مقصود اس سے یہ ہے کہ اس چیز اصل میں صحیح اور نا جائز ہوتی ہے مگر تخصیص کی وجہ سے بدعت ہو جاتی ہے نماز کے بعد اجتماعی صورت میں دُعا کو ضروری سمجھنا اور پاندی کرنا اسی قسم سے ہے۔ اسی طرح ایک ا ور مقام پر لکدھتے ہیں : '' اجتماعی شکل میں دُعا مانگنے اور ذکر کرنے میں جس کیلئے اہل بدعت جمع ہو کر مانگتے ہیں سلف صالحین سے منع وارد ہے۔" البتہ اگر کوئی شخص دُعا کیلئے اپیل کرے تو پھر ہاتھ اٹھا کر دُعا مانگی جا سکتی ہے ۔ (تحفہ الا حوذی) ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب فتوی کمیٹی محدث فتوی

ماخذ:محدث فتویٰ کمیٹی