سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

  • 337
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 277

سوال

رکوع سے اٹھنے کی تسبیح

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

امام رکوع سے اٹھتے وقت صرف تسمیع پڑھے یاتحمید بھی پڑھے گا؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مقتدی اور امام دونوں ہی تسمیع بھی پڑھیں گے اور تحمید بھی ،سیدنا انس بن مالک فرماتے ہیں: «أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ركب فرسا ، فصرع عنه فجحش شقه الأيمن ، فصلى صلاة من الصلوات وهو قاعد ، فصلينا وراءه قعودا ، فلما انصرف قال : " إنما جعل الإمام ليؤتم به ، فإذا صلى قائما ، فصلوا قياما ، فإذا ركع ، فاركعوا وإذا رفع ، فارفعوا ، وإذا قال : سمع الله لمن حمده ، فقولوا : ربنا ولك الحمد………الحدیث»(بخاری، کتاب الآذان باب انما جعل الامام لئوتم به (۷۸۹) ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ گھوڑے پر سوار ہوئے تو اس گر گئے جس کے نتیجے میں آپ ﷺ کا دائیاں حصہ زخمی ہوگیا۔ تو آپ ﷺ نے نمازوں میں کوئی ایک نماز بیٹھ کر پڑھائی تو ہم نے بھی آپﷺ کے پیچھے بیٹھ کر ہی نماز ادا کی۔ جب آپﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: یقیناً امام صرف اقتداء کیے جانے کے لیے بنایا گیا ہے ۔ لہٰذا جب وہ کھڑا ہو کر نماز پڑھے تو تم بھی کھڑے ہو کر نماز پڑھو اور جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو اور جب وہ رکوع سے سر اُٹھالے تو تم رکوع سے سر کو اُٹھاؤ اور جب وہ سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم ربنا لک الحمد کہو…الخ اس حدیث میں مقتدی کو تسمیع ( یعنی سمع اللہ لمن حمدہ) سے روکنے والی کوئی دلیل ہے ہی نہیں۔ کیونکہ نبی اکرم ﷺ نے تو مقتدی کو اس بات کا حکم دیا ہے کہ وہ اپنے امام کی اقتداء کرے اور امام سے سبقت نہ لے جائے اور یہ کہ وہ امام کے سمع اللہ لمن حمدہ کہہ لینے کے بعد ربنا لک الحمد کہے اور مقتدی کو تسمیع سے منع نہیں کیا ہے لیکن اس کا ذکر تک بھی نہیں فرمایا اور اصول میں یہ بات مسلمہ ہے کہ عدم ذکر ، عدم ثبوت کو مستلزم نہیں۔ البتہ تسمیع کے مقتدی کے لیے مشروع ہونے کے کئی ایک دلائل موجود ہیں ان میں سے ایک حدیث عبداللہ بن عمر ؓ والی ہے جسے بخاری نے روایت کیا ہے وہ یوں ہے: «أن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما ، قال : " رأيت النبي صلى الله عليه وسلم افتتح التكبير في الصلاة ، فرفع يديه حين يكبر حتى يجعلهما حذو منكبيه ، وإذا كبر للركوع فعل مثله ، وإذا قال : سمع الله لمن حمده ، فعل مثله ، وقال : ربنا ولك الحمد ، ولا يفعل ذلك حين يسجد ، ولا حين يرفع رأسه من السجود» (بخاری، کتاب الاذان، باب الی این یر فع یدیه (۷۸۳) عبداللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ ﷺ نے تکبیر کہہ کر نماز کا آغاز فرمایا اور جب تکبیر کہی تو اپنے ہاتھوں کو کندھوں کے برابر اُٹھایا اور جب رکوع کیا تو پھر اسی طرح (ہاتھوں کوبلند)کیا اور جب سمع اللہ لمن حمدہ کہا تو اسی طرح کیا اور ربنا ولک الحمد کہا اور یہ (ہاتھوں کو بلند کرنا) آپ ﷺ نے سجدوں میں جاتے اور اُٹھتے ہوئے نہ کرتے تھے۔ اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوئی کہ رسول اللہ ﷺ تسمیع و تحمید دونوں ہی کہا کرتے تھے اور یہ بات معلوم ہے کہ رسول اللہ ﷺ اکثر تو امام ہوتے تھے اور آپﷺنے جبریل (۱)اور عبدالرحمن بن عوف ؓ(۲) کی اقتداء میں بھی نماز اداکی ہے۔ اور یہ حدیث مطلق ہونے کی وجہ سے امام، منفرد اور مقتدی تینوں کے لیے تسمیع و تحمید کہنے پر دلالت کرتی ہے۔ امام شوکانی طویل بحث کے بعد فرماتے ہیں: "جو اس بات کے قائل ہیں کہ تسمیع و تحمید کو ہر نمازی کہے گا وہ اس حدیث سے استدلال کرتے ہیں مگر یہ دعویٰ سے زیادہ خاص ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کی امامت والی نماز کا بیان ہے جیسا کہ اکثر ہوتا تھا، مگر رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمان کہ: "ایسے نماز پڑھو جیسا کہ مجھے نماز پڑھتے دیکھتے ہو" اس اختصاص کی نفی کرتا ہے کہ یہ امام کےلیے ہی خاص ہے (یعنی تسمیع و تحمید کو جمع کرنا) اور وہ اس بات سے بھی دلیل پکڑتے ہیں جس کوطحاوی اور ابن عبدالبر نے نقل کیا ہے کہ منفرد (تسمیع و تحمید کو) جمع کرےگا، اور طحاوی نے اسی بات کو امام کے تسبیح و تحمید کو جمع کرنے کےلیے بھی حجت بنایا ہے تو مقتدی بھی اس میں شامل ہوجائے گا، کیونکہ اصول یہ ہےکہ نماز میں جو کام مشروع ہے وہ تینوں (امام، مقتدی، منفرد) کےلیے برابر طور پر مشروع ہے،ہاں مگر شریعت جس کو مستثنیٰ کردے۔" (نیل الأوطار للشوکانی ، ۲۷۸/۲) اور امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "امام، مقتدی اور منفرد تینوں ہی رکوع سے سر اُٹھاتے ہوئے سمع اللہ لمن حمدہ کہیں گے اور جب کہنے والا تسمیع سے فارغ ہوگاتو ساتھ ہی ربنا لک الحمد بھی کہے گا۔ (کتاب الأم للشافعی، ۱۱۰/۱) مذکورہ بالا دلیل میں یہ بات معلوم ہوئی کہ تسمیع و تحمید، امام، مأموم اور منفردسب کےلیے مشروع ہیں ۔ رہا یہ سوال کہ اگر مقتدی تسمیع و تحمید (سمع اللہ لمن حمدہ)نہ کہے تو کیا حرج ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ تینوں (امام، مقتدی، منفرد) میں سے جو کوئی بھی تسمیع کو ترک کرے گا اس کی نماز میں نقص (کمی) واقع ہوگا۔ جیسا کہ مسئی الصلاۃ والی حدیث میں ہے: «فقال النبي صلى الله عليه وسلم : " إنه لا تتم صلاة لأحد من الناس حتى يتوضأ ، فيضع الوضوء - يعني مواضعه - ثم يكبر ، ويحمد الله جل وعز ، ويثني عليه ، ويقرأ بما تيسر من القرآن ، ثم يقول : الله أكبر ، ثم يركع حتى تطمئن مفاصله ، ثم يقول : سمع الله لمن حمده حتى يستوي قائما ، ثم يقول : الله أكبر ، ثم يسجد حتى تطمئن مفاصله ، ثم يقول : الله أكبر ، ويرفع رأسه حتى يستوي قاعدا ، ثم يقول : الله أكبر ، ثم يسجد حتى تطمئن مفاصله ، ثم يرفع رأسه فيكبر ، فإذا فعل ذلك فقد تمت صلاته " (ابو داؤد، کتاب الصلاۃ ، باب صلاۃ من لا یقیم صلبہ فی الرکوع والسجود (۸۵۶) وفی روایۃ لہ: فاذا فعلت فقد تمت صلاتک وما انتقص من هذا شيئا فانما انتقصته من صلاتک (حوالة سابقۃ) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: لوگوں میں سے کسی کی بھی نماز اس وقت تک مکمل نہیں ہوتی جب تک وہ اچھی طرح وضو نہ کرلے اور پھر تکبیر کہے اور اللہ کی حمد و ثناء بیان کرے اور قرآن سے جو میسر آئے پڑھے ، پھر وہ اللہ اکبر کہے پھر رکوع کرے حتی کہ اس کے جوڑ اطمینان میں آجائیں پھر وہ سمع اللہ لمن حمدہ کہے حتی کہ برابر طور پر (سیدھا ) کھڑا ہو جائے پھر اللہ اکبر کہے پھر سجدہ کرے حتی کہ اس کے جوڑ اطمینان میں آجائیں، پھراللہ اکبر کہے اور اپنے سر کو اٹھائے حتی کہ برابر ہو کر بیٹھ جائے پھر اللہ اکبر کہے پھر سجدہ کرے حتی کہ اس کے جوڑ مطمئن ہوجائیں پھر اپنے سر کو اٹھائے اور تکبیر کہے تو پس جب وہ یہ کام کرلے گا ، تب اس کی نماز مکمل ہوگی۔ ابوداؤد ہی کی ایک اور روایت میں ہے کہ (رسول اللہ ﷺ نے اس کو فرمایا) پس جب تو یہ کرلے گا تو تیری نماز مکمل ہو گی اور ان میں سے تو جس کو بھی چھوڑے گا تو تیری نماز میں نقص رہ جائے گا۔" امام ابن حزم الظاہری نے اسی حدیث کی روشنی میں ہی فرمایا ہے: " رکوع کے بعد کا قیام قدرت پانے والے پر فرض ہے حتی کہ وہ اعتدال کے ساتھ کھڑا ہوجائے اور سمع اللہ لمن حمدہ کہنا رکوع سے اٹھتے ہوئے ہر نمازی پر فرض ہے خواہ وہ امام ہو، مقتدی ہو یا منفرد، نماز کی تکمیل اس کے بغیر نہیں ہے۔ (محلی ابن حزم ۲۵۵/۳) اور ابن حزم کی بات بالکل درست ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ فرمارہے ہیں: "لوگوں میں سے کسی کی بھی نماز مکمل نہیں" خواہ وہ امام ہو، مقتدی ہو یا منفرد ، مطلق طور پر نماز کی نفی فرمائی ہے۔ لہٰذا جب تک کوئی بھ سمع اللہ لمن حمدہ نہ کہےگا اس کی نماز مکمل نہیں ہوگی اور پھر آخر میں رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمانا: «وما انتقص من هذا شيئا فانما انتقصته من صلاتک»نماز کے ترک تسمیع کی بنا پر ناقص ہونے کی واضح دلیل ہے کیونکہ جن چیزوں کو رسول اللہ ﷺ نے شمار کیا ہے تسمیع بھی ان میں شامل ہے۔ «فقولوا ربنا ولک الحمد» کا معنیٰ:۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «اذا قال الامام سمع الله لمن حمده فقولوا ربنا لک الحمد» "جب امام سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم ربنا لک الحمد کہو" لہٰذا امام صرف سمع اللہ لمن حمدہ کہے اور مقتدی صرف ربنا لک الحمد کہے کیونکہ یہ عبارت تقسیم کا تقاضا کرتی ہےکہ ایک عمل امام کےلیے ہے اور دوسرا مقتدی کےلیے۔ لیکن یہ قول باطل ہے کیونکہ اس حدیث میں امام کےلیے تحمید اور مقتدی کے لیے تسمیع کا ذکر ہی نہیں کہ امام تحمید اور مقتدی تسمیع نہ کہے اور اصول میں یہ بات مسلمہ ہے کہ عدم ذکر عدم ثبوت کو مستلزم نہیں ہے۔ امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتےہیں: «ولا حجة لهم فيه لانه امر بان يقول اللهم ربنا لک الحمد ونحن نقوله فاما اذا قال معه غيره فليس بمذکور فی هذا الخبر» (مختصر خلافیات للبیہقی ۳۹۳/۱) مذکورہ بالا بحث سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ تسمیع و تحمید امام و مأموم و منفرد تینوں کے لیے لازمی و ضروری ہے اور دونوں میں سے کسی بھی چیز کا ترک تینوں کی نماز میں کمی پیدا کردیتا ہے۔اوار جو مقتدی کو تسمیع نہ کہنے کا فتویٰ دیتا ہے اس نے پاس فقولوا ربنا لک الحمد والی حدیث کے سوا اور کوئی دلیل نہیں ہے اور یہ دلیل بھی ان کے دعویٰ کو ثابت نہیں کرتی ۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے مقتدی کو "تحمید" کا حکم تو دیا ہے لیکن " تسمیع " سے منع نہیں فرمایا۔ اور اصول کی دنیا میں یہ بات مسلمہ ہے کہ عدم ذکر عدم ثبوت کو مستلزم نہیں ہے۔ لہٰذا اس حدیث سے مقتدی کےلیے ترک تسمیع پر استدلال کرنا باطل ہے۔ جبکہ دیگر روایات سے مقتدی کےلیے تحمید و تسمیع کہنا ثابت ہے۔ هذا ما عندى والله اعلم بالصواب

فتوی کمیٹی

محدث فتوی

ماخذ:محدث فتویٰ کمیٹی