سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

  • 77
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 382

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ٹیکس بچانے کے لیے رسید آدھی بنانا۔

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سب سے پہلے اس بات کا طے ہونا ضروری ہے کہ کیا مسلمان حکمران اپنی رعایا پر کسی قسم کا ٹیکس لگا سکتا ہے یا نہیں۔ اگر مسلمان حکمران کسی ہنگامی صورت میں اجتماعی معاملات میں تعاون کے طور پر عوام کے مخصوص یعنی اہل ثروت طبقہ سے اگر کچھ وصول کرتا ہے تو یہ جائز ہے بشرطیکہ وہ اس ٹیکس کو ناگزیر اجتماعی معاملات میں صرف کرے لیکن فی زمانہ ہم دیکھتے ہیں کہ آج نہ تو صحیح معنوں میں ہمیں کوئی ایسا حکمران دکھائی دیتا ہے اور نہ ہی وہ یہ ٹیکس مسلمانوں کے اجتماعی معاملات میں انصاف کےساتھ صرف کرتے ہیں۔ موجودہ ٹیکسوں پر علماء کی دو آراء ہیں: 1۔یہ ٹیکس ظلم ہے 2۔جائز ہے۔ اور اس ٹیکس کو ظلم سمجھنے والے لوگ اس سے بچنے کے لیے غصب پر محمول کرتے ہوئے جھوٹ بولنے کی اجازت دیتے ہیں۔ اور جو لوگ اسے جائز سمجھتے ہیں وہ اس کی مخالفت کے قائل ہیں۔ ہمارا مؤقف اس میں یہ ہے کہ اگر کسی نے حکومت کے ساتھ کوئی معاہدہ کی شکل کہ جس میں حکومت نے شرط رکھی ہو کہ ہم آپ کو شہریت تب دیں گے جب تک آپ کے ان کے احکام کو نہ مانیں تو اس صورت میں ان کی بات ماننا معاہدے کے تحت ضروری ہے لیکن اس میں غیر شرعی امور شامل نہیں ہیں ۔ ٹیکس چونکہ ناموافق حالات میں اجتماعی کاموں کے لیے جائز ہے لیکن یہ جن امور پر صرف ہورہا ہے ان میں انصاف سے کام نہیں لیا جارہا ۔ ان حالات میں اگر ٹیکس سے متعلقہ حکومت کے ساتھ کوئی معاہدہ ہوا ہےتو اس کی پاسداری ضروری ہے اور ٹیکس کی ادائیگی کرنا چاہیے بصورت دیگر اگر اس سے بچنے کے لیے کوئی راہ نکالی جاسکتی ہے تو جائز ہے۔ واللہ اعلم

ماخذ:محدث فتویٰ کمیٹی